توقیر احمد صاحب ہمارے دوست ہیں۔ گو پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں لیکن طبعاً شعر و شاعری کے رسیا ہیں۔ انجینئر اور حساب دان عموماً خشک مزاج ہوتے ہیں اور شعر ویر کو تضیع اوقات سمجھتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی اپنی جمالیاتی حسوں کو ان گراں بار ڈگریوں کے بوجھ تلے دبنے نہیں دیا۔ ان سے اکثر ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ ایک دن ملے تو ہلکی پھلکی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے.... یار! کیا ہر بار سیاسی کالم لکھنا ضروری ہے یا پیشہ ورانہ مجبوری ہے؟ تمہارا کالم پڑھ کر سلگتے ہوئے بے پایاں قومی مسائل کا احساب تو ہوتا ہے لیکن علم میں اضافہ نہیں ہوتا۔ اس سے محض ڈپریشن بڑھتی ہے۔ مفلسی ہاتھ جوڑتی ہوئی، معیشت دم توڑتی ہوئی۔ کاروان حیات تنگناﺅں اور مہیب گھاٹیوں سے گزرتا ہوا اور صدائے جرس کاررواں کانوں میں زہر گھولتی ہوئی، نہ منزل کا پتہ نہ نشان منزل! آدمی نہ دن کو سکون محسوس کرتا ہے اور نہ رات چین سے سو سکتا ہے۔ خود غرض لیڈر جن کی نااہلی نالائقی اور اقربا پروری کے قصے زبان زد خاص و عام ہیں۔ کوئی یوسف بے کارواں ہے تو کوئی ایسا پرویز جس کی پرواز میں کوتاہی ہے۔ یہ ایسے پرندے ہیں جو اقل مرام میں زندگی تو تلاش کرتے ہیں مرنا گوارا نہیں کرتے۔ فارسی محاورے کی رو سے اسے حیات المیر کہتے ہیں۔ اس ملک میں کوئی مومن ہو نہ ہو، امیرالمومنین کثرت سے ہیں۔ عقل سے کوسوں دور یہ لوگ شیر شاہ سوری کہلانا پسند کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ شاید قطب الدین ایبک بھی انہیں اپنا ٹائٹل استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔ میرے جواب کا انتظار کئے بغیر کہنے لگے .... آج کل بہار کا موسم ہے۔ چار سو رنگ برنگے پھولوں کی قوس قزح نظر آتی ہے۔ دھرتی نے بسنت رنگ چنریا اوڑھ لی ہے۔ فضائیں مست ہیں۔ خشک بار ہواﺅں میں ایک سندیسہ ہے جسے تم نالہ بلبل سمجھے ہوئے ہو دراصل شہنائی ہے۔ بھینی بھینی خوشبو ہر گھڑی ہر لحظہ مشام جان کو تروتازہ رکھتی ہے۔ غالب نے ویسے تو نہیں کہا تھا ....
ہے آمد بہار کہ بلبل ہے نغمہ زن
اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی
اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے بولے آج کل پکوان تو خیر کیا پکنے ہیں باغوں میں جھولے پڑیں نہ پڑیں،نقرئی قہقہے بکھریں نہ بکھریں، کانچ کی چوڑیاں کھنکیں نہ کھنکیں، پھر بھی بہار سراسر حسن ہے اور حسن کی گواہی دینا بھی ایک قسم کی عبادت ہے۔ کیا تم عبادت کا مفہوم سمجھتے ہو؟ ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ کی رضا یا اس کے بندوں کی فلاح کیلئے کیا جائے عبادت ہے۔ اگر تمہاری تحریر سے کسی مغموم اور پژمردہ چہرے پر ہنسی کی کوئی لہر ابھرے وقتی طور پر ہی سہی کوئی دکھی شاد ہو جائے تو یہ بھی غنیمت ہے۔
ہر وقت DOOMSDAY SCENARIO پینٹ کرنا بھی کوئی احسن بات نہیں ہے۔ قوم کے زخموں کو کریدنے سے تو بہتر ہے کہ آدمی ان پر پھاہا رکھے۔ اس لئے میں تمہیں مشورہ دوں گا کہ بہار پر کالم لکھو! ویسے قنوطیت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ تم غالب اور میر کا فرق تو سمجھتے ہو گے۔ دونوں نے عسرت اور تنگدستی کی زندگی گزاری لیکن اس کا اظہار مختلف انداز میں کیا۔....
