(آخری قسط)
حیران کن بات یہ ہے کہ فوج میں اسلامی سوچ اور اسلامی روایات کی ابتداءپاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے شروع ہوئی اور یہ عظیم کارنامہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کے پہلے انگریز کمانڈنٹ بریگیڈئیر فرانسس ایچ بی اینگل نے سر انجام دیا۔
1947میں جب انڈین آرمی کی تقسیم کا عمل شروع ہوا تو مسلمان افسران کو شدت سے احساس ہوا کہ آفیسرز کی تربیت کےلئے ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون تو بھارت کے حصے میں آگئی تھی۔ پاکستان اپنے آفیسرز کی تربیت کےلئے کیا کریگا ؟ لہٰذا مسلمان افسران نے لیاقت علی خان کو کمانڈر انچیف فیلڈ مارشل سر کلاڈ اکنلک سے مل کر علیحدہ اکیڈمی کا بندوبست کرنے کا مشورہ دیا۔ اس مقصد کےلئے لیاقت علی خان فیلڈ مارشل سر کلاڈ اکنلک سے ملے جس پر کمانڈر انچیف نے بریگیڈئیر فرانسس ایچ بی اینگل کو نئی پاکستان ملٹری اکیڈمی قائم کرنے کے احکامات جاری کردئیے۔ یہ شخص راولپنڈی پہنچا اور ہمالیہ جیسی مشکلات سے راستہ نکالتے ہوئے دسمبر 1947 تک پاکستان ملٹری اکیڈمی کا وجود قائم کر دیا ۔جنوری 1948 میں پہلے کورس کی تربیت بھی شروع ہوگئی۔ اکیڈمی کو شروع سے ہی اس نے اسلامی رنگ دیکر مستقبل کی پاکستان آرمی کی راہ متعین کردی۔ یہ کام اس نے کیسے کیا اسکی اپنی بائیوگرافی Last of the Bengal Lancers میں سے اسکے اپنے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں۔ ”اکیڈمی کے پہلے کمانڈنٹ کے طور پر یہ میرا فرض تھا کہ اکیڈمی اپنے پاﺅں پر کھڑی ہو۔ پاکستان آرمی کےلئے نوجوان آفیسرز باقاعدگی سے مہیاکئے جائیں اور نوجوان کیڈٹس میں اپنے پیشے سے دلی لگاﺅ۔ محبت اور قربانی کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کےلئے ان میں ایک ایسا ”روحانی جذبہ “پیدا کرنے کی ضرورت تھی یا ایسی روایات پیدا کرنی ضروری تھیں کہ جن پر وہ صحیح معنوں میں فخر کر سکیں اور ایسی روایات کا تعلق یقینا ان کے ماضی سے جڑا ہونا چاہیے۔ انکا ماضی اور آباﺅ اجداد کے کارنامے ہی انکے جذبے کا محرک ثابت ہوسکتے تھے ۔
پاکستان ایک نوزائیدہ مملکت تھی۔ اسکا کوئی ماضی تھا اور نہ ہی ماضی کی روایات۔ پاکستان کا مطلب ہے پاک لوگوں کی سرزمین ۔ پاکستان ایسا خواب تھا جو سب سے پہلے مسلمان شاعر علامہ اقبال نے دیکھا اور تصور پاکستان پہلی دفعہ شاعر کے اس خواب کی بدولت سامنے آیا۔ یہ خواب اب ایک حقیقت بن چکا تھا اور یہ حقیقت ایک نوزائیدہ مملکت تھی لیکن بد قسمتی سے اس نوزائیدہ مملکت کا کوئی مشترکہ ورثہ نہ تھا۔ اگر کوئی مشترکہ ورثہ سمجھا جا سکے تو وہ محض ایک چیز ہو سکتی تھی کہ پاکستان میں اکثریت کا مذہب اسلام تھا۔ ان حالات کے پیش نظر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اکیڈمی کے جذبے کا اصل محرک چودہ سو سال پہلے کی عظیم اسلامی روایات اور اسلامی کلچر ہونا چاہیے۔ سوچ اور جذبے کی تمام جڑیں انہی روایات میں پیوستہ ہونی چاہئیں جس پر یہ فخر کرسکیں۔
