ہمیں اکثر اپنوں سے شکوہ ہوتا ہے کہ انہوں نے ہمارا دل دکھایا ہے۔ ہماری محبت کا صلہ نہیں دیا۔ ہماری قدر نہیں کی۔ دیکھا جائے تو غلطی ہماری اپنی ہوتی ہے۔ غلطی ہوتی ہے حد سے بڑھ کر محبت کرنے کی۔ غلطی ہماری ہوتی ہے کہ ہم اس محبت کو اپنی کل کائنات بنا لیتے ہیں۔ ان کے وجود اور ان کی باتوں کو سوچ کا محور بنا لیتے ہیں اور پھر اچانک ایک جھٹکا سا لگتا ہے جو ہمیں اس سراب کا احساس دلاتا ہے۔ ہمیں جھنجھوڑتا ہے کہ تم حد سے تجاوز کر بیٹھے ہو۔ تم اس دنیوی محبت کے سراب میں کسی کو بھول بیٹھے ہو۔ تم اس ذات کو بھول بیٹھے ہو جس نے تمہیں اس دنیا میں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے۔ تم اس ذات کو بھول بیٹھے ہو جس کے پاس تمہیں لوٹ کر جانا ہے۔ تم اس ذات کو بھول بیٹھے ہو جو تمہاری بن مانگی دعاؤں کو سنتا اور پلک جھپکتے قبول کر لیتا ہے۔ تم اس ذات کو بھول بیٹھے ہو جس نے تمہاری مشکل اس وقت آسان کی جب دل ڈر سے سہما ہوا تھا۔ تم اس ذات کو بھول بیٹھے ہو جو ستر ماؤں سے بڑھ کر تم سے محبت کرتا ہے اور جس کا حق ہے کہ صرف وہی ذات ہماری سوچ کا محور ہو اور اس سے محبت زندگی کا نصب العین۔ وہ کوئی ایک لمحہ ہوتا ہے کہ ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہماری تکلیف کی وجہ ہماری اپنی امیدیں ہیں جو ہم ان لوگوں سے وابستہ کر لیتے ہیں اور پھر خود بھی تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان کو بھی کر دیتے ہیں۔ قاعدہ بس یہ ہے کہ اپنی زندگی میں موجود لوگوں کا حق صرف اتنا ہی ادا کریں جتنا اﷲ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اس سے تجاوز کریں گے تو تکلیف اٹھائیں گے۔ اگر کبھی آپ کو زندگی میں اس احساس نے گھیرا ہے کہ میری زندگی کی خوبصورتی رب العالمین سے رشتہ جوڑنے اور اس احکام کے آگے سر خم کرنے میں ہے جو کہ حقوق اﷲ اور حقوق العباد دونوں سے متعلق ہیں، تو یقین جانیئے یہ بہت قیمتی احساس ہے۔ اس احساس کو کہیں قلم بند کر لیں اور اسے روز پڑھیں۔ آخرت بھی سنور جائے گی اور اس فانی دنیا میں رہنے کا ہنر بھی سیکھ جائیں گے۔ لوگوں سے شکوے ختم ہو جائیں گے اور اگر ختم نہ ہوں تو کم ضرور ہو جائیں گے۔(حافظہ ضحی تصور۔کراچی)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024