اس میں شک نہیں کہ سیاستدان بڑے ذہین لوگ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ دریاﺅں کے بغیر پل بنا سکتے ہیں۔ریت کے محل کھڑے کر سکتے ہیں۔ صحراﺅں میں پھول اگا سکتے ہیں۔ بغیر لڑے جنگ جیت سکتے ہیں اور بغیر ہاتھ ہلائے بڑے بڑے مافوق الفطرت کارنامے سر انجام دے سکتے ہیں ۔مزیدحیران کن بات یہ ہے کہ عوام کو نہ صرف اپنے کارناموں کا یقین دلاسکتے ہیں۔ ان سے اپنے حق میں نعرے لگواسکتے ہیں۔ جلوس نکلواسکتے ہیں بلکہ اپنی ذات پر جانیں تک قربان کرا سکتے ہیں۔ یہ واقعی کمال کے لوگ ہوتے ہیں ۔یہ وہ سیلابی ریلا ہیں جو تمام رکاوٹیں اپنے ساتھ بہا کر آگے نکل جاتے ہیں ۔آج کل چونکہ الیکشن کا موسم شروع ہو چکا ہے لہٰذا ہر قسم کے چھوٹے بڑے سیاستدان اپنے محلوں سے باہر آکر عوام کے سامنے طرح طرح کے کارنامے بیان کر رہے ہیں اور مستقبل میں معجزات دکھانے کے وعدے کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے دلچسپ بیانات اور نعرے بھی سامنے آرہے ہیں۔ ایک نوجوان سیاستدان جن پر ماضی میں اربوں کی کرپشن کا الزام لگ چکا ہے نے بیان دیا ہے کہ ”ہمارا تعلق ایسے خانوادے سے ہے کہ کرپشن کا سوچ بھی نہیں سکتے“کاش ایسے ہی ہوتا! یہاں ایک اور بات جو سامنے آئی ہے وہ ہماری نئی نسل کے نوجوان سیاستدانوں کی کارکردگی ہے۔ جن نوجوانوں کو کسی نہ کسی طرح آگے آنے کا موقعہ ملا انہوں نے اپنے بزرگوں کو بھی مات کر دیا۔ سچ ہے کہ سیاستدان بڑے دلیر لوگ ہوتے ہیں۔ دو دن پیشتر ایک ”وڈے“ سیاستدان اور سابق حکمران نے دھڑلے سے بیان دیا:”ہم نے تاریخی فیصلے کئے اور ملک کی تقدیر بدل دی“ سمجھ نہیں آتی کہ حکومت کے تاریخی فیصلوں کی تعریف کہاں سے شروع کی جائے اور کہاں پر ختم کریں۔ ہر دن سنہرا دن تھا ۔ حکومت نے جو تاریخی فیصلے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کئے وہ تو بجلی ۔گیس۔ پانی۔ مہنگائی اور کرپشن کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ اسکا بہترین تجزیہ نوائے وقت نے اپنے 3اپریل کی اشاعت میں کیا:”غیر ملکی قرضوں کا حجم70ارب ڈالرز جس میں 10ارب ڈالرز کرپشن کی نظر ہو گئے۔ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں دو سو فیصد اضافہ ہوا۔ افراط زر80فیصد بڑھا۔ غربت 50 فیصد بڑھی۔ 75لاکھ افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبو ر ہوگئے“ مزید یہ کہ اقوام متحدہ کے ڈیویلپمنٹ پروگرام کے مطابق کم ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں پاکستان ایک سو چھیالیسویں نمبرپر آگیا۔ بنگلہ دیش۔ انگولا۔ اور میانمار (برما) جیسے ممالک بھی ہم سے آگے نکل گئے۔ تاریخی ترقی کا یہ عالم ہے کہ اس وقت30ہزار سکولز بھینسوں کے باڑے میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ میں ذاتی طور پر حکومت کے آخری ہفتے کے تاریخی فیصلوں سے بہت متاثر ہوں۔ یہ وہ ”وننگ چھکا“ تھا جو قوم یاد رکھے گی۔ ہماری سابق جمہوری حکومت نے اپنے دور میں ایسے قوانین پاس کئے جن کی رو سے شاندار مراعات حاصل کیں۔مثلاً ممبران اسمبلی کے ہوائی سفر کے الاﺅنسز ڈبل ہو گئے۔ پہلے صرف ڈیڑھ لاکھ سالانہ تھے اب ماشاءاللہ تین لاکھ کے حقدار ہونگے۔ اس ”جھونگے“ کے علاوہ وہ بزنس کلاس کے بیس فری ریٹرن ائیر ٹکٹ کے بھی حقدار رہیںگے۔ یہ بیس ٹکٹ سالانہ کی بنیاد پر ہیں۔ اس شاندار تاریخی فیصلے کے علاوہ تمام سابق ممبران قومی اسمبلی کو زندگی بھر وہ تمام میڈیکل سہولتیں حاصل رہیں گی جن کے حقدار وہ بطور سٹنگ ممبر رہے ہیں یاآئندہ آنیوالے ہونگے۔ ہرائیر پورٹ پر فری وی آئی پی لاﺅنج‘ فیڈرل گورنمنٹ لاجز‘ سرکاری گیسٹ ہاﺅسز کے استعمال جیسی مراعات سے بھی فیض یاب ہوتے رہینگے اور مزید یہ کہ تاحیات سرکاری پاسپورٹ پرگھوم پھر کر پاکستان کی خدمت بھی کرینگے۔ جاتے جاتے تمام سابق سپیکرز کوبہت سی دیگر مراعات کے علاوہ عمر بھر کیلئے پرائیویٹ سیکرٹری‘ ڈرائیور‘ ویٹر‘ نائب قاصد‘ فری ٹیلیفون بمعہ ٹیلیفون اپریٹراور ٹیلیفون الاﺅنس ‘ سرکاری گاڑی بمعہ پٹرول ۔ایک لاکھ ماہانہ الاﺅنس اوربیرون ملک علاج معالجہ کی سہولت بھی حاصل رہے گی۔ یہ مراعات یقینا اب سینٹ کے چیئرمین کو بھی دی جائینگی ۔یہاں یہ یاد رہے کہ ہماری سابقہ سپیکر صاحبہ اب اسی کیٹیگری میں شامل ہیں۔ان مراعات سے جناب سابق وزیراعظم اس حد تک Motivateہوئے کہ جاتے جاتے اپنے اور اپنے پیشرووزیراعظم کیلئے تاحیات شاندار سیکورٹی ارینجمنٹ منظور کر گئے جس کی رو سے صرف دو سابق وزرائے اعظم اور انکی بیگمات کیلئے اسلام آباد پولیس کے دو ایس پیز۔ چار ڈی ایس پیز اور 150 سپاہی تعینات کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔جب یہ سہولت مستقل طور پر تمام سابق وزرائے اعظم کو دی جائیگی تو یقینا ملک کی ساری پولیس بھی شاید ناکافی ہو۔ یاد رہے کہ ان مراعات کے علاوہ جناب وزیراعظم نے اربوں روپے کے فنڈز بھی باقی علاقوں سے نکال کر اپنے علاقے کی ترقی کیلئے ڈائیورٹ کر دئیے۔ ہماری پنجاب کی قیادت کی مثال بھی قابل غور ہے۔ اخباری اطلاعات کیمطابق انہیں 32 سیکورٹی اہلکار رکھنے کی اجازت ہے لیکن انکی سیکورٹی پر سات سو سے زائد اہلکار متعین ہیں جنکا ماہانہ خرچ 2 کروڑ سے بھی زائد ہے اور یہ خرچ عوام ادا کرتی ہے۔جب مرکز میں نوازشات کی بار ش ہو رہی ہو بلکہ اولے پڑ رہے ہوں تو بھلا سندھ صوبائی اسمبلی کیسے پیچھے رہ سکتی تھی ۔ سندھ صوبائی اسمبلی نے اپنے اختتام سے محض چند گھنٹے پیشتر عظیم ترمیمی اصلاحات پاس کیں۔ ان اصلاحات کیمطابق تمام ایم پی اے حضرات کی تنخواہ میں 60فیصد ۔ سپیکر ۔ڈپٹی سپیکر ۔ وزراءاور خصوصی معاونوں کی تنخواہ میں 40فیصد اضافہ کیا گیا۔ وزیرا اعلیٰ‘ سپیکر‘ ڈپٹی سپیکر اپنی موجودہ تنخواہ کا 70فیصد بطور پنشن‘عوام کے خرچ پر مفت سیکورٹی‘ پرائیویٹ سیکرٹری‘ نوکر‘ خانساماں‘ مالی اور خاکروب جیسی سہولیات سے بھی تاحیات مستفید ہونگے۔ تمام ممبران حضرات اور انکی بیگمات کیلئے عمر بھر تمام ملکی ائیر پورٹس پر وی آئی پی لاﺅنجز کا مفت استعمال اور سرکاری پاسپورٹ کی سہولت بھی حاصل رہے گی جس پر دنیا میں کہیں بھی پورے پروٹوکول کے ساتھ سفر کر کے پاکستان کی خدمت کرینگے۔یہ مراعات ان ”غریب“ ممبران قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کو اس عظیم قوم کی طرف سے تحفہ میں دی گئی ہیں جنہیں پیٹ بھر کر روٹی بھی میسر نہیں اور خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ یاد رہے کہ یہ مراعات حاصل کرنیوالے لوگ نا قابل یقین حد تک دولتمندہیں۔ بیشتر حضرات حکومتی ٹیکسزبھی ادا نہیں کرتے اور بعض نے تو کرپشن میں بھی نام پیداکیا۔ قوم کو تو شکر گزار ہونا چاہیے اپنی عدلیہ اور الیکشن کمیشن کاجس نے اشتہارات پر پابندی لگا دی ورنہ ہمارے ہمدرد حکمران جس بے دردی سے قومی دولت ذاتی تشہیر پر ضائع کر رہے تھے اور اگر یہ سلسلہ الیکشن تک جاری رہتا تو قوم کو اپنے زخموں کا علاج کرانا بھی نا ممکن ہوجاتا۔ اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات‘ خوبصورت فوٹوز‘شاندار کارکردگی کے دعوے اور پُرفریب وعدے غریب قوم کو مزید غربت کی گہرائی میں دھکیل جاتے لیکن حکمرانوں نے جو تاریخی فیصلے اپنی فلاح و بہبود کیلئے کئے وہ البتہ قابل تعریف ہیں۔معزز قارئین یہ ہیں وہ تاریخی فیصلے جو ہمارے عظیم رہنماﺅں نے اپنی عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کئے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے زبردستی قوم کے ”ہینڈز اپ“ کراکر لوٹا گیا ہو اور اب یہی معزز راہنما قوم کی خدمت کے ایسے ایسے شانداروعدے کر رہے جیسے ان سے زیادہ مخلص انسان پوری دنیا میں کوئی نہ ہو۔ بہرحال معزز راہنماﺅں نے جو بھی تاریخی فیصلے کئے۔ مبارکباد کے مستحق ہیں ۔اگر الیکشن ہوا تو انہیں عوام کا تاریخی فیصلہ سننے کیلئے بھی تیار رہنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا انصاف کبھی نہ کبھی تو آتا ہی ہے۔بقول شاعر....پاکستان کو سمجھا ہم نے مفت کا ایک سرمایہفرض سمجھ کر لوٹا اسکو حق سمجھ کر کھایا!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024