بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟
شہباز شریف اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر ان صاحب کو چوک میں نہ گھسیٹا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ پھر وقت کی آنکھ نے دیکھا کہ پیٹ پھاڑ کر عوام کا پیسہ نکالنے والوں نے زرداری جی کو لاہور میں کھانے کی پُر تکلف دعوت دی اور 72 ڈشیں پیش کیں لیکن وہ آج بھی ’’شریف‘‘ بھی ہیں۔ موصوف بار بار فرماتے رہے کہ دھیلے یا کوڑی کی کرپشن نکلے تو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔ کاش…! محترمہ کلثوم نواز کی وفات پہ بھی سیاست، سیاست کھیلنے سے باز نہیںآئے۔ کپتان طنز کرتے‘ ہنستے مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ اگر انڈین فلموں میں ہوتے تو اور بھی مقبول ہوتے اور بڑا ہی پیسہ بناتے۔ کپتان بھی مدتوں سے ایک ہی بول بو لے جا رہے ہیں کہ میں چھوڑوں گا نہیں۔ یاد فرمائیے وہ وقت جب ٹی وی ٹاکروں مذاکروں میں میاں نواز شریف کے پلیٹ لیٹس نیچے اوپر جانے کا موسم تھا‘ نواز شریف زندگی موت کی کشمکش میں تھے جب بیماری ’’شدید سے شدید تھی‘‘ جب ڈاکٹر عدنان ادیب ہو گئے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ’’کہیں ہم نواز شریف کو کھو ہی نہ دیں‘‘ علاج کیلئے باہر جانے کا فیصلہ کرنا اور اجازت دینا حکومت وقت کاکام تھا تب کابینہ کے ہنگامی اجلاس کے بعد وزیرِ اعظم کے یہ بول ریکارڈ پر ہیں کہ وزراء مان ہی نہیں رہے تھے لیکن مجھے ہی رحم و ترس آ گیا بیمار نواز شریف پر۔ اب آپ ہی بتائیں کہ کدھر گیا یہ جملہ کہ میں چھوڑوں گا نہیں۔ پی ٹی آئی دور میں وفاقی آڈیٹر جنرل کی پہلی آڈٹ رپورٹ کے مطابق 2019-20 ء میں 40 وفاقی وزارتوں اور محکموں میں 270 ارب روپے کی کرپشن ہوئی۔ رپورٹ میں جعلی رسیدوں‘ بد عنوانیوں اور بے ضابطگیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ ’’میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘ ایسے ارشادات فرمانے والے کہاں ہیں اور کہاں ہیں چیئرمین نیب جو فرماتے ہیں کہ نیب کا ایمان کرپشن فری پاکستان… جہانگیر ترین‘ خسرو بختیار و دیگر وزیروں مشیروں سب سے سمجھوتے ہوگئے کسی کا کچھ نہیں بگڑا۔ کاش کوئی کپتان اور شریف زادے کو سمجھائے کہ میں چھوڑوں گا نہیں اور میں سیاست چھوڑ دوں گا ایسی بولیاں بولنا چھوڑ دیں‘ جب آپ ایسے بیان چھوڑتے ہیں تو …! عہد موجود میں تجزیہ کاری کے ایک ماہر فرماتے ہیں کہ روایتی سیاستدانوں سے مفاہمت کر کے عمران خان روایتی اور مفاہمتی ہو گئے ہیں۔ دل کرتا ہے کہ موصوف کے دربار حاضری دوں‘ زانوے تلمذ تہ کروں اور عرض کروں کہ جناب! آپ کے کپتان نظریاتی اور انقلابی کب تھے...... ؟ ماضی میں بیرونی قرضوں کے ڈھول پیٹنے والے آج بھی بیرونی بھاری قرضوں پہ غور فرمائیں ۔ اس بات کا انکشاف اکنامک افیئرزنے اپنی ایک رپورٹ میں کیا کہ رواں مالی سال 7 ارب 50 کروڑ ڈالر بیرونی قرض لیا گیا اور اگلے سال 15 ارب ڈالر کے نئے قرضے لینے کے ارادے ہیں۔ سوچنا یہ ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہو گا کل کو سود سمیت کیسے یہ قرضے واپس کریں گے۔ میرے پاکستان میں غربت بھوک بے روزگاری ہے اور مہنگائی آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بڑے بڑے محلات بنگلوں میں امیروں کے گھوڑے اور کتے تو سونے کے نوالے لیتے ہیں جبکہ عام آدمی دو وقت کی روٹی کیلئے مارا مارا پھرتا ہے کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ سید خورشید شاہ جی فرماتے ہیں کہ تبدیلی کا سفر ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ سے شروع ہوا ’’انا اللہ مع الصابرین‘‘ سے ہوتا ہوا ’’انا اللہ وانا الیہ راجعون‘‘ کی طرف گامزن ہے۔ پیر و مرشد شاہ جی نئے پاکستان سے ’’مخول‘‘ فرما رہے ہیں انھیں کون بتلائے کہ جلد نئے پاکستان کا نیا سورج طلوع ہو گا اور ایک نئی سحر کا آغاز ہو گا کیونکہ وزیر اعظم کا مرغی پال پروگرام بحال کر دیا گیا ہے جو کورونا لاک ڈائون کی وجہ سے مارچ میں موخر کر دیا گیا تھا اب یہ پروگرام پھر سے شروع کیا جارہا ہے جس سے معیشت بڑی مضبوط ہو گی اور ملک ترقی کرے گا۔ کیسا بے مثال و لازوال پروگرام ہے مرغی پال جو آج تک کسی نے نہیں دیا اور اُمید ہے کٹے پال پروگرام بھی جلد شروع کیا جائے گا۔ وزیرِ اعظم نے مرغی پال پرو گرام اور گھروں میں سبزیاں اُگانے کے کچن گارڈننگ پروجیکٹس کو تیز کرنے کی ہدایت کے ساتھ ان کیلئے فنڈز بھی جاری کرنے کے احکامات جاری کر دئیے ہیں۔ یہ خبر بلکہ بہت ہی بڑی خوشخبری سن کر شہریوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی