پنجابی سیاسی پارٹی کی ضرورت کیوں؟پنجاب بیساکھی فیسٹول
بتیس سال سیاسی آوارہ گردی کرتے ہوئے مجھے یہ احساس ہوا کہ میں جسے بھی سونا سمجھتا ہوں وہ بعدازاں پیتل سے بھی کوئی کم تر دھات نکل آتی ہے۔حالانکہ مجھے یہ بھی پتا ہے کہ میں اکیلا یا کوئی بھی شخص اکیلا پورے معاشرے کی سوچ اور ملک قسمت نہیں بدل سکتامگر جب خدا کی رحمت اور ماضی کے تجربات کو انسان دیکھے تو اللہ تعالیٰ نے بارہاانسان کو امید اور جستجو کی نوید دی ہے ۔ لاتقنطوامن رحمتہ اللہ کے پڑھنے سے انسان کو حوصلہ ملتا ہے ۔یہی سوچ کر کہ جسمانی طور پر ایک عام سے شخص محمد علی جناحؒ کی سوچ اور ویژن نے ان کو قائداعظم بنا دیا اور آج ہر کوئی انکی سیاسی وارثت کا دعویدار بنا بیٹھا ہے۔دوستوں سے مشاورت کے بعد فیصلہ ہوا کہ دوسرے صوبوں کی طرح پنجاب کو ایک سیاسی جماعت کی ضرورت ہے اور کافی سوچ بچار کے بعد میں دوستوں کو قائل کرنے میں کامیاب بھی ہو گیا کہ ایک پنجابی سیاسی پارٹی کے بننے سے ہمارے محب وطن ہونے پہ کوئی داغ نہیں لگے گا کیونکہ سندھ میں پہلے آدھ درجن کے قریب سندھی سیاسی پارٹیاں اپنا وجود رکھتی ہیںاور ”جئے سندھ“ جیسی لبرل جماعت بھی قائم و دائم ہے۔ اسی طرح خیبرپختونخواہ میں ”نیشنل عوامی پارٹی“اور چند ایک خالصتاً پختون سیاسی پارٹیاں موجود ہیں جب کہ بلوچستان میں بھی پہلے سے کئی سیاسی گروپ اورجماعتیں اپنا وجود رکھتی ہیں اور ابھی گذشتہ ہفتے ”بلوچستان عوامی پارٹی“ کی بنیاد رکھی گئی اور غیرمعمولی تشہیر بھی کی گئی۔
قارئین!جب سے ہوش سنبھالا ہے تو یہ دیکھتے اور سنتے آئے ہیں کہ گالی ہمیشہ پنجاب کو پڑتی ہے وہ اس لیے پنجاب 13کروڑ کی آبادی کے ساتھ پاکستان کا تقریباً 60 فیصد آبادی والا صوبہ ہے۔اور اسی وجہ سے فوج میں سپاہیوں کی تعداد کے لحاظ سے بھی پنجاب نمبر 1ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں پنجابی اسٹیبشلمنٹ اور ہمارے سیاستدانوں کی شناخت حقوق سلب کرنےوالے کے طور پر کرائی جاتی ہے۔ جب ہم پاکستان سے نکلتے ہیں اور ہمیں کیرالہ، اترپردیش، تامل ناڈو، مہاراشٹر، آسام، بنگال کے لوگوں سے ملنا پڑتا ہے تو یہ دیکھ کر ہماری حیرانگی کی انتہا نہیں رہتی کہ ان لوگوں کو ہندی زبان جو اردو سے مشابہہ ہے بولنی ہی نہیں آتی اور وہ مادری زبان کے علاوہ صرف انگلش میں بات کرتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ہمارے ہاں اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا۔ لیکن دنیا کے نقشے میں پاکستان کے پنجابی وہ واحد سیاسی یتیم لوگ ہیں جو علم و ادب کا بھرپور خزانہ رکھتے ہوئے بھی آج اپنی شناخت کیلئے پریشان ہیں۔آپ شاہ حسین ؒکا کلام پڑھیں یا محمد بخشؒ ، بلھے شاہؒاور بابا فرید گنج شکرؒکا فلسفہ پڑھیں تو آپ کو یہ مان ہونا چاہیے کہ ہماری زبان صوفیا کی زبان ہے جبکہ پچھلے 70سال سے پاکستان کو الباکستان اور پنجاب کو بانجھ آب بنانے کی حتی الوسع کوشش کی جارہی ہے۔ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ جس بچے کو پنجابی مادری زبان کے طور پر پرائمری سے ہی شروع کرنی چاہیے اسے صرف بی اے کے نصاب میں اختیاری طور پر شامل کیا گیا ہے۔اور ایم اے پنجابی والے آپ کو شاد شاد ہی ملتے ہیں جبکہ پاکستان کے دیگر تین صوبے اور کشمیر میں مادری زبانیں پہلی کلاس سے شروع ہو جاتی ہیں جبکہ پنجاب کے علاوہ باقی صوبائی اسمبلیوں میں مقامی لباس زیب تن کرنا اور مقامی مادری زبان میں اسمبلی کی کارروائی چلانا فیشن اور رواج بن چکا ہے۔ جبکہ پنجاب میں پنجابی صرف گھر کے ملازموں اور نوکروں کی زبان بن چکی ہے۔حتی کہ پنجابی کے علمبرداروں کے گھروں میں بھی پنجابی بولنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔
قارئین! یہ بات کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ پنجابی بچہ پیدا ہوتے ہی کنفیوژ ہوتا ہے اور مرنے تک کنفیوژ رہتا ہے۔ جب ایک بچہ گھر سے پہلی دفعہ سکول جاتا ہے اسے ماسٹر م مینڈک اور ب بھینس پڑھاتاہے تو گھر میں اسے اس کے والدین اسے ”ڈڈو اور مج“بتاتے ہیں تو بچہ کنفیوژ ہو جاتا ہے کہ یا تو والدین غلط ہیں یا پھر ماسٹر کا دماغ چل گیا ہے اور اسی طرح زندگی بھر ہر جگہ اسے کنفیوژن ملتی ہے وہ پہلے پنجابی سے اردو میں ترجمہ کرتا ہے اور پھر اردو سے انگریزی میں ترجمہ کرکے اپنا مضمون یا آرٹیکل تیار کرتا ہے۔ اس طرح وہ اس میں جدت لانے میں ناکام رہتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح آپکے خواب آپکی مادری زبان میں ہوتے ہیں اسی طرح آپکی جاب والی جگہ یا آپکا کاروبار بھی مادری زبان میں چلایا جانا چاہیے۔اور ستم ظریفی یہ کہ دنیا بھر کے ہیروز کو مثلاً طارق بن زیاد روڈ ،خالد بن ولید روڈ، صلاح الدین ایوبی روڈ ،غزنوی میزائل اور غوری میزائل تو بنا دیئے جاتے ہیں مگر بلھے شاہؒ، بابا فریدؒ ، شاہ حسینؒ،دُلا بھٹی ،نظام لوہار،احمد کھرل، ملنگی اور بھگت سنگھ جیسے ہمارے ہیروز کو بھلا دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے نصاب میں ان کو ڈاکو بنا کر انگریز کی روش کو ابھی تک چھوڑا نہیں گیا۔ انشاءاللہ ہماری جدوجہد کا مقصد ایک یہ بھی ہے کہ پاکستان میں پڑھائی جانے والی تواریخ کو کسوٹی پر پرکھ کر پھر سے لکھا جائے اور چھپائے جانیوالے سچ کو ہماری نسلوں کے سامنے لایا جائے۔اور اسی لیے ایک پنجابی سیاسی جماعت ضرورت کا ادراک کیا گیا ہے اور اس کی رجسٹریشن کیلئے درخواست جمع کروائی جا رہی ہے۔
قارئین! اس مرتبہ لاہور کا چکر لگانے کی ایک خاص وجہ تھی اور وہ تھی پنجاب فیسٹیول میں شرکت ، شرکت کی دعوت چھوٹے بھائی میاں آصف علی اور احمد رضا نے دی لیکن پنجاب کی ثقافت کا نام سنتے ہی دل اس میلے میں شرکت کیلئے مچلنے لگا تھا ۔فیسٹیول کا آغاز تو جمعہ 6 اپریل کو ہی ہو گیا تھا جب بابا گروپ اور استاد حامد علی خان کے ساتھ جھومر گروپ نے میلے کو چار چاند لگا دیے۔ دوسرے دن پنجاب کے بنیادی مسائل پر لٹریری سیشن تھا، جس میں پنجاب کے مسائل پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ سیشن کی صدارت راقم نے بطور چیئرمین پنجاب سیاسی پارٹی کے کی ، استاد حسین بخش گلو جیسے گلوکاروں نے رونق بڑھائی تو سنگت گروپ کے ناٹک ہیر رانجھا میں عظمی نامی فنکارہ کی پرفارمنس نے تو واقعی ہیر یاد کروا دی۔ سینئر فنکار راشد محمود اور معروف شاعر بابا نجمی کے علاوہ مشرقی پنجاب سے آئی جسا سنگا کے ساتھ بھی اچھا وقت گزرا ، آخری دن فضل جٹ اور عارف لوہار نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا تو سابق گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور بھی خصوصی طور پر میلے میں آئے جنہیں اعزازی شیلڈ دینے کا شرف بھی بطور چیئرمین پنجاب سیاسی پارٹی راقم کو ہی حاصل ہوا ۔ اب بات ہو جائے پنجاب کے اس سب سے بڑے کلچرل فیسٹیول کی پنجاب فیسٹیول ایک کلچرل میلہ ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے سجایا جارہا ہے جس میں مشاعرے ، فوک موسیقی ، ناٹک ، ناچ گانے کے ساتھ مختلف مسائل پر لٹریری سیشنز بھی ہوتے ہیں۔ پنجابی پرچار تنظیم پنجابی زبان اور کلچر کی ترویج و ترقی کیلئے قائم کی گئی تھی جسکے صدر احمد رضا اور جنرل سیکرٹری طارق جتالہ ہیں، جنہیں رانا منظور ، شہزاد عمار ، میاں آصف علی ، میاں سرفراز ، عامر یوسف ، محمد آصف ، عاصم اور فیصل جیسی نوجوان ٹیم کا تعاون حاصل ہے اور یہ تنظیم مختلف محاذوں پر لڑ رہی ہے اور ہر جگہ پنجابی زبان اور کلچر کے فروغ کے علاوہ حفاظت بھی کر رہی ہے۔