بڑھتی ہوئی دہشت گردی: ایک سنگین مسئلہ

Apr 10, 2025

مشفق لولابی--- سماج دوست

پاکستان دو دہائیوں سے زائد عرصے سے دہشت گردی کے عفریت کا سامنا کر رہا ہے۔ اگرچہ ماضی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے لیکن حالیہ برسوں میں دہشت گردانہ حملوں میں دوبارہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والی تنظیمیں جیسے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) ملک کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ یہ تنظیمیں اپنے غیر ملکی آقاؤں کے ایما پر پاکستان میں بد امنی پھیلانے کے لیے ہر وہ اقدام کر رہی ہیں جس سے دنیا کو یہ پیغام دیا جاسکے کہ پاکستان ایک غیر مستحکم ملک ہے، لہٰذا بیرونی سرمایہ کار اور سیاح یہاں آنے سے گریز کریں۔
ٹی ٹی پی نامی دہشت گرد تنظیم ویسے تو خود کو مذہب سے وابستہ بتاتی ہے لیکن اس کی کارروائیوں سے واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ وہ پاکستان اور اسلام دشمن ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ یہ تنظیم پاکستان میں متعدد دہشت گرد حملوں، فوج اور عوام کے خلاف کارروائیوں اور خودکش دھماکوں میں ملوث ہے۔ 2014ء میں پشاور میں آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) پر ہونے والا حملہ، جس میں بہت بڑی تعداد میں معصوم بچوں کو نشانہ بنایا گیا، اس تنظیم کی وحشت کی بدترین مثال ہے۔ ٹی ٹی پی کی دہشت گردانہ کارروائیاں خاص طور پر خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں اور ان سے ملحقہ اضلاع میں زیادہ دیکھی گئی ہیں۔ پاکستان نے آپریشن ضربِ عضب اور رد الفساد کے ذریعے اس تنظیم کے خلاف بھرپور کارروائیاں کیں جن کی بدولت اس کی کمر توڑ دی گئی لیکن حالیہ برسوں میں یہ تنظیم دوبارہ منظم ہو رہی ہے۔ افغان سرزمین کا استعمال کرتے ہوئے یہ تنظیم پاکستان میں کارروائیاں کر رہی ہے اور کئی ثبوتوں اور شواہد کے مطابق اسے بیرونی قوتوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔
اسی طرح، بلوچستان میں کئی گروہ اور تنظیمیں بلوچ عوام کے حقوق کا نام لے کر تخریب کاری کر رہی ہیں۔ بلوچستان میں جاری دہشت گردی میں ملوث گروہ جیسے بی ایل اے، بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے) اور دیگر علیحدگی پسند تنظیمیں ملک کی سلامتی کے لیے مستقل خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ یہ تنظیمیں پاکستان میں سکیورٹی فورسز، انفراسٹرکچر اور عوامی مقامات پر حملے کر کے انتشار پھیلانے کی کوشش کرتی ہیں۔ بی ایل اے نے کئی بار پاک فوج، چینی انجینئرز اور ترقیاتی منصوبوں کو نشانہ بنایا ہے جس کا مقصد بلوچستان میں جاری ترقیاتی عمل کو روکنا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو نقصان پہنچانا ہے۔ ان دہشت گرد تنظیموں اور گروہوں کو عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) جیسے منصوبے دشمن قوتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے خلاف سازشیں رچی جاتی ہیں۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ یہ دہشت گرد تنظیمیں نہ صرف پاکستان بلکہ اسلام کی بھی دشمن ہیں۔ اسلام امن، رواداری اور بھائی چارے کا دین ہے جبکہ یہ گروہ اور تنظیمیں بے گناہ انسانوں کا خون بہا کر اسلام کو بدنام کر رہی ہیں۔ خودکش دھماکے، معصوم عوام کا قتل اور مساجد و مدارس پر حملے اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان دہشت گرد تنظیموں کا کوئی مذہب نہیں بلکہ یہ صرف دشمن قوتوں کے آلہ ہائے کار ہیں جن کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ دہشت گردی نے پاکستان کی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری متاثر ہوئی، سیاحت کے شعبے کو شدید دھچکا لگا ہے، صنعتوں اور کاروباروں کو نقصان پہنچا ہے اور سکیورٹی اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ تمام عوامل معیشت کی ترقی میں رکاوٹ بن رہے ہیں اور عوام کی زندگی پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔
