منیر نیازی: ایک عہد ساز شاعر
تنویر ظہور ۔۔۔
بلاشبہ منیر نیازی اپنے عہد کے سب سے بڑے شاعر تھے۔ اپنی طلسماتی اور جادوئی شخصیت کے ذریعے وہ پاکستان ہی میں نہیں، غیر ممالک میں بھی لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کرتے رہے۔ مشاعرہ ہو یا ادبی محفل، خاص نشست ہو یا عام، منیر نیازی کی موجودگی اسے منفرد بنا دیتی تھی۔ 9 اپریل 2013ءبروز (منگل) منیر نیازی کی 85ویں سالگرہ کا دن ہے۔ اس حوالے سے ان کی چند باتیں پیش ہیں جو میری زندگی کی یادیں بن چکی ہیں: بیگم ناہید منیر نیازی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا: ”جناب منیر نیازی کی رفاقت میں 22 سال حسین خواب کی طرح گزر گئے۔ ان کی یادوں کے سہارے اب اپنی زندگی کے دن گزار رہی ہوں۔ بلاشبہ وہ بہت بڑے باکمال شاعر اور سچے انسان تھے۔ جس محفل میں شرکت کرتے وہ روشن ہو جاتی۔ یہ بات میرے لئے تفاخر کا باعث ہے کہ میں منیر نیازی جیسے عظیم انسان کی بیوی ہوں۔ اللہ اور رسول کے بعد منیر نیازی میری زندگی کا محور تھے۔ میں نے ان کی ہر چیز محفوظ کی ہوئی ہے۔ ان کا کمرہ، بیڈ، زیراستعمال تمام چیزیں اور کتابیں اسی طرح محفوظ ہیں بلکہ اسی جگہ پڑی ہوئی ہیں جہاں نیازی صاحب خود رکھ کے گئے تھے۔“منیر نیازی سے مشاعروں میں اور ان کی رہائش گاہ پر میری درجنوں ملاقاتیں رہیں۔ اندھیرا، خوف چڑیلیں، بھوت، منیر نیازی کی شاعری کی پہچان بن گئے تھے۔ اس سلسلے میں منیر نیازی کا کہنا تھا، بچپن میں ایک خواب مجھے مسلسل آتا رہا کہ ایک خاتون ہے، کم آباد گھر جس میں ہم رہ رہے ہیں، آتی ہے۔ میں اسے دیکھ کر چلانا چاہتا ہوں، چلا نہیں سکتا، بھاگنا چاہتا ہوں بھاگ نہیں سکتا۔ یہ خواب میں مسلسل کافی عرصہ دیکھتا رہا۔قبرستان میں بھی اکثر جایا کرتا تھا۔ ان دنوں چڑیلوں کے تصورات بھی تھے، جیسے دوپہر کو اگر سفر کرنا ہے تو چڑیلیں مل جاتی ہیں۔ آدمی اور نسائی روپ میں ملتی ہیں۔ آسیب، بھوت اور چڑیلوں کے بارے میں بہت کہانیاں تھیں میں نے نیازی صاحب سے دریافت کیا، کبھی کسی چڑیل سے آمنا سامنا بھی ہوا؟ ان کا کہنا تھا۔ ہاں ایسے کچھ شائبے سے ہیں کہ ابھی یہاں کوئی چڑیل تھی اور غائب ہو گئی۔ راتوں کو جو گھوڑوں پر سفر کرتے، ان سے کہانیاں سنتے، پرانے مسانوں میں (شمشانوں کو ہم پنجابی میں مسان کہتے ہیں) ایک برہنہ عورت لاش پر بیٹھی نہا رہی تھی۔ چڑیل سمجھ کر اس کے پاس گیا وہ جھپٹی اور پھر غائب ہو گئی۔ اس طرح کی صورتحال کا سامنا دوپہر کو یا آدھی رات کو ہوتا تھا۔ یہ تھی قصبے کی ایک زندگی جو بڑے شہروں کا غالباً عکس ہوتی ہے۔ بڑے اور چھوٹے شہر ایک ہی طرح کی زندگی اور تصورِ حیات میں ایک دوسرے سے تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔انہوں نے کہا میری تنہائی پسندی، میری شاعری میں خوف، اندھیرا، چڑیلیں اور بھوت وغیرہ کے بارے میں اتنا کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے کہ اسے میری شاعری کی پہچان بنا دیا گیا ہے۔ ہجرت آپ کی اجتماعی نفسیات میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ صرف جسمانی ہجرت نہیں ذہنی ہجرت بھی ہوتی ہے۔ عدم تحفظ اور چھینا جھپٹی کا عمل آج بھی جاری ہے۔ آپ کے اندر خوف کی نفسیات ہجرت کے سبب آتی ہے۔ ہم ابھی تک اسی خوف کی نفسیات کا شکار ہیں۔ ہجرت کا خوف بہت نسلوں تک رہتا ہے۔ بہت دیر کے بعد جب لوگ پوری طرح بحال ہو جاتے ہیں تو پھر آہستہ آہستہ صورتحال سمجھ میں آتی ہے۔ ہم ابھی تک ہجرت کے خوف کے سحر میں ہیں۔لاہور کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے منیر نیازی نے کہا تھا کہ پورے پاکستان میں فیشن کے لحاظ سے لاہور آئیڈیل شہر رہا ہے۔ مال روڈ پر بے شمار ہوٹل تھے مگر ادیب شاعر اور سیاسی کارکن زیادہ تر کافی ہا¶س اور پاک ٹی ہا¶س میں بیٹھا کرتے۔ ان میں شیخ حسام الدین، شورش کاشمیری، چراغ حسن حسرت، غلام محمد لونڈ خور، دادا فیروزالدین منصور، عبداللہ بٹ، ریاض قادر، احمد سعید کرمانی، ملک سعید حسن، ناصر کاظمی اور بے شمار لوگ تھے۔ ہم زیادہ تر پاک ٹی ہا¶س میں بیٹھا کرتے۔ جب میں لاہور آیا تو سب سے پہلے ترقی پسند لکھاریوں سے ملاقات ہوئی۔ ان کے اجلاسوں میں شریک ہوتا جن سے ملاقاتیں رہیں ان میں احمد ندیم قاسمی، ساحر لدھیانوی، ہاجرہ مسرور، اے حمید، عبداللہ ملک، حمید اختر، سعادت حسن منٹو، عبدالحمید عدم، چودھری نذیر احمد و دیگر شامل تھے۔حلقہ¿ ارباب ذوق کے علاوہ ناصر کاظمی، انتظار حسین، حنیف رامے، احمد مشتاق، شیخ صلاح الدین، غالب احمد اور مظفر علی سید کا اپنا الگ گروپ ہوتا تھا کبھی یہ پاک ٹی ہا¶س اور کبھی امریکن لائبریری میں اکٹھے ہوتے، شروع شروع میں تو میرے ساتھ ان کا رویہ معاندانہ رہا ہلکی سی دشمنی بھی تھی مگر میں سب سے ملتا تھا، ادب میں دوستی دشمنی کیسی؟ جب لاہور سے پاکستان ٹائمز اور امروز نکلنے شروع ہوئے تو پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض اور امروز کے چراغ حسن حسرت تھے۔ ان سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ امروز میں چراغ حسن حسرت کے بعد ایک ایڈیٹر ایوب کرمانی ہوا کرتے تھے بہت ہی نفیس اور خلیق شخص تھا بعد میں اس نے کراچی میں خودکشی کر لی جس کا مجھے بہت دکھ ہوا، میں نے متعدد اخبارات میں ملازمتیں کیں مثلاً آزاد، زمیندار، سول اینڈ ملٹری گزٹ کے اُردو روپ ملت، نوائے وقت، امروز، چٹان وغیرہ۔ فلمی رسالوں میں مضامین لکھتا رہا۔ کالم نگاری بھی کی گویا قلم کی مزدوری کی۔ 1950ء کے لگ بھگ کی بات ہے، انجمن مدیران جرائد کی پہلی باڈی کی مجلس عاملہ میں جائنٹ سیکرٹری تھا جنرل سیکرٹری کے ایچ خورشید تھے۔ الطاف حسین (ڈان کے مدیر) صدر تھے۔ حمید نظامی اور میر خلیل الرحمن بھی اس کی عاملہ میں شامل تھے۔ دوسرے برس بھی اس کی عاملہ میں تھا۔ تب فیض صاحب اس کے صدر تھے۔