میاں نواز شریف کی حکمتِ عملی!
ایم۔ اے کرنے کے بعد میں نے چند برس حبیب بینک میں ملازمت کی۔ ضلع کچہری راولپنڈی کی جس برانچ میں میرا تقرر ہوا، اسکے مینجر حسن زیدی صاحب تھے۔ نہایت زیرک اور چٹک انسان تھے۔ کلرکی سے افسری تک کا طویل سفر انہوں نے بڑی محنت، بُردباری اور تپسیا کے ساتھ طے کیا تھا۔ گو ان کی تعلیم میٹرک اور انٹر کی سرحدوں میں بھٹک رہی تھی مگر بڑے اعتماد کے ساتھ انگریزی بولتے۔ صرف اتنی تسلی کر لیتے کہ ملاقاتی بھی ان جیسا ”تعلیم یافتہ“ ہو۔ البتہ خط و کتابت سے اجتناب برتتے۔ اس کام کے لئے انہوں نے مجھے مامور کر رکھا تھا۔ جب بھی ہیڈ کوارٹر سے انہیں جھاڑ پڑتی اور جواب طلبی ہوتی تو مجھے ڈرافٹنگ کا حکم دیتے۔ جب میں پوچھتا کہ جواباً کیا لکھنا ہے تو بڑی خشمگیں نظروں سے دیکھتے ہوئے کہتے ”اب جواب بھی مجھ سے ہی پوچھو گے! بس حکمتِ عملی سے کام لو اور گول مول سا جواب دے دو!“
جواب تو میں لکھ دیتا لیکن ایک اڑچن سی طویل عرصہ تک رہی کہ یہ حکمتِ عملی کیا چیز ہوتی ہے! لُغت دیکھی تو بھی پوری طرح تسلی نہ ہوئی۔ لغت میں اِسکے معانی تدبیر، ہوشیاری، دُور اندیشی، پالیسی، ملکی مصلحت، چھل بل، اگر ان تمام معانی کو یکجا کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ موقع کی مناسبت سے سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانا تھوڑے تامّل اور تردّد کے بعد شیخوبابا (شیخ رشید) کے الفاظ میں اسے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی کہا جا سکتا ہے۔ گو یہ الفاظ شیخ صاحب کی طرح پُرانے اور دقیانوسی ہو گئے ہیں لیکن ہیں تو سہی! ملکی تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ دو دھاری تلوار کی طرح ہے۔ جہاں مخالف فریق پر اس سے وار کیا جا سکتا ہے، وہاں آسٹریلین بوم رینگ کی طرح یہ چلانے والے کو بھی زخمی کر سکتی ہے۔ موقع کی مناسبت سے یہ برف کی طرح سرد اور آگ کی طرح گرم ہونی چاہئے۔ زیادہ دور کیا جانا ہے۔ اگر بھٹو مرحوم کوہ مری میں ایام اسیری میں ضیاءالحق کے ساتھ ملاقات میں حکمتِ عملی سے کام لیتے تو انہیں ڈسٹرکٹ جیل پنڈی میں وہ روزِ بد نہ دیکھنا پڑتا۔ بجائے غم و غصے کے صرف اتنا کہہ دیتے ”جنرل صاحب آپ ایسے تو نہ تھے۔ یقیناً آپ نے باامر مجبوری یہ انتہائی قدم اُٹھایا ہو گا۔“ بعد میں موقع ملنے پر اسکی ایسی تیسی کر دیتے۔ انہی دنوں کھر نے حکمتِ عملی سے کام لیا۔ ضیاءکی شان میں چند قصیدے پڑھے اور لندن سے راز لانے کا بہانہ بنا کے کھسک گئے۔ اسی طرح جب امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو صاحب کو بتایا۔ سو میل کی رفتار سے آتی ہوئی ٹرین کے سامنے آنا دانشمندی نہیں ہے“ تو وہ جذباتی ہو گئے۔ حکمتِ عملی کو پسِ پُشت ڈالا اور بجائے گاڑی کی زنجیر کھینچنے کے اسکے آگے پٹڑی پر لیٹ گئے۔ میاں نواز شریف، عمران اور زرداری کی حکمتِ عملی کو سمجھنے کیلئے شاید یہ تاریخی حوالہ ضروری تھا۔ میاں صاحب پر یہ دور ابتلا ہے۔ گو ایک بار پہلے بھی جانسوز مرحلے سے گزر چکے ہیں، پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے۔ انکے شدید مخالفین کے علاوہ کوئی بھی اس صورتِ حال پر خوش نہیں ہو سکتا۔ تین بار وزیراعظم ، دو بار وزیراعلیٰ رہنے والے شخص پر نازک گھڑی اَن پہنچی ہے۔ وزارتِ عظمیٰ گئی، پارٹی صدارت گئی، اور اب فوجداری مقدمات اپنے آخری مراحل میں ہیں آخر یہ سب کیا ہے؟ خود کردہ را علاجے نیست، مکافاتِ عمل، تاریخ کا جبر یا بےگناہی کی سزا، سارا ملک دو حصوں میں بٹ چُکا ہے۔ ان کے مدح خواں انہیں عصرِ حاضر کا سقراط کہتے ہیں۔ نیلسن منڈیلا، امام خمینی جو جبروتی قوتوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ گیا ہے جس نے اپنی ساری کشتیاں جلا ڈالی ہیں، لنگرکو توڑ دیا ہے۔ واپسی کے سارے راستے خود ہی بند کر دئیے ہیں، جو حبیب جالب کی زبان میں ببانگ دہل کہہ رہا ہے۔ میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے۔ میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے! مخالفین کا استدلال ہے کہ یہ اپنی ”تباہی“ کے خود مصنف ہیں۔ اقتدار ایک امانت ہے جس میں یہ خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اربوں روپے کی جائیداد نہ صرف خود بنائی ہے بلکہ قومی دولت کو ریوڑیوں کی طرح اپنے مداحوں، ثنا خوانوں، مالشیوں، دربانوں اور دربار کے گونگے شعرا میں بانٹا ہے۔ ملکی معیشت برباد کر دی ہے۔ اداروں کا تقدس ختم ہو گیا ہے۔ امیر المومنین تو اپنی حد میں رہتے تھے، یہ ہر حد پھلانگ گئے ہیں۔
میاں صاحب کے سامنے دو راستے تھے۔ ایک تو اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے قوم سے معافی مانگ کر بقیہ زندگی آرام سے گوشہ نشینی کی حالت میں گزارتے دوسرا یہ کہ مقدمات، نامساعد حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے۔ اپنی بےگناہی ثابت کرتے اور اس طرح نہ صرف قوم کے سامنے سُرخرو ہوتے بلکہ تاریخ میں بھی امر ہو جاتے....میاں صاحب نے بوجوہ دوسرا راستہ اختیار کیا ہے اس سلسلے میں جو حکمتِ عملی اختیار کی ہے ، اس سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن بظاہر ان کا بیانیہ بِک رہا ہے۔ اسے کسی حد تک عوام میں پذیرائی بھی حاصل ہو رہی ہے۔ وہ بیانیہ ہے کیا۔ ؟ انہیں قوم کی بے لوث خدمت کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ منصف بُغض اور عناد سے بھرے پڑے ہیں۔عدالتیں ان سے انتقام لینا چاہتی ہیں ایک منظم سازش ہو رہی ہے۔ انہوں نے ہمہ مقتدر قوتوں سے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔ کہتے ہیں حقیقت وہ نہیں ہوتی جو دراصل ہوتی ہے بلکہ وہ ہے جس کو عوام میں پذیرائی حاصل ہو جائے۔ وجہ، بے وجہ؟ اگران الزامات کو عقل اور دلیل کی کسوٹی پر پر پرکھا جائے تو ان میں وزن نظر نہیں آتا۔ ہرکسی کو علم ہے کہ جج صاحبان کی اکثریت میاں صاحب کی تعینات کردہ ہے۔ یہ ایک طویل عرصہ تک ایوانِ اقتدار میں رہے ہیں ہر کسی کو ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ گویا بحث کی خاطر ہی سہی،وہ ان کے ممنون اور زیربارہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر انتقام کی بُوز کہاں سے آنے لگی ہے۔ غیظ و غضب اور انتقام کا مظاہرہ اس وقت کیا جاتا ہے جب آپ نے کسی کو نقصان پہنچایا ہو۔ معاشی طور پر زک پہنچائی ہو۔ جائز منفعت کے راستے روکے ہوں۔ کیا کوئی شخص بالخصوص منصف ایسا احسان فراموش ہو سکتا ہے کہ بلاوجہ آنکھیں ماتھے پر رکھ لے۔ قانون کے تقاضے پورے نہ کرے اوراپنے ”محسن“ کی سلامتی اور وقار کے درپے ہو جائے۔ پھر ایک شخص نہیں بلکہ پورا گروہ ہو۔ بادی النظر میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔اس قسم کے بیانیے کو (AFTER THOUGHT) کہا جاتا ہے۔