یہ بات کئی بار ثابت ہوچکی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے میں بھارت سمیت کئی ممالک کا ہاتھ ہے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ انالسس ونگ (را) متعدد بار پاکستان میں دہشت گردی کو فنڈنگ، تربیت اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے میں ملوث پائی گئی ہے۔ پاکستان نے عالمی سطح پر بھارت کی مداخلت کے کئی ثبوت پیش کیے ہیں جن میں بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر کلبھوشن سدھیر یادیو کی گرفتاری سب سے اہم مثال ہے۔ بھارت کے علاوہ کچھ مغربی اور دیگر ممالک بھی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ افغانستان میں موجود دشمن قوتیں پاکستان مخالف تنظیموں کو سہولتیں فراہم کرتی ہیں اور افغان طالبان کی عبوری حکومت بھی اس سلسلے میں مثبت کردار ادا کرنے کی بجائے ان گروہوں کی پشت پناہی کرتی دکھائی دیتی ہے جو پاکستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
یہ ایک نہایت افسوس ناک بات ہے کہ پاکستان میں ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے پاک فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں اور یہ سلسلہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ سوشل میڈیا پر پاکستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی عناصر کے بے شمار اکاؤنٹس بھارتی ایجنڈے کو فروغ دینے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی سیاست اس ریاست کے وجود کی وجہ سے قائم ہے اور ریاست کے قیام کے لیے ہی سکیورٹی فورسز سے وابستہ افسران و اہلکاران دن رات قربانیاں دے رہے ہیں۔ سیاسی اختلافات کا اظہار ضرور کیا جانا چاہیے لیکن اپنے ملک کے دفاع اور سلامتی پر کسی بھی قسم کے سمجھوتے کے بغیر۔ دہشت گردوں اور ملک دشمن عناصر کے خلاف لڑنے والے فوجی کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں کون بیٹھا ہے اور وہ وہاں کیسے پہنچا ہے، وہ بس اتنا جانتا ہے کہ پاکستان اس کا وطن ہے جس کی حفاظت کے لیے اس نے اپنا سب کچھ قربان کرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ اس فوجی کے قربانیوں کا احترام کرنا ہر پاکستانی کا فرض ہے۔
پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردوں کے خلاف ہر محاذ پر برسرپیکار ہیں۔ ضربِ عضب، رد الفساد اور خیبر فور جیسے فوجی آپریشنز کے ذریعے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو توڑا گیا اور آج بھی یہ جنگ جاری ہے۔ تاہم، دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کے لیے مزید سخت کارروائیوں کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کو ہمیشہ کے لیے اس لعنت سے پاک کیا جا سکے۔ پاکستان ایک پُر امن ملک ہے اور اس کا مستقبل روشن ہے لیکن دہشت گرد تنظیمیں اور دشمن قوتیں اسے غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد گروہ جن مذموم کارروائیوں میں ملوث ہیں ان کا سدباب سخت اقدامات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ان گروہوں اور تنظیموں کے خاتمے کے لیے پاک فوج کو بھرپور کارروائی کرنی چاہیے اور حکومت کو بین الاقوامی سطح پر سفارتی کوششیں تیز کر کے دنیا کو یہ احساس دلانا چاہیے کہ دہشت گردوں کی حمایت کرنے والے ممالک کسی ایک ملک نہیں بلکہ پوری دنیا اور انسانیت کے دشمن ہیں۔ 

مزیدخبریں