ستمبر کا مہینہ انڈیا کے لئے دہری ہزیمت کا مہینہ ہے ۔ ایک طرف تو پاکستا نی فوج کے جری جوانوں نے 6 ستمبر 1965 کو ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملایا تو دوسری طرف اس سے قبل 1960 میں 9 ستمبر کے دن اولمپک ہاکی میں انڈیا کی 32 سالہ بر تری کا خاتمہ کر کے ہاکی کی دنیا میں فتو حات کی نئی راہ اپنائی ۔ یہ دن پا کستان ہاکی کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس گزشتہ سال سے اس دن کو ’’ ہاکی کو قومی دن ‘‘ کے طور پر پورے ملک میں بلا امتیاز منایا جا نے لگا ہے ۔ یہ دن عوام الناس کو بالعموم اور نو جوان نسل کو بالخصو ص قومی کھیل کے سنہرے ماضی سے جوڑتا ہے ۔ اور ان میں اس کھیل کی طرف رغبت دلانے میں اہم کر دار ادا کر تا ہے ۔اس کالم میں ہم ماضی کے اس درخشاں باب کو نوجوانوں کے لئے وا کر تے ہیں ۔ جب 1960 میں قومی ہاکی ٹیم اٹلی کے تاریخی شہر روم میں منعقدہ اولمپک کھیلوں کے مقابلے میں شر کت کے لئے پاکستان سے روانہ ہو تی ہے اولمپک کھیل میں ہاکی کے ان مقابلوں میں تمام ممالک کی ٹیموں کو چار پولز میں تقسیم کیا گیا پول اے میں انڈیا ، نیوزی لینڈ ، ہالینڈ اور ڈنمارک ۔ پول بی میں پاکستان ،آسٹریلیا ، پولینڈ اور جا پان ۔ پول سی میں جر منی ، فرانس ، اٹلی اور کینیا جبکہ پول ڈی میں بر طانیہ ، اسپین ، بیل جیم اور سو ئٹزر لینڈ سمیت کل سولہ ٹیمیں شامل تھیں ۔ پاکستان پول میچز میں آسٹریلیا کو 3-0 ، پولینڈ کو 8-0 ، اور جاپان کو 10-0 سے شکست دے کر سر ِ فہرست رہا ۔ کوارٹر فائنل جر منی کے ساتھ ہوا جسے پاکستان نے 2-1 سے جیتا پول میچز اور کوارٹر فائنل کے مراحل سے گزر کر پاکستان ،انڈیا ، بر طانیہ اور اسپین نے سیمی فائنل میں رسائی حاصل کی ۔ اسپین کو پاکستان نے سنسنی خیز مقابلے کے بعد 1-0 سے شکست دے کر فائنل میں کھیلنے کا اعزاز حاصل کر لیا فائنل میچ مین پاکستان کے مد مقابل روایتی حریف انڈیا تھا ۔ جس سے مقابلے میں از خود نہ صرف کھلاڑی بلکہ پوری قوم بہت پر جوش تھی ۔پاکستان ٹیم گول کیپر عبد الرشید ، لیفٹ فل بیک میجر ایم ایچ عاطف ، رائٹ فل بیک بشیر احمد ، رائٹ ہاف چوہدری غلام رسول (نائب کپتان)، سینٹر ہاف انوار احمدخان ، لیفٹ ہاف حبیب علی کڈی ، رائٹ آؤٹ نور عالم ، رائٹ ان عبد الحمید حمیدی (کپتان)، سینٹر فارورڈ عبد الوحید خان ،لیفٹ ان نصیر بندہ اور لیفٹ آؤٹ مطیع اللہ خان پر مشتمل تھی جبکہ آ ر گارڈنر ، منیر ڈار ، خوشید اسلم ، لیفٹنٹ ظفر حیات ، خواجہ ذکا ء الدین ، کیپٹن ظفر علی ظفری اور مشتاق احمد ریزرو کھلاڑیوں میں شامل تھے ۔پاکستان ہاکی ٹیم کے پہلے کپتان علی اقتدار شاہ ڈارا ٹیم کے منیجر اور نیاز خان کوچ تھے اسی دورانئے میں انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے ان اولمپک مقابلوں میں نئے قواعد و ضوابط لا گو کئے ۔جن کا مقصد ٹیکنیکی طور پر پاکستان اور انڈیا کی فائنل میں رسائی کی راہ مسدود کر کے ایشیائی بر تری کا خاتمہ اور یورپیئن کی بالا دستی تھا لیکن یہ خواب شر مندہ تعبیر نہ ہو سکا ۔ 