’’ارشاد نامہ‘‘ جسٹس (ر) ارشاد حسن خان کی سوانح عمری ہے۔ یہ کتاب کئی حوالوں سے منفرد ہے۔ بڑے لوگ مافی الضمیر کے بیان کیلئے انگریزی زبان کو ذریعۂ و تحریر و تقریر بناتے ہیں۔ارشاد حسن خان صاحب نے اپنی داستانِ حیات اردو میں قلمبند کی ۔ وہ چیف جسٹس آف پاکستان رہے۔اس دوران صدر پرویز مشرف کی پاکستان سے عدم موجودگی میں قائم مقام صدربھی ہوا کرتے تھے۔ چیف جسٹس کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ چیف الیکشن کمشنر تعینات کئے گئے۔ ان کو بطور چیف جسٹس تو سیع دینے کی کوششیںکی گئیں مگر وہ آمادہ نہ ہوئے۔ بعدازاں چیف الیکشن کمشنر کے طور پر بھی توسیع کیلئے اسی عہدے کی میعاد پانچ سال کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ انہوں نے حکومت کو اس قانون سازی سے روکتے ہوئے باور کرایا کہ یہ انکی ریٹائرمنٹ کے بعد کیا جائے اور ایسا ہی ہوا۔
آمریت پر تنقید ہوتی ہے۔توکچھ لوگ یہ بھی کہتے سنے جاتے ہیں کہ آمرکو اسکے کہے بغیر آئین میں ترمیم کا اختیار دے دیا گیا۔میں خود ایک عرصہ اسی غلط فہمی یا بدگمانی میں مبتلا رہا جو ایک ملاقات کے دوران دور ہو گئی۔ قیوم نظامی صاحب کی میزبانی میں دوسرا مہمان میں تھا۔ مہمان خاص جسٹس صاحب تھے اور یہ ان سے میری پہلی ملاقات تھی۔باتوں باتوں میں تذکرہ ہوا تو ان سے معذرت کرتے ہوئے پوچھ لیا‘’’جناب! آپ نے مشرف کے مارشل لا کو جائز قرار دیا اور ان کو آئین میں ترمیم کا اختیار خود سے تفویض فرما دیا۔‘‘ اس پر جسٹس صاحب کی طرف کہا گیا کہ میں اپنے موبائل کا ریکارڈ ر آن کر کے یہی سوال دُہرائوں۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ انہوں نے نہ صرف اس سوال کا تفصیلی جواب دینابلکہ مزید دو تین سوالوں کے جواب بھی دیئے جو ان کے ناقدین کی نوک زباں پر مچلتے رہتے ہیں۔ ان میں ایک مشرف حکومت کو انتخابات کیلئے تین سال دینابھی تھا۔
ارشاد حسن خان صاحب کئی مضامین میں وضاحت کر چکے ہیں مگر نہ کوئی ان کی وضاحت پڑھتا ہے نہ کسی نے اس فیصلے کو پڑھنے کا تکلف کیا جس میں انتخابات کیلئے تین سال اور آئین میں ترمیم کا اختیار دینے کی دلیل نکالی جاتی ہے۔ کتاب میں اس معاملے کی پھر سے وضاحت کی گئی ہے۔ ہو سکتا ہے الزام لگانے والوں کی بھی کتاب کے مطالعے کے بعد وہی رائے ہو جائے جو ظفر علی شاہ کیس میں حکومت مخالف وکیل خالد انور کی تھی۔ اس فیصلے کیخلاف ان سے نظرثانی کی پٹیشن دائر کرنے کو کہا گیا تو ان کا جواب تھا‘ میں پٹیشن کس لئے دائر کروں؟ میری بات تو سپریم کورٹ نے مان لی تھی۔ ہر تخلیق کی کوئی وجہ ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس کتاب کے سامنے آنے کا سبب وہ ملاقات تھی جس کا شروع میں تذکرہ کیا۔ یاد آیا‘ میں نے نوائے وقت سنڈے میگزین میں ’’ایک سوال کے تین جوابات‘‘ کے عنوان سے 12 جنوری 2017ء ایک آرٹیکل بھی لکھا تھا۔ قیوم نظامی صاحب نے ارشاد حسن خان صاحب پر کتاب تحریر کرنے کیلئے زور دیا۔ کہتا تو میں بھی رہا جبکہ نظامی صاحب تو گویا پیچھے ہی پڑ گئے اور ان کو کتاب لکھتے ہی بنی۔جسٹس صاحب کہتے ہیں کہ انکے داماد اور بچے بھی سوانح عمری رقم کرنے پر زور دیتے رہے تھے۔ارشاد حسن خان عدلیہ کی بلاشبہ تاریخ ہیں۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ تاریخ کی زبانی ایک تاریخ ہے۔ اس کتاب میںارشاد حسن خان صاحب نے بچپن سے لڑکپن‘ تعلیم‘ وکالت‘ بڑے عہدوں پر تعیناتی اور اس دوران پیش آنیوالے اہم واقعات بیان کئے ہیں۔ کئی چشم کشا واقعات جسٹس صاحب سے سن رکھے ہیں جو ’’ارشاد نامہ‘‘ کے پہلے اور دوسرے ایڈیشن کا حصہ نہ بن سکے۔تیسرے میں گنجائش نکل سکتی ہے۔ ’’ارشاد نامہ ‘‘میں کسی بھی جج کے کردار کو زیربحث نہیںلایا گیا۔جسٹس ارشاد حسن خان بہر صورت اپنے ادارے کا شملہ اونچا رکھنا چاہتے ہیں اس لئے کسی متنازعہ بات سے گریز کیا۔کتاب میں قائد اعظم سے ملاقات کا احوال، نواب آف کالا باغ،مجید نظامی ‘محبوب مرشد سے باتیں‘ جنرل ضیاء الحق،محمد خان جونیجو، بینظیر بھٹو، جنرل مشرف کے ساتھ تعلقات کار،اپنی ترقی کارکردگی اور مشکلات کا تذکرہ موجود ہے۔ایک مرتبہ بطور سیکر ٹری قانون جونیجو کابینہ کے اجلاس میں اس وقت سناٹا چھا گیا جب کسی بات پر انہوں کہا کہ میں جج بھی ہوں اور توہین عدالت کا ابھی نوٹس دے سکتا ہوں۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ پرریویو لکھنے والوں میں چیف جسٹس گلزار احمد، قانون دان ایس ایم ظفر، وسیم سجاد، اعتراز احسن ،قیوم نظامی اور معروف صحافی سعید آسی و حفیظ قریشی شامل ہیں۔’’ارشاد نامہ‘‘ پر اخبارات میں تبصروں کا ایک طویل سلسلہ جاری ہے۔ نوائے وقت اور معاصر اخبارات میں شائع ہونے والے آرٹیکلز کے اقتباسات بھی دلچسپ ہیں اور جسٹس صاحب کی شخصیت کے کئی پہلوئوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ ان پر بھی ایک سرسری نظر ڈال لیتے ہیں۔
جناب مجیب الرحمن شامی نے خامہ فرسائی کی ہے:پاکستان کے سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی خودنوشت ’’ارشاد نامہ‘‘ پاکستانی سیاست، عدالت اور صحافت کیلئے توجہ طلب ہے۔ تین سو دس صفحات کی اس کتاب میں بہت کچھ ایسا موجود ہے جس کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ چیف جسٹس ارشاد حسن خان کو جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا تھاکیونکہ چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی مرحوم فوجی حکم کے تحت ازسرنو حلف اٹھانے پر تیار نہیں تھے۔(جاری)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024