جمعة المبارک‘ 27ذیقعد 1439 ھ ‘ 10 اگست 2018ء
اپوزیشن کا کمزور احتجاج دیکھ کر دکھ ہوا، شیخ رشید
اس کا مطلب یہ ہوا کہ شیخ جی چاہتے تھے کہ اسلام آباد کی سڑکوں پر وہی منظر دوبارہ نظر آئے جو خان صاحب اور قادری صاحب کے دھرنے کے دوران عام دیکھنے کو ملتا تھا۔ مشتعل مظاہرین پولیس والوں کو روئی کی طرح دھنک رہے ہوں۔ ٹی وی اور ریڈیو سٹیشن میں مظاہرین توڑ پھوڑ کر رہے ہوں۔ پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ تک محاصرے میں ہوں۔ وہاں تک کسی کاجانا محال ہو، اگر ایسا احتجاج ہی طاقتور اور م¶ثر ہوتا ہے تو پھر واقعی ہم شیخ جی کے ساتھ ہیں کہ موجودہ اپوزیشن کا احتجاج بالکل پھیکا اور بے اثر تھا۔ یہ خاموش پرامن احتجاج تو ایسے ہی بیکار چیز ہے۔ اصل احتجاج تو وہ ہوتا ہے جو دنیا دیکھے، پنجابی فلموں کی طرح توڑ پھوڑ، مار دھاڑ کے بغیر تو احتجاج میں مزہ نہیں آتا۔ امید ہے آئندہ اپوزیشن والے شیخ رشید سے گائیڈ لائن لے کر اپنی احتجاجی مہم کو پرزور بنائیں گے، ورنہ شیخ جی کا منہ پھیکا ہی رہے گا۔ اب اگر ایسے مشورہ دینے والے نئی حکومت میں شامل رہے تو اس نئی حکومت کو باہر کے کسی دشمن سے فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ شیخ جی ہی اس حکومت کے لئے کافی ہوں گے۔ نئی حکومت کے حمایتی ہونے کے باوجود اگر وہ اپوزیشن کے جذبات بھڑکاتے رہے اور انہیں پرتشدد مظاہروں پر اکساتے رہے تو ان کی یہ محنت رائیگاں نہیں جائے گی۔ ایم ایم اے، اے این پی، اور پشتونخواہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی والوں کی طرح مصلحت پسند نہیں۔ وہ لڑنا بھڑنا خوب جانتے ہیں۔ چاروں صوبوں میں انکے ہزاروں مدرسے ہیں اور گرم خون والے کارکن بھی۔ بس ذرا یہ دھیان میں رہے اس کے بعد شیخ جی جو چاہے مشورہ دیں۔
٭....٭....٭
یوم آزادی پر 10 منٹ میں 10 ہزار پودے لگا کر عالمی ریکارڈ بنا ئیں گے: محکمہ جنگلات پنجاب
ہماری قوم کو ویسے بھی ریکارڈ بنانے کا بہت شوق ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس چکر میں ان کا اپنا ریکارڈ لگتا ہے۔ ہر سال شجرکاری میں ریکارڈ تعداد میں درخت لگائے جاتے ہیں۔ بعدازاں وہ کہاں جاتے ہیں‘ کسی کو معلوم نہیں۔یہ بھی ایک ریکارڈ ہے۔ اب البتہ اس ضمن میں جنوبی پنجاب میں جہاں ایک بھی درخت نہیں لگا۔ کروڑوں روپے ہڑپ کرنے والوں کے خلاف تحقیقات کا ذکر ہو رہا ہے۔ شاید اسی خوف سے محکمہ جنگلات والے اپنا بوجھ کم کرنے کیلئے یہ ریکارڈ بنانے کا چکر چلا رہے ہیں۔ اگر ہمارے محکمے ریکارڈ بنانے کی بجائے ہر سال ایمانداری سے کام کریں تو سالانہ 50 ہزار درخت لگا کر بھی وہ چند سالوں میں ملک کو سرسبز بنا سکتے ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ ان درختوں کو پروان چڑھایا جائے۔ جو جنگلات موجود ہیں‘ وہاں درختوں کا ناجائز قتل عام کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جائے۔ یہ ٹمبر مافیا جنگلات کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ ان بااثر لوگوں کو چھوڑنے کا مطلب جنگلات کا خاتمہ ہے جس کے بعد ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلی ایک عذاب بن کر ہم پر مسلط ہوگی جس سے نجات کی کوئی راہ نہیں۔ اب کہیں محکمہ جنگلات پنجاب بھی چھانگا مانگا میں کاٹے گئے چوری کئے گئے درختوں سے توجہ ہٹانے کیلئے تو یہ ڈرامہ نہیں رچا رہا۔ اگر وہ سالانہ 10 ہزار درخت چھانگا مانگا کے ذخیرے میں ہی لگاتا تو آج یہ میلوں پھیلا خوشنما سرسبز جنگل بن چکا ہوتا۔