جن طاقتوں پر آپ سازش کا الزام لگاتے ہیں وہ اس قدر طاقتور ہیں کہ وہ براہِ راست حکم دے سکتی ہیں۔ کلائی مروڑ سکتی ہیں، جنرل کاکڑ کی مثال سب کے سامنے ہے اس نے آپ سے استعفیٰ مانگا، آپ نے بلا چوں و چرا دستخط کردیئے۔ جنرل مشرف نے آپکی چھٹی کرا دی۔ آپ بے بسی کی تصویر بن گئے۔ بعد ازاں معافی یا معاہدہ کرکے باہر چلے گئے۔ آخر ایک غاصب کے ساتھ معاہدہ کرنے کی نوبت کیوں آئی؟
اب رہا سوال یہ کہ اس کُھلے ٹکراﺅ سے میاں صاحب خود کشی کا راستہ اختیار کر رہے ہیں یا There is a method in this madness)ہم سمجھتے ہیں کہ انہوں نے بڑا سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔ عدلیہ پر مسلسل تنقید کرنا مقصد یہ ہے کہ عوام میں تاثر پھیلایا جائے کہ وہ بے گناہ ہیں توہین عدالت کی صورت میں بھی چند ماہ کی قید ایک قسم کی سیاسی سرمایہ کاری ہو گی۔(Martyers Appeal)مرد حر زنداں میں ہے بے نیزہ و شمشیر آج الیکشن میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کا تیر ہدف نسخہ، اس صورت میں آئینی ترمیم، پھر” موجاں ای موجاں“ تجربات سے انہوں نے سیکھا ہے کہ حکومت مل جانے سے سادہ اکثریت کو بھی دو تہائی اکثریت میں بدلا جا سکتا ہے۔ جیسے ق لیگ کا فارورڈ بلاک بنا کر چھوٹے صاحب نے پانچ سال تک بغیر اکثریت کے پنجاب حکومت چلائی تھی۔ اس سلسلے میں تمام نہالوں، دانیالوں اور طلالوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ کھل کر عدلیہ پر تنقید کریں۔ وزیراعظم کو بھی سرزنش کر کے اسمبلی میں بیان دینے پر مجبور کیا گیا جب چار سو طنز و تنقید کے نشتر برس رہے ہوں تو سزا دینا مشکل ہو جاتا ہے۔To distinguish Tweedledum from the Tweedlede) اس حکمت عملی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ صرف ایک شخص کو چپ کا روزہ رکھنے کو کہا گیا ہے بلکہ جب کبھی لب کشائی کرتے ہیں تو اداروں کی تعریف کرتے نہیں سھکتے۔ ایسا اس لئے ہے کہ وہ متبادل وزیراعظم ہیں۔ عمران خان کی ناقص حکمت عملی اور زرداری کی نامقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ وزارت عظمیٰ کا ہُما چھوٹے صاحب کے سر پر بیٹھ جائے۔ عمران کی جرا¿ت اور ہمت اپنی جگہ، سادہ لوح خان کو ابھی تک بنیادی بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔ زرداری سے کتنی دشمنی یا نفرت کیوں نہ ہو، سب کھڑکیاں، دروازے اور روشن دان بند نہیں کرنے چاہئیں۔ یہی غلطی زرداری نے ق لیگ کو قاتل لیگ کہہ کر کی تھی۔ نتیجتاً پنجاب کی وزارت اعلیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ وگرنہ نہ ق لیگ کا فارورڈ بلاک بنتا نہ میاں شہبازشریف، وزیراعلیٰ پنجاب، یہ تو اپنی اصل سیٹ بھی گنوا بیٹھے تھے۔ حالات کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں۔ زرداری کو چودھری پرویز الٰہی کو نائب وزیراعظم بنانا پڑا۔ مشتے کہ بعد از جنگ یاد آئید برکلہ خود باید زد!
-7بالفرض سزا ہو جاتی ہے تو بھی ان کے جیل جانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں آخر صدر کو کس لئے بٹھا رکھا ہے! احسانوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے شخص کو کبھی نہ کبھی تو قرض چکانا ہی پڑتا ہے!