سوچ سوچ کر میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیڈٹ بٹالین کی نئی کمپنیوں کا نام پرانے مسلمان فاتحین کے نام پر رکھا جائے اور یہ تھے خالد۔ طارق۔ قاسم اور صلاح الدین۔ یہ خیال جلد ہی حقیقت کا روپ دھارنے لگا۔ جیسا کہ مجھے امید تھی یہ نام کیڈٹس کے دلوں میں پیوست ہوگئے اور انہیں ان ناموں پر فخر محسوس ہونے لگا۔ جب کبھی کمپنیوں کے درمیان کھیلوں کے مقابلے ہوتے تو حصہ لینے والی کمپنیوں کے کیڈٹس کا جذبہ دیدنی ہوتا تھا۔ حصہ لینے والی ٹیموں کی کمپنیوں کے نعروں سے کاکول کی پہاڑیاں گونجنے لگتیں۔ خالد۔ طارق یا جو بھی ہو۔ پہچان کیلئے اور کمپنی پر فخر کرنے کیلئے میں نے ہرکمپنی کے ڈریس کو علیحدہ نشان دےدیا اور یہ نشان نئی شخصیت کی تعمیر کا باعث بنا۔ نا قابل شکست جذبہ سامنے آیا۔ اس جذبے سے متاثر ہو کر میں نے بٹالین کو بھی ایک علیحدہ تشخص دینے کا فیصلہ کیا۔ مسٹر جناح برٹش اور مسلم لیگ کے لیڈر ہونے کی حیثیت سے پاکستان کے خالق تھے۔ اب وہ قائد اعظم ( قوم کے باپ) کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ یہ بہت ہی قابل احترام لقب تھا۔ اب میں نے کمانڈر انچیف کے سامنے تجویز پیش کی کہ مسٹر جناح کے سامنے تجویز پیش کرے کہ کیڈٹس بٹالین کو Quaid-e-Azam\\\'s Own Battalian (قائد اعظم کی اپنی بٹالین) کا لقب دیا جائے اور اسے پاکستان آرمی کی سب سے سینئر بٹالین کا رتبہ دیا جائے۔ میری یہ تجویز منظور کر لی گئی۔
روزمرہ کے انتظامی معاملات کے ساتھ میں نے کیڈٹس کی تربیت تیز رفتاری سے جاری رکھی۔ بعض اوقات میرے ذہن میں کئی دلچسپ قسم کے خیالات جنم لیتے۔ مثلاً میں کیڈٹس بٹالین کےلئے ایک خصوصی ”بیج“ بنانا چاہتا تھا۔ جو اسکے نام اور اہمیت سے مطابقت رکھے۔ اب اسکا نام \\\"The 1st Pakistan Battalion- Quaid-i-Azam\\\'s own \\\" تھا۔ میں ہر وقت کاغذ او رپنسل ساتھ رکھتا اور جو کچھ ذہن میں آتا اسے کاغذ پر اتار لیتا۔ بالآخر ایک ایسا ڈیزائن میرے ذہن میں آیا کہ میں خود بھی خوش ہو گیا۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب آرمی ہیڈ کوارٹر زنے یہ ڈیزائن منظور بھی کر لیا سوائے ایک اصلاح کے کہ اس میں ”موٹو“ (پرمقصد نعرہ) ہونا چاہیے۔ اس مقصد کےلئے مزید ایک کمیٹی قائم کی گئی جس میں سولجرز ۔ دانشوراورعلماءکرام شامل کئے گئے۔ کافی غور و خوض کے بعد اس کمیٹی نے قرآنِ کریم سے ایک آیت مبارکہ کا انتخاب کیا اور وہ تھی ”نَصرµمِنَ اللّٰہِ وفَت±حُ قَرِی±ب“ یعنی فتح اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ اسے اس بیج کا حصہ بنا لیا گیا۔
دوسرا اہم موضوع جس پر سوچ کی آوارہ گردی ضروری تھی وہ تھا اکیڈمی کےلئے ایک مناسب میگزین۔ یہ وہ ذمہ داری تھی جو میں دوسروں کو دے سکتا تھا لیکن اس میگزین کا نام ہر صورت میری ذمہ داری تھی۔ ایک شام میں اپنے گھر کے گارڈن میں کھڑے ہوکر ان خوبصورت پہاڑوں کو دیکھ رہا تھا جنہوں نے اکیڈمی کو اتنا خوبصورت پس منظر بخشا تھا۔ اچانک میری نظر برف سے ڈھکی پہاڑی چوٹیوں پر پڑی جن کے اوپر چاندی جیسے رنگ کا ہلال چمک رہا تھا۔ اس خوبصورت منظر نے مجھے مسحور کر دیا۔ اس منظر نے مجھے اکیڈمی میگزین کا نام دیدیا اور یہ تھا The Rising Crescent۔ یہ نام نئی اکیڈمی کے مستقبل کےلئے یقینا ایک نیک شگون اور نئی امید کاپیغام ثابت ہوا۔ اسی طرح اکیڈمی کے پہلے ماہ صیام میں بھی اسلامی روایات اور مذہبی تقدس کے پیش نظر ایسا انتظام کیا گیا جس پر سب افسران متفق تھے اور وہی انتظام آج تک جاری ہے۔
