ذوالفقار علی بھٹو- اندازسیاست اور ایٹمی پاکستان
بھٹو قبیلے کے سردار شاہ نواز بھٹو نے دوسری شادی ہندو دوشیزہ مکھن بائی کو مشرف بہ اسلام کرکے کی تھی ،نام خورشید بیگم رکھا گیا۔ خورشید بیگم کے بطن سے دوبیٹیاں اور ایک بیٹا( ذوالفقار علی بھٹو) پیدا ہوئے ۔ خورشید بیگم نے اپنے بیٹے کا ذائچہ بنوایا ۔ جوتشی نے خورشید بیگم کو بتایا کہ پچاس سال کی عمر تک آپکا بیٹا شہرت اور مقبولیت کی انتہا کو چھوئے گالیکن اس کے بعد کی عمر کے متعلق جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں وہ میں زبان پر نہیں لاسکتا۔ پانچ جنوری 1928کو پیدا ہونے والا بھٹو شہرت کی بلندیوں کو چھوتا ہوا چار اپریل 1979کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ وہ اکیاون سال دو ماہ پانچ دن زندہ رہے۔ امیرتیرین والد کے بیٹے ذالفقار علی بھٹو نے بیرون ملک سے قانون کی تعلیم حاصل کی ۔ سکندر مرزا کی کابینہ میں وزیر بنے۔ سکندر مرزا کے بعد ایوب خان نے کابینہ میںلے لیا وزیر ایندھن و قدرتی وسائل تھے کہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے وزیر خارجہ محمدعلی بوگرہ کی وفات کے بعد وزیرخارجہ بن گئے۔ ملکوں ملکوں گئے سیاست کے اسرار اموز سے آگاہی حاصل کی ۔ وہ خوش شکل خوش لباس تھے۔ عوام کی نبض شناس تھے۔ عوام کے لے ان کے دل کی باتیں کرنا ،بیانات جاری کرنے کی بدولت عوام میں ان کی مقبولیت بڑھتی گئی۔ایوب خان کیلئے قائم کی گئی کنونشن مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری بن گئے۔ ایک دفعہ کابینہ میںتجویز پیش کی کہ پولیس کے ضلعی افسران کنونشن مسلم لیگ کے رکن ہونے چاہیے یہ تھا پہلاباب۔ ذوالفقار علی بھٹو نے محسوس کیا کہ انہیں عوام میں مقبولیت حاصل ہے تو دل میں خیال پیدا ہوا کہ وہ بھی صدر مملکت بن سکتے ہیں۔وہ اپنے خوش کن بیانات کی بدولت نہ صرف عوام میں مقبول تھے بلکہ ان کا اثرورسوخ اعلی مقتدر افسران تک تھا۔رن کچھ کی ایک چھوٹی سی چھڑپ میںانڈیا کو ہرانے کے بعد فوجی ہائی کمان کے دل میں یہ خواش اٹھی کہ اگرپاک بھارت کے درمیان کشمیر کے معاملے پر جنگ ہو اور جنگ کشمیرتک محدود رہے تو پاکستان مقبوضہ کشمیر آزاد کراسکتا ہے بشرطیکہ جنگ تسلیم شدہ سرحدوں تک نہ پھیلے اس کے لیے مسلح افواج کی ہائی کمان نے ذوالفقار علی بھٹو سے رائے لی۔بھٹو نے سو فیصد یقین دلایا کہ بھارت کے ساتھ جنگ کشمیر تک محدود رہے گئی۔بھارت تسلیم شدہ بین الاقوامی سرحد پر حملہ آور نہیں ہوگا۔ اس رائے پر سو فیصد یقین کرلینا غلطی ثابت ہوئی۔ اس وقت تصویر کا دوسرا رخ دیکھے بغیر جو قدم اٹھایا گیا اس کا خمیازہ بھگتا پڑا ۔ یکم ستمبر 1965اور چھ ستمبر کو پھر جو کچھ ہوا جنگ نے دونوں ممالک کو لپیٹ میںلے لیا۔اس جنگ کی کہانی پھر کبھی سہی۔ ایوب خان کی نظر میںیہ جنگ سوچی سمجھی چال تھی مثلا جنگ شروع ہوتے ہی انڈیا میںپاکستانی سفیر ارشد حسین نے ترک سفارت خانہ کے ذریعے پاکستانی وزارت خارجہ کو بر وقت آگاہ کردیا تھاکہ آج سات ستمبر کو بھارتی آرمرڈ ڈیژن جو کسی بھی فوج اہم قوت ہوتی ہے بمعہ دو انفنٹری ڈویژن پاکستان کی طرف بڑھنے کے لیے نکل چکی ہے لیکن سیکرٹری خارجہ عزیز احمد اور سیاسی قیادت نے فوجی ہائی کمان کو آگاہ نہ کیا۔ چونڈہ میں ٹینکوں کی جنگ کہانی پھر کبھی سہی۔ جنگ ختم ہوئی تاشقند معاہدہ ہوا ۔تاشقند سے واپسی پر بھٹو کابینہ سے فارغ کردئے گئے۔ بھٹو بہت پریشان تھے لیکن پھر کچھ قوتوں نے ایوب خان مخالفت میں اس کا حوصلہ بڑھایا اور بھٹو نے تاشقند معاہدے کی بلی تھیلے سے باہر نکالنے کے نام پر مہم شروع کی اور انہیں یحی خان کی حمایت مل گئی۔ایو ب خان کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تو یحٰی خان نے مارشل لا لگا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یہ ہے داستاں کا باب نمبر دوم … یحٰی خان بری فوج کا سربراہ بنایا گیا یحٰی خان نے 1970 میں جو اسمبلیوں کے الیکشن کرائے اس میں مجیب الرحمن کو مشرقی پاکستان اور بھٹو کو مغربی پاکستان میں اکثریت ملی ۔ اقتدار مجیب الرحمن کا حق تھا لیکن …؟ یحٰی خان نے مارچ 1971 کو ڈھاکہ جو سیکنڈ دارالحکومت تھا وہاںاسمبلی کا اجلاس طلب کیا تو بھٹو سمجھ گئے کہ کیا ہونے والا ہے؟ ۔درحقیت بھٹو صاحب اپوزیشن بنچوں پر نہیں بیٹھنا چاہتے تھے ۔ اسمبلی کا اجلاس منسوخ ہونے کی دیر تھی کہ مشرقی پاکستان میں ہنگامے شروع ہوگئے ۔ بھارت نے نہ صرف ہنگاموں کو بڑھایا بلکہ مکتی بھانی کے نام پر مغربی پاکستانیوں کا قتل عام کرایا گیا۔ اگر مجیب الرحمن کے اقتدار کو تسلیم کر لیا جاتا تو یقینی طور پر مجیب الرحمن کی مقبولیت چھ ماہ بعد اختتام پذیر ہوجاتی اس لیے کہ پسماندہ ممالک میں وعدے تو کیے جاتے ہیں لیکن پورے ہو پاتے اور مقبولیت ختم ہوجاتی ہے۔ پھر مشرقی پاکستان کی سول فورسز کی بغاوت ۔ پھر مغربی پاکستان سے دوری بھارت نے اپنی افواج مشرقی پاکستان میں داخل کیں۔ پولینڈ نے جنگ بند کرانے کے لیے سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی جس کے مطابق بھارت اپنی افواج مشرق پاکستان سے نکالے اور حق دار کو حق دیا جائے۔ بھٹو جو ابھی جاری یحٰی حکومت میں وزیر خارجہ تھے وہ نیویارک پہنچے ۔ سلامتی کونسل میں حاضری دی اور پولینڈ کی قرارداد کو پھاڑ کر اعلان کیا ہم لڑیں گئے۔ بھارت نے باقاعدہ حملہ کردیا ۔دونوں ممالک میں جنگ شروع ہوگئی ۔ امریکی صدر نکسن نے چھٹے بحری بیڑے کو بحیرہ روم سے بھارتی پانیوں میں پہنچے کا اور ساتویں بحری بیڑہ کو الرٹ پوزیشن پر لانے کا حکم تودیدیا لیکن وزیر خارجہ ہنری کسنجرٹال مٹول کرتا رہا ۔ آخر کار اپنے مرکز سے دور ہماری ساٹھ ہزار فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے پڑے ۔ اب باب نمبر تین ۔ پاکستان ٹوٹ گیا ۔ آدھے پاکستان کا اقتدار ملنے کے بعد بھٹو نے اپنے مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے فیڈرل سیکورٹی فورس قائم کی ۔ کئی آزاد کشمیر کے دلائی کمیپ میں پہنچا دیئے گئے۔ ایک معمولی سی بات بھی برداشت نہ کی اوا جے اے رحیم جو پیلپز پاڑٹی کے بانیوں میںسے اور پیلپز پارٹی کے منشورکے بانی تھے ان کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے ۔ خواجہ رفیق،ڈاکٹر نذیر جان گنوا بیٹھے اور احمد ر ضا قصوری کو منظر سے ہٹانے کیلئے فیڈرل سیکورٹی فورس نے کوشش کی لیکن قصوری بچ گئے ۔ شیخوپورہ کے ایم این اے کی جان چلی گئی۔اسی طرح احمد رضا قصوری کی ایک بار پھر جان لینے کی کوشش کی ۔ احمد رضا قصوری کے والد شہید ہوگئے اور یہ قربانی آخر کار بھٹو کو تختہ دار تک لے گئی ۔بھارت کے 1974 میں اٹیمی دھماکے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے فرانس سے اٹیمی ری پراسینگ پلانٹ نہ ملنے کے بعد ڈاکٹر قدیر جیسے ہیرے کو ڈھونڈا اور اٹیمی قوت کی بنیار رکھی اور آج پاکستان اٹیمی پاور کا ملک ہے۔یہ بھٹو کی پاکستان کی سب سے بڑی خدمت اور قومی سوچ ہے جو اس کی تمام خامیوں پر حاوی رہے گی۔