پاک سعودی تعلقات
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہر دور میں بہترین اور دوستانہ رہے ہیں کیونکہ دونوںممالک کا باہمی تعلق بہت مضبوط ہے۔جس کی مثال گزشتہ دنوں دیکھنے میں آئی جب پاکستان بھرمیں عام انتخابات کا انعقاد ہوا جس کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف ملک بھر کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری اور نتائج سے واضح ہوگیا کہ پاکستان کی عوام نے تحریک انصاف کو ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے کیلئے ووٹ دیا ہے۔ جس کے بعد چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کا وزیراعظم بننا بھی واضح ہوگیا تو سب سے پہلے برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے پاکستان میں سفیر محترم نواف بن سعید المالکی نے بنی گالہ جاکر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کو انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرنے پر خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور سعودی عرب کے عوام کی جانب سے مبارکباد دی اور واضح کیا کہ سعودی عرب پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اقتدارکی منتقلی کے بعدپاکستان کا دورہ کریں گے ۔ سعودی عرب کے سفیر کی اس بات سے واضح ہوگیا کہ پاکستان میںچاہے کسی بھی جماعت کی حکومت ہو لیکن سعودی عرب کے فرمانروا اور وہاں کے عوام کی نظر میں سب برابر ہیں اور وہ پاکستان اور اس کی عوام سے محبت کرتے ہیں۔ حالانکہ یہاںکئی عناصر یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ سعودی عرب کی حکومت مخصوص لوگوں سے بات کرنے کے خواہاں اوران سے دوستی رکھتے ہیں لیکن عام انتخابات میںکامیابی کے بعد سعودی عرب کے سفیر کی عمران خان سے ملاقات اور سعودی فرمانروا کاپیغام پہچانا ان کے ان اقدامات کی عکاسی ہے کہ وہ پاکستان سے پیار کرتے ہیں۔ اس کی کئی مثالیں پہلے ادوار حکومت میں بھی ملتی رہی ہیں قیام پاکستان سے لے کر آج تک سعودی عرب اور پاکستان ساتھ ساتھ رہے۔قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد نوابزادہ لیاقت علی خاں اس کے بعد کئی وزیراعظم آئے اور پھر صدور آئے ۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت آئی تو پاک سعودی تعلقات کی مثال دی جاتی تھی اس وقت کے سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز کے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ اچھے اور دوستانہ تعلقات رہے اور 1974میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور میں منعقدہوئی تو شاہ فیصل بن عبدالعزیز بھی اپنے وفد کے ہمراہ پاکستان تشریف لائے تھے اور عوام نے انکا بھرپور اور والہانہ استقبال کیا ۔بھٹو دور حکومت کے بعد ضیاء دور میں بھی تعلقات بہترین رہے۔ جس کے بعدبینظیر بھٹو اور نواز شریف کے دو دو ادوار حکومت آئے تو تعلقات مزید مضبوط ہوتے گئے۔ پھر جنرل پرویز مشرف آئے توتب بھی اچھے تعلقات رہے اور سعودی عرب کی حکومت نے نواز شریف کیلئے پرویزمشرف سے بات چیت بھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے بعد نواز شریف تیسری بار اقتدار میں آئے تو سعودی عرب کی دوستی میںکوئی کمی نہیںآئی بلکہ مزید بڑھی اور سعودی عرب کی حکومت نے پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے دو ارب ڈالر بھی دیئے اور اب اقتدار انتقال کے موقع پر سعودی عرب کی جانب سے عمران خان کو مبارکباد۔ پاک سعودی عرب تعلقات کی یہ مختصر سی کہانی میں نے بیان کی ہے۔ ورنہ اس دوستی کو لکھنے کیلئے کئی کتابیں درکار ہوں گی۔ لیکن سعودی سفیر کی عمران خان سے ملاقات کے بعد کچھ عناصر کی جانب سے بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا کہ عمران خان سے ملاقات کا مقصد نواز شریف کیلئے این آر او حاصل کرنا ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے ان تمام باتوں کی تردیدکرتے ہوئے کہا کہ اس ملاقات کاایک ہی مقصد تھا وہ تھا عمران خان کو مبارکباد اور پاک سعودی تعلقات۔ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی بے بنیاد اور غلط باتیں منسوب نہ کی جائیں۔
بلکہ یہ خبریں قابل مذمت ہیں اوران باتوں کا ملاقات میں دور دورتک کوئی ذکر ہی نہیں ہوا۔ ہمارے میڈیا کو بھی چاہئے کہ اس طرح کی خبریں جاری کرنے سے قبل تصدیق اور تحقیق کرے تاکہ کوئی جھوٹی اور بے بنیاد خبر نہ چل سکے جس سے پاک سعودی تعلقات میں کوئی فرق آئے اور دشمن عناصر کو باتیں کرنے کا موقع ملے۔