ہائر ایجوکیشن کمیشن.... تصویرکا دوسرا رخ
گزشتہ سات عشروں کی بے راہ روی نے ہمارے قومی مزاج کو اس حد تک متاثر کیا ہے کہ ہم ہر وقت اور ہر چیز میں کیڑے نکالنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ عام آدمی تو ایک طرف‘ نام نہاد دانشور کہلانے کے شوقین بھی قنوطی انداز فکر کے مبلغ بن گئے ہیں۔ جذباتی قوم کو ہر وقت عینیت پسندی میں الجھا کر ہر وقت ہر شخص‘ ہر لیڈر اور ہر ادارے کو ہدف تنقید بنانے کو دانشمندی قرار دیتے ہیں۔ اس کا اندازہ گزشتہ روز چند اعلیٰ ڈگریوں کے حامل دوستوں سے گفتگو میں ہوا۔ تعلیم اور اعلیٰ تعلیم سے ہوتی ہوئی بات ہائر ایجوکیشن کمشن اور اسکی قیادت کے گرد گھومنے لگی۔ انہوں نے ہماری تعلیمی پسماندگی کا خوب رونا رو دیا اور مسلسل تصویر کے ایک رخ کو نمایاں کیا جیسے کہ ہائر ایجوکیشن کمشن پاکستان کی تمام پسماندگی کا کلی طورپر ذمہ دار ہے۔ گفتگو مکالمے سے شروع ہوکر جب مناظرے میں پھنس کر رہ گئی تو ہمارے زیرک کم گو مگر علم دوست استاد ڈاکٹر غلام علی نے بات سنبھالتے ہوئے کہا کہ کسی منطقی نتیجے پر پہنچنے کیلئے ہمیں تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھنا ہوگا۔
کئی عشروں سے پاکستان بحرانوں کی ریاست ہے ۔ مسلسل بحرانوں کی وجہ سے ہمارا سماج اپنے مسائل پر قابو پانے میں اور ریاست اپنے وسائل کو فلاح عامہ کے لیے منظم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ حالات اتنے دگرگوں ہیں کہ ہر کوئی ارتعاش محسوس کرنے لگا ہے ۔ اس گھمبیر صورتحال سے بچنے کے لیے کئی عارضی طریقے ہیں لیکن طویل المدت اور پائیدار طریقہ یہی ہے کہ ہم تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔ ہماری سلامتی اور خوشحالی کی تمام راہیں تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے ذریعے ہی کھلتی ہیں۔ مایوس ترین حالات میں بھی امید افزاءبات ےہ ہے کہ ملک کی اکثریت اس وطن کو خوشحال اور ترقی یافتہ دیکھنا چاہتی ہے ۔ پاکستان کا تعلیمی منظر نامہ شاہد ہے کہ ہائر ایجو کیشن کمیشن پاکستان نے ڈاکٹر عطا الرحمن کی سربراہی میں ریاست اور قوم کو اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے حیاتِ نو عطا کی ۔انکے بعد چند سال اس تعلیمی کمیشن پر بھاری گذرے اور اعلیٰ تعلیم کی گاڑی ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے والے محاورے کی عکاس بن کر رہ گئی۔ ڈاکٹر عطاءالرحمن سے جاوید لغاری تک چیئرمین کی تقرری ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے ہوتی رہی۔ کھینچا تانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیوروکریسی نے چپکے سے اس آزاد کمیشن پر پنجے گاڑے اور سابق سیکرٹری چوہدری قمر زمان اس عہدے پر براجمان ہو گئے ۔ یہ امر علم دوستوں کیلئے پسندیدہ نہ تھا اس لیے اس پر رد عمل بھی سامنے آیا ، موجودہ حکومت نے ایچ ای سی کی آزادی کے تحفظ کیلئے تو کچھ نہ کیا تاہم پہلی دفعہ چیئرمین کی تقرری کیلئے سرچ کمیٹی قائم کی۔ میرٹ کے قانونی جواز کے ساتھ پہلی دفعہ ڈاکٹر مختار احمد کا چنا¶ سرچ کمیٹی کے ذریعے ہوا، یہ ایک مستحسن عمل تھا جسے سب کو سراہنا چاہیے تھا مگرجو منتخب نہ ہو سکے آرام سے کیوں بیٹھتے۔ انہوں نے دیدہ و نادیدہ طریقوں سے ڈاکٹر مختار احمد کی ذات اور عہدے کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنائے اور بنوائے رکھا، تاکہ یہ درویش صفت محب وطن کھلے انداز میں قومی خدمت کا فریضہ سر انجام نہ دے سکے۔ عددی توسیع، اداروں کی ساخت میں تنوع اور مالی مسائل جیسے چیلنجز کے ساتھ عہدہ سنبھالنے کے بعد جذبے ، حوصلے، لگن سے تعلیم وتدریس اور تعمیر و تطہیر کا کام شروع کیا جس کے نتیجے میں ادارہ کا نام اور مقام بڑھنے لگا۔ اعلیٰ تعلیم حکومت کی اولین ترجیحات میں نہ ہونے کے باوجود ڈاکٹر مختار احمد نے اسکے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ حاصل کیا اور بیالیس ارب سے بجٹ ستانوے ارب تک پہنچا دیا، انفراسٹرکچر کی بہتری کیلئے ہر ممکن کوشش کی ۔ اساتذہ کی تربیت ، ممتاز عالمی اداروں کے ساتھ اشتراک اور وظائف کی میرٹ پر تقسیم کے کلچر نے اگر اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں انقلاب پیدا نہیں کیا تو کم از کم اسکی سمت کا تعین ضرور کر دیا ہے ۔ یونیورسٹی کی سطح پر زیر تعلیم طلبہ کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہوا۔ بلوچستان میں ایچ ای سی قومی تقاضوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ نظر آئی۔ انڈسٹری اکڈیمیا لنکجز اور انٹر پرینیئرشپ جیسے تصورات کو متعارف کروایا۔ وی سی فورم کو گفتند، نشستند کی بجائے قومی اور علمی موضوعات اور مکالمے کا متحرک پلیٹ فارم بنایا۔ ڈاکٹرمختار احمد کی حوصلہ مند اور پاکیزگی فکر و عمل کی حامل قیادت نے اعلیٰ تعلیم کے میدان میں اصلاحات کے ذریعے احتساب کا عمل شروع کیا تو تعلیم کے نام پر مافیا بن کر لوٹ کھسوٹ کرنے والے اداروں میں ہلچل پیدا ہو گئی ۔ COMSAT جیسے مضبوط ادارے کی قیادت کے حوالے سے سوالیہ نشان لگے تو ڈاکٹر مختار احمد نے ذات سے بالا ہو کر موقف اختیار کیا ۔ قائداعظم یونیورسٹی کے معاملات ہوں یا اکڈیمک سٹاف ایسوسی ایشنز کا زور سب کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ ایسا شخص جس نے اعلیٰ تعلیم کی بہتری کے لیے غور و فکر کے بعد جو بھی ادارہ جاتی موقف اختیار کیا نفع و نقصان کی پرواہ کیے بغیر اس پر ڈٹ گیا ۔ کئی سرکاری اور پرائیوٹ یونیورسٹیوں کی ایم فل ، پی ایچ ڈی کی دکانداری معیار پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے بند ہوئی تو ڈاکٹر مختار احمد کی کردار کشی کی مہم اطراف سے سپانسر ہونے لگی ۔تاہم دھن کے پکے شخص نے سمجھوتہ یا سودا نہیں کیا ۔ چیئرمین صاحب نے ثابت قدمی سے ثابت کیا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن، محض ایک کمیشن یا ادارہ نہیں ہے بلکہ یہ قومی آرزووں کو عملی تعبیر دینے والے نقوش مرتب کرنے کا مرکزِ فضیلت ہے ۔ یہ ادارہ نہیں ادارہ ساز ادارہ ہے ۔ اس تناظر میں ضروری ہے کہ ارباب اختیار HEC کی قیادت کا فیصلہ کرتے وقت یہ ضرور ملحوظ رکھیں کہ اس عمل کا تسلسل ہی ادارے اور قوم دونوں کیلئے فائدہ مند ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ڈاکٹر مختار احمد نے کوئی انقلاب برپا کر دیا ہے ، بلا شبہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ کئی گروہوں اور جامعات کی قیادتوں کا مفاد اسی میں ہے۔ اعلیٰ تعلیم بغیر کسی تربیت کے دینے اور ڈگریوں کی تقسیم و فروخت کے کاروبار میں رکاوٹ بننے والے شخص کو جس طرح بھی ممکن ہو HEC سے فارغ کروا دیا جائے تاکہ مالی مفادات کا ”سٹیٹس کو“ برقرار رکھا جاسکے۔ ایسا شخص جو ایچ ای سی کو قومی تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کیلئے کوشاں ہو‘ جو اطلاقی تحقیق کا پیامبر‘ علمی ثقافت اور نالج اکانومی کا علمبردار‘ سماجی فلاح اور مفادعامہ کی حامل اعلیٰ تعلیم کا وژن‘ اور یونیورسٹیوں کو درس گاہوں سے دانش گاہوں میں بدل دینے کا عزم اور لائحہ عمل رکھتا ہو‘ منتظم مزاج ہو‘ منتقسم مزاج نہ ہو۔
اس کو اپنے خواب کو تعبیر دینے کا تسلسل فراہم کرنا اور اس کو بلاجواز تنقید کا نشانہ بنائے رکھنا‘ وہی کام ہیں جو ہم ستر سالوں سے کئے جا رہے ہیں۔ کیا ہمیں اپنی غلطیاں دہراتے رہنا ہے یا وقت کے تقاضوں کے مطابق ہوش کے ناخن بھی لینے ہیں۔ الزامات کی ثقافت کے اس دور میں اگر کسی فرد کو اس کارکردگی کے خوف سے ہر وقت‘ ہر طرح سے آڑے ہاتھوں لینا اور مرضی کا رخ بیان کرنا واجب ہے تو پھر پورا سچ دیکھنے کیلئے تصویر کا دوسرا رخ دیکھنا بھی ہمارا قومی فریضہ ہے۔