پی آئی اے، ریلوے، واپڈا، ایل ڈی اے کے بعد محکمہ ڈاک بھی کرپشن کا گڑھ
لاہور( شہزادہ خالد)پی آئی اے، ریلوے، واپڈا، ایل ڈی اے کے بعد معصوم سمجھا جانے والا محکمہ ڈاک بھی کرپشن کا گڑھ بن گیا۔محکمہ ڈاک کو تباہ کرنے کی سازش کے تحت 5 دن میں سعودی عرب بھیجا جانے والا پارسل 20 دن اور 8 دن میں آسٹریلیا بھیجا جانے والا پارسل جان بوجھ کر 25 دن میں پہنچایا جا رہا ہے۔اگر ایک پارسل محکمہ ڈاک 35 روپے میں بھیج رہا ہے تو وہی پارسل پرائیویٹ کورئر 150 روپے میں بھیج رہا ہے اس کے باوجود شہری پرائیویٹ کورئر کو ترجیح دے رہے ہیں۔محکمہ ڈاک کی اسلحہ لائسنس برانچ، موٹر وہیکل لائسنس برانچ اور ملٹری پنشن برانچ سونے کی کان سمجھی جاتی ہیں اور یہاں پر افسران اپنے مرضی کے اہلکار تعینات کرتے ہیں۔چھوٹے دیہات اور قصبوں میں گھوسٹ پوسٹ آفسز کی بھی اطلاعات ہیں۔پوسٹ مینوں کو موٹر سائیکل اور موبائل دینے کے باوجود ڈاک کی ترسیل بر وقت نہیں ہو رہی،پوسٹ مینوں کو چیک کرنے والے افسر ٹائون انسپکٹراور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ مک مکا کر کے خاموش تماشائی بن گئے ہیں۔انتہائی با وثوق ذرائع کیمطابق اسلحہ لائسنس پر لگائی جانے والی جعلی ٹکٹوں کی بھاری کھیپ میدان میں موجود ہے۔ پورے پاکستان کی ڈاک کو کنٹرول کرنے کے لئے ایک پی ایم جی ہوتا تھا لیکن اب صرف پنجاب میں تین پی ایم جی ہونے کے باوجود محکمہ زوال پذیر ہے۔ محکمہ ڈاک کی اسلحہ، موٹر وہیکل اور ملٹری پنشن برانچ کے حوالے سے درجنوں کیسز کی ایف آئی اے میں انکوائری چل رہی ہے۔ڈسکہ کے ایک پوسٹ آفس کے 16 گریڈ کے افسر سے 80 لاکھ کی جعلی اسلحہ ٹکٹیں برآمد ہو چکی ہیں۔ نارووال پوسٹ آفس کے افسر نے ملٹری پینشن میں 90 لاکھ کا فراڈ کیا۔قصور، سیالکوٹ، لاہور و دیگر اضلاع کے ڈاکخانوں میں ہونے والی کروڑوں روپے کی کرپشن کے متعدد کیس سپیشل عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔کئی دفاتر میں سازش کے تحت سسٹم کو کمپیوٹرائزڈ نہیں کیا گیا تاکہ موٹر وہیکل برانچ میں کرپشن کرنے کے لئے ٹوکن لگوانے کے لئے آنے والے صارف کو PT24 جاری کئے بغیر ٹوکن شارٹ ہونے پر صرف آخری ٹوکن لگا کر کلیئر کر دیا جائے۔ ملٹری پنشن برانچ میں پنشن ریوائز کرنے کے لئے ریٹ فکس ہیں۔رشوت نہ دینے والے کی پنشن میں اعتراضات کے ڈھیر لگا دئیے جاتے ہیں۔سیونگ برانچ میں صارف کو اکائونٹ بند کر کے زیادہ منافع والا نیا اکائونٹ کھلوانے کی ترغیب دے کر نیا اکائونٹ کھول دیا جاتا ہے لیکن اکائونٹ کلوز کی سلپ جاری نہیں کی جاتی۔دوسرا عام طریقہ یہ ہے کہ اکائونٹ ہولڈر کو کم منافع لگا کر دیا جاتا ہے اور بعد میں اکائونٹ کے منافع میں تبدیلی کر کے withdrawl slip میں زیادہ رقم درج کر کے اضافی رقم کلرک خود نکلوالیتا ہے ۔پاکستان بھر میں اسلحہ ٹکٹ پرنٹنگ پریس سے چوری کرکے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے Out of record تمام ڈاکخانوں میں سپلائی کرنا ،یوٹیلیٹی بلوں پر ڈاکہ ڈالنا ، روٹ پرمٹ ،جعلی ٹکٹوں کی فروخت ،پوسٹل اور ملٹری پینشن میںفراڈ اور موٹر وہیکل ٹوکن ٹیکس میںفراڈ منظر عام پر آچکے ہیں مگر 1985سے لیکر 2018 تک کسی بھی خردبرد کی گئی رقم کی خاطر خواہ ریکوری نہیں کی گئی شائد نیب حکام کی توجہ پوسٹ آفس کی طرف کسی نے مبذول نہیں کرائی۔ موٹر وہیکل ٹوکن ٹیکس سے متعلقہ ڈاکخانوں کے اہلکار اور افسران کروڑ پتی ہو چکے ہیں ۔ اور یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے ۔موٹروہیکل ٹیکس میں جعلی کاربونائزڈ رسیدیں چھپوا کر، 20%کام اصل رسیدوں پر کر کے ریکارڈ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کو بجھوا کر فراڈ کیا جا رہا ہے، آٹھ سال قبل سےGPOلیول پر موٹر وہیکل ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کر دیا گیا ہے ۔ اور تمام گاڑی مالکان کو ٹوکن ٹیکس کی کمپیوٹرئزاڈ رسید دی جاتی ہے ۔ جبکہ آفس ٹائم ختم ہونے کے بعد کمپیوٹر Serverسے Data Deleteکر کے روزانہ لاکھوں روپے کی نقدرقم محکمہ ڈاک کے اہلکاران اور افسران اپنی جیبوں میں ڈال لیتے ہیں اور کچھ رقم ایکسائز ڈپارٹمنٹ کو ٹرانسفر کر دی جاتی ہے۔ لاہور کے تاریخی جی پی او کا یہ حال ہے کہ اس میں ہر طرف کوڑے اور گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔بتایا گیا ہے کہ چیف پوسٹ ماسٹر کے عہدے پر موجود زبیدہ خانم 11 بجے آفس آتی ہیں اور 12 بجے چلی جاتی ہیں۔اپنے بچے بھی ساتھ لے آتی ہیں اور سارا دن خواتین سٹاف انکے بچوں کو سنبھالتی ہیں۔محکمہ کے تین ملازمین انکی رہائش گاہ پر ڈیوٹی دے رہے ہیں اور جی پی او میں انکی حاضری لگ رہی ہے جبکہ سی پی ایم صاحبہ کی حاضری کا رجسٹر ہی موجود نہیں ہے۔جی پی او کے گیٹ پر 24 گھنٹے سروس کا بورڈ لگا ہوا ہے جبکہ عوام کو 12 گھنٹے کی سروس بھی دستیاب نہیں ہے۔جی پی او میں لگے واٹر کولر سے کرنٹ لگنے سے کئی افراد زخمی ہو چکے ہیں اور عرصہ دراز سے کولر بند پڑا ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے دوران جنریٹر کا کوئی انتظام نہیں ہے اور واحد جنریٹر کو ایک ماہ میں چار مرتبہ مرمت کرایا گیا ہے اس قیمت میں نیا جنریٹر آ سکتا تھا۔