لاڈلے سے لاڈلے تک
صحرا نامہ
تحریر عبدالشکور ابی حسن بیورو چیف کویت سٹی
لاڈلے کا لفظ انتہائی پیارا ہے یہ اس کے لئے کہاجاتا ہے جو سب سے پیارا ہوتاہے اس کی ہر ادا بہا جاتی ہے یہ لاڈلے پہلے گھروں میں پائے جاتے تھے والدین کا سب سے پیارا بچہ لاڈلہ کہلاتا ہے باقی گھر اسے حسرت بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔یہ لفظ اب سیاست میں ریت کر چکاہے۔یہ آمروں کے لاڈلے ہوتے ہیں لیکن اب لاڈلے کئی اداروں کو ہو گے ہیں۔ایوب خان کی آمریت میں ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کے لاڈلے تھے لیکن اختلاف کی وجہ سے وہ لاڈلے سے ہوتے باغی بن گے اور انہوں نے آمریت کے خلاف آواز بلند کی اور ایک آمر کو للکارا تو ہیرو بن کر دنیا کے سامنے آئے اور اس لاڈلے کو عوام نے اپنی آنکھوں کا تارا بنا لیا وہ سیاست کے میدان میں مرد آہن ثابت ہوئے لیکن ان کی لاڈلی اس وقت ختم ہوئی جب ایک دوسرے آمر ]جنرل ضیائ الحق نے ان کی لاڈلی کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دی جو عوام کی آنکھوں تارا تھا اسے تارا مسیح سے مروا دیا۔جنرل ضیائ الحق کو اپنی آمریت قائم رکھنے کے ایک لاڈلے کی ضرورت پڑی تو انہوں نے میاں محمد نوازشریف کو اپنی لاڈلیت میں لے لیا اور ایک دعا دی کہ اس کو میری عمر بھی لگ جائے کیونکہ میاں محمد نوازشریف ایک مضبوط قلعہ ہے جنرل ضیائ الحق کی دعا اللہ تعالی نے جلد قبول کرلی اور وہ داغ رفاقت دے گے لیکن نوازشریف مضبوط سے مضبوط تر ہوتے گے۔میاں نوازشریف جب بھارت کے مقابلے میں ایٹمی دھماکے کئے تو اس کے بعد ایک اور آمر جنرل پرویز مشرف نے شب خون مارا اور وہ نوازشریف کو مارنا چاہتے تھے انہیں عدالت سے سزائے موت سنادی گئی لیکن وہ بھٹو سے زیادہ خوش نصیب نکلے ان کو موت کی وادی میں دھکیلنے والے نوازشریف کو اپنے ہاتھوں حجاز مقدس بھیج دیا اس طرح ایک آمر کا لاڈلہ دوسرے آمر کی بھینٹ نہ چڑھ سکا۔کہتے ہیں سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی جو کل سیاسی حریف تھے وہ حجاز مقدس میں ایک آمر کی آمریت کے خلاف اکھٹے ہوگے پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو نے آمریت کے خاتمہ کے لئے میثاق جمہوریت کیا۔آمر پرویز مشرف کو بھی لاڈلے کی ضرورت تھی اس نے گجرات کے چوہدریوں کو اپنی آمریت کے سائے تلے لاڈلیت دے دی اور پرویز الہی کو اپنا لاڈلہ بنایا اور پنجاب اس کے سپرد کردیا جس پر پرویز الہی نے آمر جنرل پرویز مشرف سے کہاکہ آپ کو دس بار وردی میں اپنا قائد منائیں گے لیکن ہوتا وہی ہے جو منظور اللہ ہوتا ہے حالات نے کروٹ بدلی اور چیف جسٹس آف پاکستان افتخار احمد چوہدری نے آمریت کے خلاف آواز بلند کردی نوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو جلا وطنی ختم کرکے پاکستان آ چکے تھے آمر پرویز مشرف انتخابات کروانے پر مجبور ہو گیا اسی اثنائ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی برسراقتدار آئی تو ایک لاڈلے نے جنم لیا وہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی۔شاہ محمود قریشی بھی لاڈلیت کی دوڑ میں شامل تھے شاید ان کی قسمت میں وزارت عظمی اور وزارت اعلی نہیں صرف وزیر تک محدود رہے۔یوسف رضا گیلانی صدر زرداری کے لاڈلے تھے انہوں نے اپنی وزارت عظمی اپنے قائد پر قربان کر دی اور نااہلی قبول کرلی لیکن پارٹی سے بے وفائی نہیں کی۔پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنی مدت پوری کی اور چل دیئے انتخابات کے ایک بار پھر نوازشریف نے اکثریت لے کر وزارت عظمی کا قلم دان سنبھال لیا ابھی وہ پوری طرح سنبھل بھی پائے تھے کہ ان پر پانامہ بم گرا دیاگیا وہ اس میں اس طرح پھنس گے کہ ان کی لاڈلی پن دھری کی دھری رہ گئی کیونکہ انہوں نے آمریت سے جنم لیا تھا اور آمر کو ہی للکارا اور بھٹو کا انجام سامنے نہ رکھ سکے اور ایک لاڈلے عمران خان نے جنم لے لیا اگرچہ اس وقت ملک آمریت نہیں لیکن اس سے کم بھی نہیں۔دو لاڈلوں کی سیاسی جنگ شروع ہوگئی آمریت سے جنم لینے والا جب ان امروں کے بھائیوں کے ساتھ پنگا لیا تو اس کی ساری لاڈلی ختم ہو گی کیونکہ اب کے ہاتھ ایک اور لاڈلہ آچکا ہے اور لاڈلے کو سجا سنوار کر اپنے طریقہ کار سے اور انتخابی عمل سے گذار کر عوام کے سامنے پیش کر دیا کیونکہ ملک میں آمریت نہیں لیکن کچھ ادارے ایسا ہی کام سرانجام دے رہے ہیں جس سے گمان ہوتاہے لاڈلہ لاڈلہ ہی ہوتا چاہئے وہ آمروں کا ہو یا سول اداروں کی چھتری تلے ہو۔جب ایک لاڈلہ کسی اداروں کو آنکھیں دکھابے لگے تو اداروں نے اس کا متبادل لاڈلہ رکھا ہوتا جو ان کی خواہش کو تکمیل تک پہنچاتا یے۔میاں نواز شریف اور عمران خان کی لاڈلیت اسی طرح چل رہی ہے کہ جیسے سوکن کے جھگڑے کیونکہ ایک سابق لاڈلہ تھا اورایک نیا لاڈلہ۔اب دیکھنا یہ ہے نیا لاڈلہ کتنی دیر انکھوں کا تارا رہتا ہے ؟
٭٭٭٭