ماہ مارچ کے آخری دو ہفتوں میں دو اہم شخصیات وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور وزیر اعظم پاکستان شاہد خان خا قان عباسی نے محرومیوں کے شکار ضلع ڈیرہ غازی خان کے یکے بعد دیگرے ہنگامی دورے کیے ۔ بقو ل سرکار جمہوری لیڈروں کے یہ دورے جمہور کے لیے تھے۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے چوٹی زیریں میں جلسہ عام کے پنڈال میں جمہوری ثمرات کی حامل تقریر کے ہمراہ1127.338 ملین روپے کے چھ ترقیاتی منصوبہ جات گرلز ہائی سکول ہیڈ زیرو ، ٹراما سنٹر تونسہ شریف، تعمیر کوٹ چھٹہ بائی پاس، کارپٹ سٹرک چوٹی زیریں تا چوٹی بالا، بستی ملانہ تا حیدری موڑ، محبوب موٹر تا عالم خان (کالا کالونی) کا افتتا ح جبکہ150.477 ملین روپے مالیت کے ایک منصوبہ چائلڈ پروٹیکشن انسٹی ٹیوٹ ڈیرہ غازی خان کا سنگ بنیاد رکھا۔
وزیر اعظم پاکستان نے غازی یونیورسٹی ائر پورٹ کیمپس میں سجے پنڈال میں مخصوص واہ واہ کرنے والے لوگوں ، افسران اور سیکیورٹی اہلکاروں کی فوج ظفر موج سے جمہوری خطاب کیا۔جمہوری خطاب کے بعد اختتام وزٹ پر دونوں شخصیات نے لغاری ہائوس میں بلوچی مہمان نوازی کا لطف اُٹھایا۔ دونوں شخصیات اِس ضمن میں خوش قسمت ہیں کہ انہیں لغاری ہائوس میں پرُ تکلف بلوچی مہمان نوازی سے نوازا گیا ورنہ عمومی طور پر لغاری گروپ کے سیاسی ورکر لغاری ہائوس کی مہمان نوازی سے محروم رہتے ہیں بلکہ زیاد ہ تر شکایت کنندہ رہتے ہیں۔
وزیر اعظم نے بھی 17.35 ارب روپے کے دو منصوبہ جات، تعمیر چار رویہ بائی پاس روڈ اور توسیع منصوبہ قومی شاہراہ ارکھی گاج تا بواٹہ کا افتتا ح بھی پنڈال میں کیا۔وزیر اعظم نے ظہرانے کا شرف وفاقی وزیر مواصلات حافظ عبد الکریم کو بخشا۔ جہاں کھانے کے بعد قائدین شہر نے سلفیوں کے شوق خوب پورے کیے۔بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ جمہور کے نام پر ہونے والے یہ دونوں دورے حسب سابق سیاسی شعبدہ بازی اور سرکس کے پنڈال تھے۔ذرائع کے مطابق وزیر اعلی پنجاب کے دورہ پر ضلعی انتظامیہ اور کمیونیکیشن اینڈ ورکس اور ہائی وے پنجاب کے گورنمنٹ ٹھیکہ دار ان کے تقریباً 60لاکھ روپے خر چ ہوئے۔اِسی طرح وزیر اعظم کے انتظامات پر NHAکے ٹھیکہ داران کے تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے خر چ ہوئے۔ سرکاری افسران کے اخراجات کی مالیت سرکاری بلوں میں نجانے کتنی ہوگی معلوم نہیں ۔ تاہم جتنی بھی ہوگی عوام کے ٹیکسوں کی رقم سے ہوگی۔
وزیر اعلیٰ پنجاب نے جن سات منصوبہ جات کا افتتاح کیا ایسا کسی مہذب معاشرے میں ہوتا تو وہ حکومت شرم سے پانی پانی ہو جاتی اور یوں اپنی ناقص کارکردگی کی سرعام تشہیر نہ کرتی۔72.627ملین روپے مالیت کے منصوبہ ٹراما سنٹر تونسہ شریف کا افتتاح عوام کے ساتھ ایک مذاق تھا۔محکمہ بلڈنگ نے اِس منصوبہ کی تختی پر جو مالیت بیان کی ہے وہ اعداد وشماردرست نہ تھے ۔بہر حال یہ منصوبہ بجٹ 2014-15کا GS-657ہے اوراِس کی مالیت 77.267تھی۔ مگر اِسے Revisedکرتے ہوئے 72.716ملین روپے تک بڑھا دیا گیا۔78مرلے کورڈ ایریا کے اِس چھوٹے سے منصوبہ کو تین ٹھیکہ داروں نے ایک سال کی مدت میں مکمل کر نا تھا۔ مگر اُنہوںنے اِسے 07اپریل 2017کو تاخیر سے مکمل کیا مگر ابھی تک محکمہ بلڈنگ اِس کو Handoverنہیں کر سکا ۔جبکہ محکمہ صحت ٹراما سنٹر میں متعلقہ سٹاف کی تعیناتی سمیت دیگر طبی مشینری تاحال نصب نہیں کر سکا۔جبکہ اِس منصوبہ کی تختی کی نقاب کشی17مارچ2018کو تونسہ شہر سے باہر چوٹی زیریں شہرمیں باعث فخر قرار دی گئی۔ اِسی طرح29.664ملین روپے مالیت کا منصوبہ تعمیر گرلز ہائی سکول ہیڈ زیرو چوٹی زیریںکی تکمیل پروجیکٹ کی سرکاری تاریخ 07دسمبر2016تھی اور محکمہ تعلیم کے حوالے بھی کیا جا چکا ہے مگر چوٹی جلسہ میں عوام کو گمراہ کرنے کی خاطر اِس کا افتتاح کر دیا گیا ہے۔ اِسی طرح چوٹی زیر یں تا چوٹی بالا روڈ کا 377.095 ملین روپے مالیت کا منصوبہ29جون2016 کو شروع ہونا تھا مگر رقم کی عدم منظوری کی بناپر یہ 2017میں شروع ہوا اور بوقت افتتاح سے قبل مکمل تھا۔ کوٹ چھٹہ بائی پاس مالیت 347.707ملین روپے ، 5.5کلومیٹر طویل چھوٹا سامنصوبہ جو 17جنوری 2016کو مکمل ہونا تھا وہ 2017میں تاخیر سے مکمل ہوا مگر اِسے بھی باعث فخر تصور قرار دیا گیا ہے۔ مثل وزیر اعلیٰ پنجاب ، وزیر اعظم پاکستان نے راکھی گاج تا بواٹہ منصوبہ کی جو نقاب کشی فرمائی وہ منصوبہ حکمرانوں کی نااہلیت کی بناپر 2008کی بجائے تقریباً8سال کی تاخیر سے شروع ہوا جسے قطعی طور پرقابل فخر قرار نہیں دیا جاسکتا۔
جمہوری حکمران عوام میں سیکیورٹی خد شات کے بہانے کی آڑ میں پنڈالوں میں تختیوں کی نقاب کشائی کر رہے ہیں۔ عوا م میں جاتے ہیں تو اب جوتیاں پڑتی ہیں۔ چوٹی جلسہ میں ایک نوجوان کرکٹر نے تعریفی نعرہ لگایا تو جوتی کے خوف کی بناپر وزیر اعلی نے جلسہ ادھورا چھوڑ دیا۔ وزیر اعظم کو سجے سجائے پنڈال میں خوشامدیوں کی بھیڑسے خطاب کر ایا گیا ۔ سیکیورٹی کے نام پر وزیر اعظم کے وزٹ روٹس پر کرفیو کا سماں تھا جیسے وزیر اعظم پاکستا نی شہری نہ ہو او ر اہلیان ڈیرہ غازی خان کسی اور ملک کے شہری ہوں۔ماضی میں جب کوئی صدر یا وزیر اعظم شہر کا دورہ کرتا تھا تو اِسی بہانے شہر بھر کی صفائی بھی ہو جایا کرتی تھی مگر اختتامی دنوں کی حکومت کے وزیر اعظم کوانتظامیہ میونسپل کارپوریشن کسی خاطر میں ہی نہیں لائی۔ اور اپنی روایتی بے حسی کو اِس موقعہ پر بھی بر قرار رکھا ۔ شہر کی صفائی کی آخری اُمید بھی اب تو دم توڑ گئی ۔
چوٹی جلسہ میں جب وزیر اعلی پنجاب اپنی کارکردگی بحوالہ تعمیر ات سڑکات، پل اور میٹرو بسیں بیان فرما رہے تھے اُس وقت سٹیج کے بالکل عین سامنے تعلیمی ادارہ انڈس انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کے سینکڑوں متاثرہ سٹوڈنٹس جن کا مستقبل جعلی ڈگریوں کے سیکنڈل کی بناپر تباہ و برباد ہو گیا ہے وہ اصل ڈگریوں کے حصول کے لیے احتجاجی نعرے لگاتے رہے مگر موصوف نے اُن آوازوں پر ایسے رد عمل کا مظاہر ہ کیا جیسے نعرہ لگانے والے گونگے ہوں اور اُن کی آوازیں باہر نہیں نکل رہی۔ بعین ہی وزیر اعظم کے ہیلی پیڈ کے قریب ہی 2012سے قائم نام نہاد غازی یونیورسٹی کے باہرطلباء نے وائس چانسلر کی عدم تعیناتی اور یونیورسٹی میں ہونے والی کرپشن کے خلاف احتجاجی کیمپ لگا رکھا تھا۔ مگر وزیر اعظم سٹرک پراحتجاجی سٹوڈنٹس پر ایک نگاہ ڈالے بغیروفاقی وزیر حافظ عبدالکریم کے ظہرانے پر تشریف لے گئے دونوںجگہ احتجاج کرنے والے متاثرہ سٹوڈنٹس کو جان بو جھ کر نظر انداز کیا گیا کیونکہ انڈس کالج سے لے کر غازی یونیورسٹی تک کی کرپشن اور لوٹ مار کی الف لیلوی داستان کے کرداروں کا سکرپٹ ایک ہی ہے ۔ اِن متاثرہ سٹوڈنٹس کے ظالموں کی فہرست میں اول نام مذکورہ وفاقی وزیر کا اپنا ہے۔ وزیر اعلیٰ فیملی پر وفاقی وزیرکے بہت سے محبت کے بوجھ ہیں اِس لیے وہ مروت میں خاموش رہے جبکہ وزیر اعظم کامیزبان بھی وفاقی وزیر تھا۔ اِس لیے وہ بھی باعثِ دُنیا داری میزبان کے اعمال پر خاموش رہے۔دوسری جانب جمہور خوش ہے کہ وزیر اعلی اور وزیر اعظم ترقیاتی کاموں کے اعلانات کر گئے ہیں یہ الگ کہانی ہے کہ موجودہ حکومت اِن اعلانات کا پیپر ورک مکمل کرنے کے قابل ہی نہیں مگر عوام اِس بار بھی اِس کہانی کی سچائی سے بے نیاز ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024