٭....٭....٭
امریکہ میں عاطف اسلم کا یوم آزادی کے پروگرام میں ملی نغمے گانے سے انکار
یہ بعض لوگوں کی عادت ہے کہ انہیں جہاں سے عزت ملتی ہے روزگار ملتا ہے، شہرت ملتی ہے وہ نجانے کیوں اپنی بدخصلتی کی وجہ سے اسی ملک سے انہی لوگوں سے پہلوتہی برتتے ہیں۔ اب عاطف اسلم کو ہی لے لیں۔ انہیں عزت، شہرت، دولت، پاکستان سے ملی مگر انہیں پاکستانی ملی نغمے گانے سے پاکستانی جھنڈا اٹھانے سے شرم آتی ہے یا وہ اپنے ہندوستانی پروموٹروں کو خوش کرنا چاہتے ہیں جنہیں پاکستان کے جھنڈے اورترانوں سے آگ لگتی ہے‘ وہ ان سے جل بھن کر راکھ ہو جاتے ہیں ۔امریکہ میں جشن آزادی کے سلسلہ میں ایک میوزک پروگرام ہوا جس میں بڑی تعداد میں پاکستانی امریکہ اور پاکستان کے پرچم اٹھائے شریک تھے۔اس تقریب میں عاطف اسلم کو ملی نغمے سنانے کیلئے مدعو کیا گیا۔ مگر موصوف نے ایسا نہیں کیا اور حاضرین کی طرف بار بار فرمائش پر بھی ٹس سے مس نہ ہوئے بلکہ پاکستانی پرچم پکڑنے سے بھی انکار کر دیا۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ جناب کیا آپ کو معلوم نہیں تھا کہ یہ پروگرام جشن آزادی کے سلسلے میں ہو رہا ہے۔ اس میں انڈین ٹھمری اور خیال تو آپ نے گانا نہیں تھا۔ اگر ایسا ہی شوق ہے آپ کو انڈین گانوں کا تو 15 اگست کو بھاں بھاں کرتے۔ آپ کی وجہ سے پاکستانی کمیونٹی کو کتنی شرمندگی ہوئی ہو گی جبھی تو اکثر شرکاءآپ کی بے سری پرفارمنس اور حب الوطنی سے عاری جذبات کی وجہ سے ناراض ہو کر تقریب چھوڑ کر چلے گئے۔ اگر آپ کو بھارت اتنا ہی پسند ہے تو پھر جائیں عدنان سمیع جیسے غدار کی طرح وہاں کی شہریت لے لیں ۔پھر دیکھں آپ کے ساتھ کیسا حسن سلوک ہوتا ہے وہاں۔
٭....٭....٭
پی آئی اے کی پروازمیں اے سی بند ہونے سے نومولود بے ہوش۔ ماں کی چیخ و پکار
باکمال لوگوں کی اس لاجواب سروس کے اس تازہ کارنامہ پر افسوس کرنا اس کی مذمت کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مصداق ہے۔ اب تو پی آئی اے ایک ایسی چھلنی بن چکا ہے جس کے چھید بند کرنا شاید ممکن ہی نہیں رہا۔ وطن سے محبت کرنے والے چاہتے ہیں کہ اس قومی ایئرلائن کی عظمت رفتہ رفتہ بحال ہو مگر اس کا عملہ تہیہ کئے ہوئے ہے کہ یہ ایئرلائن جلد از جلد اپنے انجام کو پہنچے جس کے بعد لوگ کہتے پھریں کہ کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے،، پیرس سے لاہور آنے والی پرواز کے لئے ظاہر ہے پی آئی اے والوں نے عمدہ اچھی حالت والا چن کہ ہی جہاز بھیجا ہوگا۔یہ کوئی بدین تھرجانے والی مکڑا یا کیکٹرا لاری جیسا تو نہیں ہو گا۔ اس کے باوجود اے سی کا بند ہونا عجیب بات ہے۔ طیارہ کے اڑان بھرنے سے قبل آلات کی چیکنگ کس کی ذمہ داری ہے۔ عام طور پر فٹ قرار دے کر ہی طیارے کو پرواز کی اجازت ہوتی ہے۔ مگر یہاں تو پرواز سے قبل ہی پیرس ایئرپورٹ پر جہاز کا اے سی جواب دے گیا جس سے نومولود کی جان پر بن آئی اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ ایسے حالات میں ماں کا رونا پیٹنا تو برحق ہے۔عملہ کیا وضاحتیں کرتا۔ کیا جہاز میں طبی امداد کا سامان بھی نہیں تھا ورنہ عام طور پر انٹرنیشنل پروازوں میں آکسیجن کم ہونے پر یا مسافروں کو آکسیجن فراہم کرنے کا سامان تو موجود ہوتا ہے۔ کیا پی آئی اے والوں نے پیرس تا لاہور کو لوکل پرواز سمجھ کر یہ کھٹارہ طیارہ دیا تھا۔ اب جو بدنامی اور انکوائری ہوگی وہ متعلقین کو بھگتنا ہو گی۔