عمران خان کہتے ہیں کہ قرضے اتارنے کے لئے مزید قرضے لینے پڑے جبکہ ن لیگ دور حکومت سے پندرہ ہزار ارب قرضہ واپس کیا عمران حکومت جب سے وجود میں ائی اسے افواہوں مزاحمتوں اور مافیاز کا سامنا کرنا پڑا جس وجہ سے کھبی احتساب بلا تفریق پر بیک فٹ پر جانا پڑا کھبی اتحادیوں کو منانے کے لے اپنے منشور کی قربانی دینی پڑی ن لیگ اور پی پی پی نے اس حکومت پر مہنگائی کنٹرول نہ کرسکنے کا الزام عائد کیا کھبی اتحادیوں پر الزامات کی ںھرمار کردی حالانکہ انکے اتحادی اپوزیشن جماعتوں کے بھی ماضی میں اتحادی رہ چکے ہیں اگر ہم ماضی کی حکومتوں کا موازنہ کریں تو ہمیں سمجھنے میں زیادہ اسانی ہوگی کہ مہنگائی کے زمہ داران حقیقت میں کون ہیں ۔
1972 میں ایک امریکی ڈالر پاکستان کے 4 روپے کے برابر تھا۔ اسی طرح ایک پاکستانی روپے کی قیمت 21 امریکی سینٹس تھی۔ لیکن پھر 1982 سے جمہوریت کا سنہری دور شروع ہوا اور روپے کا زوال شروع ہو گیا۔ جمہوریت اور مشرف کو ملا کر 2008 تک ڈالر 64 روپے تک پہنچ گیا۔زرداری اپنے پانچ سالہ دور میں ڈالر کو سیدھا 64 سے 98 پہ لے گیا۔ پہلی دفعہ ایک جمہوری حکومت نے عوامی خدمت کرتے ہوئے پانچ سال پورے کیے تھے اور پہلی بار روپے کی قدر میں 52 فیصد کی تاریخی کمی ہوئی۔ لیکن قوم خاموش رہی کہ جمہوریت ڈی ریل نہیں ہونی چاہیے ۔
پھر ایک اور جمہوری دور شروع ہوا۔ یہ ن لیگ کے ارسطوں کا سنہرا دور تھا۔ یہ لوگ زرداری سے چار ہاتھ آگے نکلے۔ ڈالر کو مصنوعی طور پہ روکنے کیلیے مارکیٹ میں قرض لیکر 22ارب ڈالر کے قریب پھینکے گئے مگر قوم کے اربوں ڈالر ہوا ہو جانے کے بعد بھی ڈالر کی قیمت 98 سے 129 پہ چلی گئی۔ یعنی روپے کی قدر میں 31 فیصد کمی ہوئی۔ اوپر سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بیس ارب ڈالر جبکہ تجارتی خسارہ چالیس ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ امپورٹ ایکسپورٹ کی حال کیا بتائیں کہ ایک زرعی ملک 5 ارب ڈالر سے زائد کی چائے، مصالحہ جات، خوردنی تیل، چینی اور دالیں وغیرہ جیسی مختلف غذائی اجناس درآمد کرنے لگا۔
پھر ایک حقیقی جمہوری دور آیا۔ قوم کے اربوں ڈالر ضائع کرنے کے بجائے یعنی آرٹیفیشل طریقہ سے کنٹرول کرنے کے بجائے ڈالر کی فلوٹنگ کو چھیڑا نہیں گیا۔ ڈالر 129 سے 160 تک گیا۔ انھی چوروں کی جانب ست بہت شور مچایا گیا اور پراپیگنڈہ ہوا مگر حکومت اپنا کام کرتی رہی۔ کرنٹ اکاؤنٹ کا بیس ارب ڈالر کا ختم کر کے سرپلس میں کر دیا گیا اور تجارتی خسارہ بھی ختم کیا گیا جو امپورٹس کی وجہ سے انتہائی کم حد تک بڑھتا بھی ہے مگر اربوں ڈالر والا چکر ختم ہو گیا۔ تمام معاشی اعشاریے مثںت کر دیے گئے اور ڈالر ریٹ بھی مستحکم ہو گیا۔ اس وقت ڈالر کی قیمت 153 ہے۔
یعنی زرداری نے روپے کی قدر میں 52 فیصد ، نواز نے 22 ارب ڈالر ضائع کر کے بھی 31 فیصد جبکہ عمران خان نے اربوں کے خسارے ختم کرنے کے بعد بھی روپے کی قدر میں صرف 18 فیصد کمی کی اور پانچ سال پورے ہونے تک ان شاء اللہ یہ بھی ختم ہو جائے گا۔
نواز و زرداری نے قوم کو ڈکٹیٹرشپ سے ڈرا کر اور جمہوریت کی لوری دیکر خوب لوٹا اور ایک دوسرے کو سپورٹ کیا گیا۔ ان کا دس سالہ دور ہر لحاظ سے اس قدر بھیانک ہے کہ جس کی بھرمائی شاید اگلے بیس سال میں ممکن ہو پائے لیکن عمران خان نے اپنے عمل سے جمہوری حکومت کو ثابت کیا ہے اور ڈوبتی معیشت کو بچا کر اسے مضبوط بنیادیں فراہم کر رہا ہے۔ بس یہی بنیادی فرق ہے اب اگر عمران خان کو مزید مستحکم وقت حکمرانی مل گیا تو طرز حکمرانی کی طرز بالکل ٹھیک جارہی ہے ادھر آپ موازنہ کریں بزدار کا شہباز شریف سے تو شہباز شریف منصوبہ جات پر پیسے لگانے کے ساتھ ساتھ اپنی سیلف پروجیکشن پر اربوں روپیہ خرچ کر دیتا تھا جس سے ماحول ایسا بن جاتا تھا کہ لگے بہت کام ہو رہا ہے مگر عثمان بزدار اپنی پروجیکشن میں ناکام رہے ہیں جبکہ عوامی پیسہ عوام کے فلاحی منصوبہ جات پر ہی خرچ کر رہے ہیں جسکی وجہ سے ہمیں شہباز اور بزدار کے قد کاٹھ میں فرق محسوس ہوتا ہے۔ اگر بزدار حکومت کے میڈیا ایڈوائزرز کو بھی حاوی بجٹ سیلف پروجیکشن کے لئے الاٹ کر دیا جائے تو شہباز بزدار سے پیچھے رہ جائیں گے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38