پاکستان کو اس عظیم انسان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے روزِ اول سے ہی پاکستان آرمی کو خالد۔ طارق۔ قاسم اور صلاح الدین کا پیروکار بنادیا جو آج تک قائم ہے۔ اس سے بہتر اسلامی روایات پاکستان کی فوج میں قائم نہیں ہو سکتی تھیں۔ یقینا کوئی بھی پاکستانی آفیسر کم از کم اسوقت اتنا بڑا کارنامہ سر انجام نہیں دے سکتا تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابل تعریف ہے کہ اسلام کا جو راستہ بریگیڈئیر اینگل نے منتخب کیا وہ غیر متنازع اور پیشے کی ضرورت کے عین مطابق تھا۔ ہر قسم کی فرقہ واریت اور علاقائی سوچ سے بالاتر تھا۔ سیکولر۔ شدید مذہبی یا علاقائی پس منظر سے متاثر نوجوان، پاکستان ملٹری اکیڈمی پہنچ کر سب ایک ہی عظیم اسلامی جذبے سے سرشار ہو کر نکلے اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔ بہت بعد میں کچھ جنرلوں نے فوج کو مزید اسلامی تشخص دینے کی کوشش ضرور کی مگر اس سے فوج میں کسی حد تک سیکٹیرین سوچ نے جنم لیا جس کی وجہ سے انتہا پسند مذہبی گروپس کو گروپوں فوج کے اندر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع ملا جو یقینا ملک و قوم اور بذات خود فوج کے حق میں نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ فوج میں اسلامی سوچ اور اسلامی روایات کی ابتداءپاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول سے شروع ہوئی اور یہ عظیم کارنامہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کے پہلے انگریز کمانڈنٹ بریگیڈئیر فرانسس ایچ بی اینگل نے سر انجام دیا۔
1947میں جب انڈین آرمی کی تقسیم کا عمل شروع ہوا تو مسلمان افسران کو شدت سے احساس ہوا کہ آفیسرز کی تربیت کےلئے ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون تو بھارت کے حصے میں آگئی تھی۔ پاکستان اپنے آفیسرز کی تربیت کےلئے کیا کریگا ؟ لہٰذا مسلمان افسران نے لیاقت علی خان کو کمانڈر انچیف فیلڈ مارشل سر کلاڈ اکنلک سے مل کر علیحدہ اکیڈمی کا بندوبست کرنے کا مشورہ دیا۔ اس مقصد کےلئے لیاقت علی خان فیلڈ مارشل سر کلاڈ اکنلک سے ملے جس پر کمانڈر انچیف نے بریگیڈئیر فرانسس ایچ بی اینگل کو نئی پاکستان ملٹری اکیڈمی قائم کرنے کے احکامات جاری کردئیے۔ یہ شخص راولپنڈی پہنچا اور ہمالیہ جیسی مشکلات سے راستہ نکالتے ہوئے دسمبر 1947 تک پاکستان ملٹری اکیڈمی کا وجود قائم کر دیا ۔جنوری 1948 میں پہلے کورس کی تربیت بھی شروع ہوگئی۔ اکیڈمی کو شروع سے ہی اس نے اسلامی رنگ دیکر مستقبل کی پاکستان آرمی کی راہ متعین کردی۔ یہ کام اس نے کیسے کیا اسکی اپنی بائیوگرافی Last of the Bengal Lancers میں سے اسکے اپنے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں۔ ”اکیڈمی کے پہلے کمانڈنٹ کے طور پر یہ میرا فرض تھا کہ اکیڈمی اپنے پاﺅں پر کھڑی ہو۔ پاکستان آرمی کےلئے نوجوان آفیسرز باقاعدگی سے مہیاکئے جائیں اور نوجوان کیڈٹس میں اپنے پیشے سے دلی لگاﺅ۔ محبت اور قربانی کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کےلئے ان میں ایک ایسا ”روحانی جذبہ “پیدا کرنے کی ضرورت تھی یا ایسی روایات پیدا کرنی ضروری تھیں کہ جن پر وہ صحیح معنوں میں فخر کر سکیں اور ایسی روایات کا تعلق یقینا ان کے ماضی سے جڑا ہونا چاہیے۔ انکا ماضی اور آباﺅ اجداد کے کارنامے ہی انکے جذبے کا محرک ثابت ہوسکتے تھے ۔
پاکستان ایک نوزائیدہ مملکت تھی۔ اسکا کوئی ماضی تھا اور نہ ہی ماضی کی روایات۔ پاکستان کا مطلب ہے پاک لوگوں کی سرزمین ۔ پاکستان ایسا خواب تھا جو سب سے پہلے مسلمان شاعر علامہ اقبال نے دیکھا اور تصور پاکستان پہلی دفعہ شاعر کے اس خواب کی بدولت سامنے آیا۔ یہ خواب اب ایک حقیقت بن چکا تھا اور یہ حقیقت ایک نوزائیدہ مملکت تھی لیکن بد قسمتی سے اس نوزائیدہ مملکت کا کوئی مشترکہ ورثہ نہ تھا۔ اگر کوئی مشترکہ ورثہ سمجھا جا سکے تو وہ محض ایک چیز ہو سکتی تھی کہ پاکستان میں اکثریت کا مذہب اسلام تھا۔ ان حالات کے پیش نظر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اکیڈمی کے جذبے کا اصل محرک چودہ سو سال پہلے کی عظیم اسلامی روایات اور اسلامی کلچر ہونا چاہیے۔ سوچ اور جذبے کی تمام جڑیں انہی روایات میں پیوستہ ہونی چاہئیں جس پر یہ فخر کرسکیں۔
سوچ سوچ کر میرے ذہن میں خیال آیا کہ کیڈٹ بٹالین کی نئی کمپنیوں کا نام پرانے مسلمان فاتحین کے نام پر رکھا جائے اور یہ تھے خالد۔ طارق۔ قاسم اور صلاح الدین۔ یہ خیال جلد ہی حقیقت کا روپ دھارنے لگا۔ جیسا کہ مجھے امید تھی یہ نام کیڈٹس کے دلوں میں پیوست ہوگئے اور انہیں ان ناموں پر فخر محسوس ہونے لگا۔ جب کبھی کمپنیوں کے درمیان کھیلوں کے مقابلے ہوتے تو حصہ لینے والی کمپنیوں کے کیڈٹس کا جذبہ دیدنی ہوتا تھا۔ حصہ لینے والی ٹیموں کی کمپنیوں کے نعروں سے کاکول کی پہاڑیاں گونجنے لگتیں۔ خالد۔ طارق یا جو بھی ہو۔ پہچان کیلئے اور کمپنی پر فخر کرنے کیلئے میں نے ہرکمپنی کے ڈریس کو علیحدہ نشان دےدیا اور یہ نشان نئی شخصیت کی تعمیر کا باعث بنا۔ نا قابل شکست جذبہ سامنے آیا۔ اس جذبے سے متاثر ہو کر میں نے بٹالین کو بھی ایک علیحدہ تشخص دینے کا فیصلہ کیا۔ مسٹر جناح برٹش اور مسلم لیگ کے لیڈر ہونے کی حیثیت سے پاکستان کے خالق تھے۔ اب وہ قائد اعظم ( قوم کے باپ) کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ یہ بہت ہی قابل احترام لقب تھا۔ اب میں نے کمانڈر انچیف کے سامنے تجویز پیش کی کہ مسٹر جناح کے سامنے تجویز پیش کرے کہ کیڈٹس بٹالین کو Quaid-e-Azam\\\'s Own Battalian (قائد اعظم کی اپنی بٹالین) کا لقب دیا جائے اور اسے پاکستان آرمی کی سب سے سینئر بٹالین کا رتبہ دیا جائے۔ میری یہ تجویز منظور کر لی گئی۔