9 ستمبر کا دن طلوع ہو ا تو یہ پاکستان کے لئے سنہرا دن ثا بت ہوا پاکستان دو سال قبل ہی ایشین گیمز میں گول ایوریج کی بنیاد پر انڈیا پر سبقت حاصل کر چکا تھا جس سے وہ نفسیاتی بر تری حاصل کئے ہو ئے تھا انڈیا کی ٹیم اُس وقت کے بہترین کھلاڑیوں پر مشتمل تھی بہترین تر بیت اور شاندار فٹنس کی حامل انڈین ٹیم اپنے اعزاز کے دفاع کے لئے میدان میں اُتری کھیل کی آغاز ہی میں ابتدائی بلی ہو تے ہی پاکستان ٹیم کے کھلاڑی انڈیا کی پچیس گز کی لائن تک جا پہنچے تھے کپتان حمیدی کے خوبصورت پاس پر رائٹ آؤٹ نور عالم نے شاندار کراس لگایا لیکن پاکستانی کھلاڑی کے آف سائیڈ ہو نے کی وجہ سے فائدہ نہ اُٹھایا جا سکا ۔پاکستان نے ابتدائی لمحات ہی سے انڈیا کے دفاعی حصار کو توڑنے کی کوششیں شروع کر دیں لیکن انڈین کھلاڑی مضبوطی کے ساتھ اپنی جگہ پر جمے رھے اور بال کو کلیئر کر تے رہے ۔ اس میچ میں کپتان حمیدی ، نور عالم ، عبد الوحید خان ، مطیع اللہ خان سمیت تمام کھلاڑی یکجان ہو کر قومی جذبے سے اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہے تھے میچ میں مسلسل تا بڑ توڑ حملوں کے با وجود کوئی ٹیم گول نہ کر سکی تھی ۔ میچ کے خا تمے میں گیارہ منٹ باقی تھے کہ پاکستانی کھلاڑیوں کی جانب سے یکا یک ذہانت سے بھر پور ایک موومنٹ دیکھنے میں آئی جب میڈیا کے دفاعی کھلاڑیوں کو اپنے او پر حملے میں شریک کر وا کر کپتان حمیدی نے گیند براہِ راست نور عالم کو دی ، نور عالم تیزی سے بال کو لے کر آگے بڑھے اندر کی طرف ہو کر زور دار کراس لیفٹ ان کی پوزیشن پر موجو د نصیر بندہ کی طرف لگایا ۔ نصیر بندہ نے بال کو خوبصورتی سے روک کر بلا تاخیر اُٹھا کر گول پوسٹ کے دائیں جانب جال میں پھینک دی ۔ انڈین کھلاڑی اس گول کی وجہ سے حوصلے پست کر بیٹھے اور مقابلہ برابر کر نے کے کسی موقع سے بھی فائدہ نہ اُٹھا سکے آخری دس منٹ پاکستانی ٹیم کے دفاع پر بہت دباؤ رہا لیکن ایم ایچ عاطف ، بشیر احمد اور انوار احمد خان آ ہنی چٹان بن کر اُن کے سامنے کھڑے رہے اور انہیں پس پائی پر مجبور کرتے رہے ۔ میچ کی اختتامی وصل بجتے ہی سجدہ ریزیوں ، بھنگڑے اور منیجر دارا کے نعرہ مستانہ کے ساتھ کھلاڑیوں کی آنکھیں خوشی سے برسنے لگیں اس عظیم فتح کے نظا رے کو دیکھنے کے لئے یورپ بھر سے تقریباً 200 کے لگ بھگ پاکستانی شائقین گراؤنڈ میں موجو د تھے وہ بھی دیوانہ وار رقصاں تھے جب پاکستانی پر چم قومی ترانے کی دھن کے ساتھ سر بلند ہوا تو وہاں موجود کھلاڑیوں سمیت ہر پاکستانی کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا اور وہ خوشی کے مارے گلے مل مل کے رو رہے تھے ۔ انٹر نیشنل اولمپک کمیٹی کے صدر جناب اویری برنڈیج نے اپنے ہاتھوں سے پاکستانی کھلاڑیوں کو سو نے کے تمغے پہنائے ، یاد رہے کہ اُس دور میں پہلے گیارہ کھلاڑیوں کو جو میدا ن میں کھیلتے تھے میڈل پہنائے جاتے تھے جبکہ ریزرو کھلاڑی اس سے محروم رہتے تھے ۔ روم اولمپک 1960 میں پاکستان ہاکی ٹیم نے مجموعی طور پر پچیس گول کئے جبکہ ان کے خلاف واحد گول جرمنی نے کیا ، پاکستان کے ٹاپ اسکو رر آٹھ گول کر کے کپتان عبد الحمید حمیدی قرار پائے جبکہ او لمپک میں بہترین ایتھلیٹ کا واحد ایوارڈ ’’ ہیمز ٹرافی ‘‘نصیر بندہ کو دیا گیا اس ٹورنامنٹ کی فاتح کی حیثیت سے وطن واپسی پر صدر پاکستان جنرل ایوب خان نے کھلاڑیوں کو ملاقات کے لئے بلایا اور اُنہیں تفریحی دورے پر یو رپ بھیجا ۔ اسکے ساتھ ہی ہاکی کو قومی کھیل قرار دیا اسی تناظر میں نو ستمبر پاکستان ہاکی کا ایک تاریخی دن بنتا ہے جسے ہم ہاکی کے قومی دن کے طور پر منا رہے ہیں ۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38