لاہورمیں ایک شام ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام
ہم ایٹم بم 1984ءمیں بنا چکے تھے اور کسی بھی وقت ایٹمی دھماکہ کرنے کی پوزیشن میں تھے مگر اس وقت کے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان نے ایسا کرنے سے منع کیا اور وجہ یہ بتائی کہ ہماری امداد رک جائیگی۔ ان خیالات کا اظہار عالمی شہرت یافتہ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اگلے روزجم خانہ کلب لاہور کی لائبریری کمیٹی کے زیر اہتمام ”ایک شام ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام“ سے منعقدہ ایک تقریب میں کیا۔ انہوںنے بتایا کہ ترقی یافتہ ممالک نے ایٹم بم کی تیاری پر کم و بیش 20 سال صرف کیے جبکہ ہم نے صرف چھ سات سال کے عرصہ میں یہ کام کر دیا۔ انہوںنے کہا کہ سقوط ڈھاکہ کے وقت میں ہالینڈ میں تھا میں نے جب ٹیلی ویژن پر ہتھیار ڈالنے کی کارروائی دیکھی تو رات بھر نہ سو سکا اور ہر وقت میں ایک عجیب سی اضطرابی کیفیت مجھ پر طاری رہتی اور میرے ذہن میں ہر وقت یہ خیال رہتا تھا کہ اب پاکستان کا دس سال تک قائم رہنا مشکل ہے کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت دیگر اسلام دشمن طاقتوں کے ساتھ مل کر ہمیں ختم کرنے کی سازشیں کرے گا اور میں اس حوالے سے ہر وقت سوچتا رہتا تھا کہ پاکستان کی سالمیت اور بقاءکے لیے کیا کرنا چاہیے اور پھر میں نے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا اور ایسا کرنا وقت کا اہم تقاضا بھی تھا۔ میں نے بھٹو صاحب کو خط لکھا کہ ہم ایٹم بم بنا سکتے ہیں مگر مسئلہ یہ درپیش تھا کہ اس خط کو بھٹو صاحب تک پہنچایا کیسے جائے اور پھر میں نے ہالینڈ جہاں میں مقیم تھا وہاں کے پاکستانی سفیر سے رابطہ کیا اور انہیں اپنے خط کی اہمیت سے آگاہ کیا اور انہوںنے ڈپلومیٹک بیگ میں بڑے محفوظ طریقے سے یہ خط پاکستان پہنچا دیا جہاں سے وہ بھٹو صاحب تک پہنچا۔ دسمبر 1975ءمیں جب میں پاکستان آیا تو ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات ہوئی۔ انہوںنے میرا پروگرام پوچھا کہ پاکستان کب تک رہنا ہے تو میں نے بتایا کہ ہم 15جنوری کو واپس جارہے ہیں۔ انہوںنے مجھے واپس ہالینڈ جانے سے روکا تو میں نے انہیں بتایا کہ میری اہلیہ ہالینڈ کی ہیں اور میرا سب کچھ ہالینڈ میں ہے، ہالینڈ میں اچھی ملازمت ہے تو بھٹوصاحب نے زور دیا کہ آپ نہ جائیں تو میں نے ان سے کہا کہ اچھا میں اپنی اہلیہ سے رابطہ کرکے کل آپ کو بتا دوں گا۔ میں نے جب بیگم سے اس سلسلے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ ہمارا سب کچھ تو وہاں ہے اور پھر آپ کی پرموشن ہو رہی ہے اور آپ پروفیسر بننے والے ہیں۔ ہم پاکستان میں کیسے رہ سکتے ہیں، ہم واپس جائینگے، میں ان کا جواب سن کرخاموش ہوگیا۔ انہوںنے میری طرف دیکھا اور کہا کہ اگر ہم پاکستان میں رک جائیں تو کیا تم اپنے ملک کیلئے کوئی کام کرسکتے ہو میں نے اثبات میں جواب دیا اور انہیں بتایا کہ جو کچھ میں پاکستان کے لیے کر سکتا ہوں کوئی اور نہیں کر سکتا تو انہوں نے کہا تو پھر ٹھیک ہے ہم یہاں رک جاتے ہیں اگر میری بیگم رکنے کا فیصلہ نہ کرتیں تو آج پاکستان ایٹمی قوت نہ ہوتا۔ اگلے روز جب وزیر اعظم بھٹو کو میں نے واپس نہ جانے کے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا تو وہ خوش ہوئے اورمجھے کہا کہ خان صاحب آپ اٹامک انرجی کمیشن جائیں اور دیکھیں کہ وہاں اب تک کتنا کام ہوا ہے جب میں نے دیکھا تو وہاں کچھ بھی نہیں ہوا تھا تو میں نے من و عن یہ بات بھٹو صاحب کو بتا دی اور ساتھ ہی یہ تجویز بھی دی کہ اگر آپ ایٹم بم بنانا چاہتے ہیں تو پھر اس کی تیاری کیلئے اٹامک انرجی کمیشن سے الگ ادارہ قائم کرنا ضروری ہوگا کیونکہ میں نے دیکھا تھا کہ کمیشن کے لوگوں کی تعلیم معمولی تھی جسکے باعث ان میں ایٹم بم بنانے کی صلاحیت بالکل مفقود تھی اور یوں کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری کا قیام وجود میں آیا۔ کہوٹہ کی کہانی بیان کرتے ہوئے عبدالقدیر خان نے مزید بتایا کہ ایک ایسا وقت بھی آیا اور مجھے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا جن کا نام میں ظاہر کرنا نہیں چاہتا کہ مبادا وہ زیر عتاب آجائیں۔ جب بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا تو ہمیں ایٹمی دھماکہ نہیں کرنے دیا جارہا تھا اور سخت دباﺅ تھا اس وقت میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی صدر کلنٹن سے بات چیت چل رہی تھی کہ اگر پاکستان کو امریکہ کوئی شاندار پیکیج دیدے تو ہم دھماکے سے اجنتاب کرینگے گوہر ایوب اور اس وقت کے سیکرٹری خارجہ شمشاد خان نے بڑی مدد کی اور ایسا نہ ہوسکا۔ اس حوالے سے میں نے بھی وزیر اعظم کو سخت خط لکھا کیونکہ اگر وہ وقت ٹل جاتا تو پھر یہ دھماکہ کبھی بھی نہیں ہوسکتا تھا جیسا کہ ایران میں ہوا ہے۔ انہوںنے بتایاکہ میری ٹیم کے تین ہزار سے زیادہ آدمیوں میں اکثریت آرمی آفیسران کی تھی ہم سب نے دن رات ایک کرکے کام کیا اور اللہ تعالی نے ہمیں سرخرو کیا۔ انہوںنے بتایا کہ ہم مختلف ممالک سے مختلف ذریعوں سے سامان منگواتے تھے جو پہلے کویت وہاں سے دبئی اور پھر پاکستان آتا تھا کبھی ہم سنگا پور اور کبھی کولمبوکے راستے بھی سامان کے حصول کیلئے استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے استہزیہ انداز میں حاضرین کو بتایا کہ ہم نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کیلئے سمگلنگ کے وہ طریقے اختیار کیے جو بڑے بڑے سمگلر نہ کر سکے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بتایا کہ بھٹو صاحب کے بعد جب ضیاءالحق صدر تھے تو وہ کہوٹہ آئے اور جب انہوںنے ہماری ریسرچ لیبارٹری دیکھی تو دنگ رہ گئے اور یہ کہہ کر ہماری کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا کہ ایسی لیبارٹری تو یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی میں نے نہیں دیکھی اور ساتھ ہی انہوںنے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری کا نام تبدیل کرکے اسے میرے نام سے منسوب کر دیا اور اس کا نیا نام خان ریسرچ لیبارٹری مقرر کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کو ناقابل تسخیر دفاع دینے کے بعد میں نے اپنی ساری توجہ رفاحی اور فلاحی کاموں کی طرف مبذول کردی ہے۔ صحت کے بارے میں رفاعی امور میں میرا سب سے بڑا کام اور منصوبہ لاہور میں نادار اور غریب افراد کیلئے ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال ٹرسٹ ہے جو 2015سے بڑی کامیابی سے کام کر رہا ہے جہاں سے اب تک ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ مستحق مریض مفت علاج و معالجہ کی سہولتوں سے استفادہ کر چکے ہیں اور کررہے ہیں۔ اب اس ہسپتال کی 300 بستروں پر مشتمل نو منزلہ نئی عمارت زیر تعمیر ہے جس پر تیزی سے کام ہورہا ہے جس کیلئے ہمیں 100کروڑ روپے کی ضرورت ہے۔ قبل ازیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ ایٹمی پراجیکٹ پر کام کرنیوالے واپڈاکے سابق چیئر مین جنرل (ر) زاہد علی اکبر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی پروگرام کیلئے کہوٹہ کی جگہ تلاش کرنے میں میں نے ڈاکٹر خان صاحب کا بھرپور ساتھ دیا۔ ڈاکٹر پروفیسر عاطف کاظمی کنوینر لابئریری کمیٹی لاہور جم خانہ کلب نے نظامت کے فرائض بڑی خوبی سے انجام دیے اور ڈاکٹر اے کیو خان ہسپتال کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی۔ لاہور جم خانہ کلب کے چیئرمین کامران لاشاری نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی عظیم خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں ایک توصیفی شیلڈ پیش کی۔