روزمرہ کے انتظامی معاملات کے ساتھ میں نے کیڈٹس کی تربیت تیز رفتاری سے جاری رکھی۔ بعض اوقات میرے ذہن میں کئی دلچسپ قسم کے خیالات جنم لیتے۔ مثلاً میں کیڈٹس بٹالین کےلئے ایک خصوصی ”بیج“ بنانا چاہتا تھا۔ جو اسکے نام اور اہمیت سے مطابقت رکھے۔ اب اسکا نام \\\"The 1st Pakistan Battalion- Quaid-i-Azam\\\'s own \\\" تھا۔ میں ہر وقت کاغذ او رپنسل ساتھ رکھتا اور جو کچھ ذہن میں آتا اسے کاغذ پر اتار لیتا۔ بالآخر ایک ایسا ڈیزائن میرے ذہن میں آیا کہ میں خود بھی خوش ہو گیا۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب آرمی ہیڈ کوارٹر زنے یہ ڈیزائن منظور بھی کر لیا سوائے ایک اصلاح کے کہ اس میں ”موٹو“ (پرمقصد نعرہ) ہونا چاہیے۔ اس مقصد کےلئے مزید ایک کمیٹی قائم کی گئی جس میں سولجرز ۔ دانشوراورعلماءکرام شامل کئے گئے۔ کافی غور و خوض کے بعد اس کمیٹی نے قرآنِ کریم سے ایک آیت مبارکہ کا انتخاب کیا اور وہ تھی ”نَصرµمِنَ اللّٰہِ وفَت±حُ قَرِی±ب“ یعنی فتح اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ اسے اس بیج کا حصہ بنا لیا گیا۔
دوسرا اہم موضوع جس پر سوچ کی آوارہ گردی ضروری تھی وہ تھا اکیڈمی کےلئے ایک مناسب میگزین۔ یہ وہ ذمہ داری تھی جو میں دوسروں کو دے سکتا تھا لیکن اس میگزین کا نام ہر صورت میری ذمہ داری تھی۔ ایک شام میں اپنے گھر کے گارڈن میں کھڑے ہوکر ان خوبصورت پہاڑوں کو دیکھ رہا تھا جنہوں نے اکیڈمی کو اتنا خوبصورت پس منظر بخشا تھا۔ اچانک میری نظر برف سے ڈھکی پہاڑی چوٹیوں پر پڑی جن کے اوپر چاندی جیسے رنگ کا ہلال چمک رہا تھا۔ اس خوبصورت منظر نے مجھے مسحور کر دیا۔ اس منظر نے مجھے اکیڈمی میگزین کا نام دیدیا اور یہ تھا The Rising Crescent۔ یہ نام نئی اکیڈمی کے مستقبل کےلئے یقینا ایک نیک شگون اور نئی امید کاپیغام ثابت ہوا۔ اسی طرح اکیڈمی کے پہلے ماہ صیام میں بھی اسلامی روایات اور مذہبی تقدس کے پیش نظر ایسا انتظام کیا گیا جس پر سب افسران متفق تھے اور وہی انتظام آج تک جاری ہے۔
پاکستان کو اس عظیم انسان کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے روزِ اول سے ہی پاکستان آرمی کو خالد۔ طارق۔ قاسم اور صلاح الدین کا پیروکار بنادیا جو آج تک قائم ہے۔ اس سے بہتر اسلامی روایات پاکستان کی فوج میں قائم نہیں ہو سکتی تھیں۔ یقینا کوئی بھی پاکستانی آفیسر کم از کم اسوقت اتنا بڑا کارنامہ سر انجام نہیں دے سکتا تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابل تعریف ہے کہ اسلام کا جو راستہ بریگیڈئیر اینگل نے منتخب کیا وہ غیر متنازع اور پیشے کی ضرورت کے عین مطابق تھا۔ ہر قسم کی فرقہ واریت اور علاقائی سوچ سے بالاتر تھا۔ سیکولر۔ شدید مذہبی یا علاقائی پس منظر سے متاثر نوجوان، پاکستان ملٹری اکیڈمی پہنچ کر سب ایک ہی عظیم اسلامی جذبے سے سرشار ہو کر نکلے اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔ بہت بعد میں کچھ جنرلوں نے فوج کو مزید اسلامی تشخص دینے کی کوشش ضرور کی مگر اس سے فوج میں کسی حد تک سیکٹیرین سوچ نے جنم لیا جس کی وجہ سے انتہا پسند مذہبی گروپس کو گروپوں فوج کے اندر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع ملا جو یقینا ملک و قوم اور بذات خود فوج کے حق میں نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