کوئٹہ:چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے بلوچستان کے ہسپتالوں میں ناکامی سہولیات پر سیکرٹری صحت صالح ناصر کی سرزنش کی اور کہا کہ میں آپ کی کاکردگی سے مطمئن نہیں،آپ لیٹ ہیں نوکری چھوڑ دیںجبکہ ڈاکٹروں کی تنخواہوں کی ادائیگی تک ان کی تنخواہ بند کرنے کا حکم دے دیا.چیف سیکریٹری کو ہدایت کی کہ بجٹ کی باتیں نہ کریں. اسپتالوں میں آلات بہتر رکھیں اور ان کی حالت بہتر بنائیں. وزیراعلی کو بتائیں ان کے جائزمطالبات تسلیم کریں ورنہ ہمیں تو کچھ کرنا ہوگا. تعلیم سے متعلق پالیسی بنا کر 15دن میں رپورٹ دی جائے.تعلیم اور صحت کے شعبے میں کوئی سیاست قبول نہیں کی جائے گی، ایسا نہ ہو سپریم کورٹ صحت اور تعلیم میں ٹریڈ یونین پر پابندی لگا دے.چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے مکالمے کے دوران کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کے سب سے زیادہ پیسے آپ کو ملے. بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے پیسے کون کھا گیا،صوبے میں کوئی گورننس نہیں ہے اور پینڈورا باکس بنا ہوا ہے. میں تو سمجھتا تھا کہ سندھ کی صورتحال ابتر ہے لیکن یہاں تو کوئی حالت ہی نہیں ہے۔منگل کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منصور علی پر مشتمل تین رکنی بینچ تعلیم، صحت اور پانی کی صورتحال سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔چیف سیکریٹری سمیت دیگر اعلی حکام بھی عدالت میں موجود تھے، چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ سابق وزرائے اعلی کہاں ہیں؟سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کی جانب سے ان کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ پانی کے حوالے سے رپورٹ مکمل کرلی ہے؟ایڈووکیٹ جنرل روف عطا نے انہیں جواب دیا کہ کابینہ کا اجلاس ہوا ہے. ایک ہفتے میں رپورٹ مکمل کرلی جائے گی۔چیف جسٹس پاکستان نے صاف پانی کی فراہمی سے متعلق پالیسی تیار کرکے رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ڈاکٹروں کو تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر پر سیکریٹری صحت کی سرزنش کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان میں ڈاکٹر کو 24ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے جبکہ سپریم کورٹ کا ڈرائیور 35ہزار روپے تنخواہ لے رہا ہے۔چیف جسٹس کا اپنے ریمارکس میں مزید کہنا ہے کہ ڈاکٹرز کو تنخواہ ادا نہیں کی گئی، کل مشکل سے ان کی ہڑتال ختم کرائی۔سیکرٹری صحت صالح ناصر نے جواب دیا کہ ہر دو ماہ بعد ہاوس جاب کرنے والے ڈاکٹروں کو تنخواہ ادا کی جاتی ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے سیکرٹری صحت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ڈاکٹرز کی تنخواہ ادا نہیں ہوتی آپ کی تنخواہ بند ہے. میں آپ کی کاکردگی سے مطمئن نہیں،آپ لیٹ ہیں نوکری چھوڑ دیں۔چیف جسٹس پاکستان نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کس صوبے سے آئے ہیں؟سیکرٹری صحت صالح ناصر نے انہیں جواب دیا کہ میرا تعلق بلوچستان سے ہے۔جس پر چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ پھر آپ صوبے کے لیے کام کریں. آپ نے اسپتالوں کی حالت دیکھی ہے؟ سول اسپتال کوئٹہ میں ایک بھی ایم آر آئی مشین نہیں ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ چیف سیکریٹری صاحب آپ سیکرٹری صحت کو کہیں اور ٹرانسفر کردیں۔چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری کو ہدایت کی کہ بجٹ کی باتیں نہ کریں، اسپتالوں میں آلات بہتر رکھیں اور ان کی حالت بہتر بنائیں۔انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعلی کو بتائیں ان کے جائزمطالبات تسلیم کریں ورنہ ہمیں تو کچھ کرنا ہوگا۔چیف جسٹس نے سیکریٹری تعلیم بلوچستان سے استفسار کیا کہ صوبے کے دور دراز علاقوں کے اسکولوں کی حالت کے بارے میں بتائیں؟سیکرٹری تعلیم نے جواب دیا کہ بلوچستان میں تین سال میں چار لاکھ بچوں کو داخلے دلوائے گئے. 50 فیصد اسکولوں میں پانی نہیں، یہی شرح مڈل اور ہائی اسکولوں میں ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیشہ یہی پوچھتا ہوں کہ آپ کا تین سالہ پلان کون تیارکرے گا؟ پانی اور واش روم بننے میں کتنا عرصہ لگ جائےگا؟سیکریٹری تعلیم نے جواب دیا کہ ہم نے مکمل پلان ترتیب دیا ہے جسے کابینہ سے منظور کرایا جائے گا، تین سال میں 11 ہزار اسکولوں میں واش روم بنا دیں گے۔سیکرٹری تعلیم نے کہا کہ صوبے میں سرکاری اسکولوں کی صورتحال خراب ہے. لیکن اتنی بھی نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کسی بہترین اسکول میں آپ مجھے لے جائیں۔چیف سیکرٹری نے کہا کہ خضدار کے علاقے کٹھان میں ماڈل اسکول ہے ، شہر میں اسکولوں کا مسئلہ نہیں، خرابی میں اساتذہ بنیادی وجہ ہیں.ہمارے اساتذہ دلچسپی نہیں لے رہے، ٹیچرز پولیٹیکل ونگ بن گئے ہیں۔سیکرٹری تعلیم نے کہا کہ مجھے اساتذہ کی ایسوسی ایشن سےکوئی تعاون نہیں مل رہا، صوبے میں جے وی ٹیچر 20 گریڈ تک پہنچ جاتا ہے لیکن کارکردگی صفر ہے جس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ تعلیم سے متعلق پالیسی بنا کر 15دن میں رپورٹ دی جائے۔گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے رہنما مجیب اللہ غرشین نے سماعت کے دوران کہا کہ ہم غیر حاضر اساتذہ کے حق میں نہیں لیکن یہاں جونیئر سینیئر کی جگہ آجاتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت سیاسی مداخلت ختم نہیں کررہی جس سے معاملہ بگڑ رہا ہے، اس موقع پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس سے پوچھوں وہ دوسرے پر ڈال دیتا ہے۔چیف جسٹس نے مجیب اللہ غرشین کو خضدار تبادلہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ جاکر بچوں کو پڑھا ، لیڈری مت کرو، تعلیم اور صحت کے شعبے میں کوئی سیاست قبول نہیں کی جائے گی، ایسا نہ ہو سپریم کورٹ صحت اور تعلیم میں ٹریڈ یونین پر پابندی لگا دے۔چیف سیکرٹری سے مکالمے کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ کے سب سے زیادہ پیسے آپ کو ملے، بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے پیسے کون کھا گیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صوبے میں کوئی گورننس نہیں ہے اور پینڈورا باکس بنا ہوا ہے.میں تو سمجھتا تھا کہ سندھ کی صورتحال ابتر ہے لیکن یہاں تو کوئی حالت ہی نہیں ہے۔چیف جسٹس نے یہ ہدایت بھی کی کہ تمام شوگر ملز کو نوٹسز جاری کیے جائیں، انہوں نے کتنا گنا خریدا ہے؟
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38