اگ رہا ہے درو دیوار پہ سبزہ غالب
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے
عرض کیا، کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں بھی بیس کروڑ مفلوک الحال لوگوں کے گھر کا احوال کسی ایسے ہی انداز میں بیان کروں! مسکرا کر بولے کم از یہ تو کہہ سکتے ہو ....
ہے رنگ لالہ و گل و نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہئے
دراصل توقیر صاحب WORDS WORTH کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ میں کالرج کی لکیر کا فقیر ہوں۔ مسرت کے چشمے اندر سے پھوٹتے ہیں۔ محض خارجی ماحول مسرت و شادمانی کا موجب نہیں بن سکتا۔ جس دور میں حکمرانوں نے لوگوں کی نیندیں حرام کر دی ہوں، سکون غارت کر رکھا ہو، ان کے لبوں سے ہنسی کی آخری رمق تک چھین لی ہو۔ وہ بہار کا کیا خاک لطف اٹھائیں گے۔ باایں ہمہ خیال خاطر احباب بھی ضروری ہے۔ ویسے بھی یہ لوگ کتنے دن حکمرانی کے مزے لوٹ سکیں گے؟ ظلم اور زیادتیاں جب بڑھتی ہیں تو پھر مٹ جاتی ہیں۔ ہر فرعون کے لئے کوئی نہ کوئی موسیٰ ضرور پیدا ہوتا ہے۔ لیکن بہار نور ہر سال آتی ہے۔ ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ۔ شیلے نے کہا تھا
If winter comes can spring be far behind?
دھونس، دھاندلی اور نا جوازیوں کی اس خزاں کو ایک نہ ایک دن تو ختم ہونا ہے۔ طالع رقیب ہر وقت اوج پر نہیں رہ سکتا۔ کسی نہ کسی دن تو خلق خدا کو راج کرنا ہی ہے.... گو فیض نے شکوہ کیا تھا ....
نہ گل کھلے ہیں نہ ان سے ملے نہ مے پی ہے
عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے
شعر سے پتہ چلتا ہے کہ شاعر محض ایک بہار کا ذکر کر رہا ہے۔ باقی سب بہاروں میں گلشن کا کاروبار چلتا رہا ہے۔ ویسے بھی ”ان سے“ ملنے کے بعد خانہ خراب دختر رز کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس بات کی تصدیق تو جناب میر نے بھی کی تھی....
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
حضرت انسان ازل سے ہی پھولوں کا متلاشی رہا ہے اور اس نے ان سے نہ ٹوٹنے والا رشتہ جوڑا ہے۔ غزل میں تو ہر عضو محبوب کا استعارہ کسی نہ کسی پھول سے لیا گیا ہے۔ نرگسی آنکھیں، گلاب گال....
کسی نے دیے کھول سنبل سے بال
طمانچوں سے جوں گل کئے سرخ گال
غالب کو نکہت گل سے بھی حیا آتی رہی ....
کرتا ہے جس کے باغ میں تو بے حجابیاں
آنے لگی ہے نکہت گل سے حیا مجھے
جوش مرحوم تو ان سے باقاعدہ ہمکلام ہوتے تھے....
کتنا مانوس ہوں فطرت سے کلی جب چٹکی
میں نے جھک کر یہ کہا مجھ سے کچھ ارشاد کیا
لاہور کی انتظامیہ یقیناً مبارکباد کی مستحق ہے۔ انہوں نے سارے شہر میں پھولوں کی سیج سجائی ہے اور اس طرح کنار رکنا باد و گلگشت مرحلے والا ماحول پیدا کیا ہے۔ لاہور کو شہر باغات تو پہلے ہی کہا جاتا تھا۔ اب یہ پھولوں کا شہر کہلائے گا۔ جس دن گورنر ہاﺅس 7۔ کلب روڈ اور 90۔ شاہراع قائداعظم پارکوں میں تبدیل ہونگے اس روز لاہور ایشیاءکا سب سے بڑا ROSE GARDEN بن جائے گا۔ کیا ایسا ہو سکے گا؟ یقیناً! وہ جو علیم و خبیر ہے وہ جو نظام ہستی چلا رہا ہے، وہ جو انسان کی ہر سانس پر قادر ہے اس کے ہاں دیر تو ہو سکتی ہے اندھیر کبھی نہیں!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024