دینی حلقے نئی حکومت کے اسلامی شعار کے نفاذ کے لئے ہاتھ مضبوط کریں ۔۔۔۔
صحرانامہ
عبدالشکور ابی حسن بیورو چیف کویت سٹی
دین سیاست سے کبھی جدا نہیں ہوا اگر سیاست سے دین کو نکلا دیا جائے تو چنگاری رہ جاتی ہے۔دین اسلام ایک امن یک جہتی اور عفو کا نام ہے۔نبی مہربان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقعہ پر جو خطبہ دیا اور اسلام کو مکمل ضابطہ حیات بنا دیا اور ساتھ کہہ دیا جو اس پر عمل کرے گا وہ فلاح پائے گا۔آج کے دور میں ہم دم بھرتے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا لیکن ان کے ارشادات پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔اسلام نے سب سے پہلے انسانیت کا درس دیا جبکہ ہم آدمیت کے خول سے باہر نہیں نکل رہے جس کی وجہ سے ہم انسانیت سے دور ہوتے گے۔اسلام میں سب سے زیادہ عمل دخل علمائ مشائخ۔نیک ایماندار لوگوں کا رہا ہے اگر ذاتیات کا لبادہ اتار پھینکے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم امن سکون اور بھائی چارے کی فضا کو برقرار نہ رکھ سکیں۔پاکستان کی سیاست میں علما۔مشائخ۔صوفیہ۔روحانیت۔پیریت کا بہت بڑا عمل دخل ہے جن کی بے پناہ قربانیاں ہیں پاکستان کو حاصل کرنے میں۔قائد اعظم محمد علی جناح نے جب پاکستان کو حاصل کیا تو سب سے پہلے انہوں نے اپنی " میں " کو دفن کیا اور قوم بنا کر قوم کو ہی اس کا کریڈٹ دیا۔قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد پاکستان میں "میں "نے دوبارہ جنم لیا اور اس "میں "نے پاکستان کے امن کو برباد کرنے میں بنیاد رکھ دی۔ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کو زیر کرنے کے لئے "میں " استعمال کیا جس سے ملک میں انتشار نے جنم لیا اور پاک وردی کو داغ لگادیا گیا۔فاطمہ جناح تو داغ رفاقت دے گئی لیکن ملک میں پیغام ضرور چھوڑ گئی کہ آمر اور جابر کا مقابلہ جمہوری نظام سے ہی کیا جاسکتاہے لیکن یہ سب مہذب ملکوں میں ہوتا ہے جہاں دھونس کی سیاست نہیں چلتی
پاکستان تحریک انصاف نے ملک کے تین بڑے صوبوں اور مرکز میں اکثریت حاصل کر لی ہے ،اب اس بات میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت بنے گی ،تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اپنی کئی تقریروں میں کہہ چکے ہیں کہ ہم ملک میں خلافت راشدہ کا نظام لائیں گے اور مدینے کا ماحول پیدا کریں گے۔لیکن اس کے لئے سب کو معاف کرکے ساتھ لے کر چلنا پڑے گا،انہوں نے یہ بھی کہا کہ مدارس میں پڑھنے والے بچے بھی ہمارے ہی بچے ہیں ،ان کو قومی دھارے میں لائیں گے ،ان کی محرومیوں کا ازالہ کریں گے ،اس طرح کی اور کئی نیک خواہشات کا اظہار انہوں نے بار ہا اپنے بیانیہ میں کیا ،عمران خان کو قریب سے جاننے والوں کا کہنا ہے کہ وہ ایسی شخصیت ہیں کہ ان کو جو بات سمجھ آ جائے تو پھر وہ کر گزرتے ہیں ،اس وقت موقع ایسا ہے کہ اہل حق ،دینی قوتوں اور سنجیدہ حلقوں کو عمران خان کے گرد جمع ہونا چاہئے ،ان کے بازو مضبوط کرنے چاہئیں اور ملک میں خلافت راشدہ کے نظام کے نفاذ میں ان کی کھل کر مدد کرنی چاہئے ،ہمارا طرز عمل ہمیشہ سے ایسا ہوتا ہے کہ بروقت فیصلہ نہیں کر پاتے ،سوچ و بچار میں وقت ضائع کر دیتے ہیں اور خالی سپیس دوسرے لوگ پر کر لیتے ہیں ،ہم کف افسوس ملتے رہ جاتے ہیں ،اس وقت پاکستان کے سنجیدہ اور دینی حلقوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ مستقبل کے وزیر اعظم عمران خان کی دینی حوالے سے مکمل رہنمائی کریں ،نیک منصوبوں میں ان کی مدد کریں اور ایسے لوگوں کو ہر گز موقع نہ دیں جو ان کو اس حوالے سے ڈی ٹریک کریں اور ملک و قوم کا نقصان کریں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے اس وقت معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہے ہمارے علمائ مشائخ روحانیت پیریت کا تقاضا پورا کرتے ملک میں ہم آہنگی پیدا کریں اور معاشرے میں اسلامی نظام کی راہ ہموار کریں اپنی انائ کو دفن کرکے ملک کی انائ کو اہمیت دیں