بدھ ‘ 20 ؍محرم الحرام 1442 ھ‘ 9 ؍ستمبر 2020ء
وزیراعظم کاد ورہ اسلام آباد پناہ گاہ مزدوروں کے ساتھ بیٹھ کہ کھانا کھایا
وزیراعظم عمران خان کا ایسے مراکز کا دورہ نہایت مفید ثابت ہو گا۔ سرکاری طور پر غریبوں کو خوراک اور رہائش کی دی جانے والی سہولتوں کی نگرانی کا عمل اگر کمزور ہو جائے تو روایتی لاپروائی اور بدانتظامی ان مراکز کا تشخص مسخ کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نجی سطح پر جہاں جہاں غریبوں کے لیے مفت خوراک کے مراکز قائم ہیں وہاں چیک اینڈ بیلنس سخت ہوتا ہے۔ اب پناہ گاہ کے نام سے جو حکومت نے غریبوں کو رہائش اور خوراک کی مفت سہولت کا انتظام کیا ہے۔ اسکی ہر ایک تعریف کر رہا ہے۔ یہ نظام اسی طرح خوش اسلوبی سے چلنا چاہیے۔ وزیراعظم نے جس طرح تمام تر و مصروفیات کے باوجود وقت نکال کر اسلام آباد میں پناہ گاہ کا دور ہ کیا اور وہاں غریبوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا۔ اس سے اچھا تاثر سامنے آیا ہے۔ غریبوں کے پاس عزت نفس کے سوا اور ہوتا ہی کیا ہے۔ عمران خان کے اس عمل نے انکے دل جیت لیئے ہیں۔ وزیراعظم سے قبل خاتون اول بھی کئی مرتبہ پناہ گاہ، خواتین اور بچوں کے بحالی مراکز کا دورہ کرتی رہی ہیں۔ اس سے ان اداروں کی کارکردگی اور حالت بہتر ہونے میں کافی مدد ملتی تھی۔ اگر صوبوں میں جہاں جہاں پناہ گاہ دارالامان، دارالشفقت ایس او ایس ویلج قائم ہیں اگر وہاں بھی وزیراعلیٰ یا گورنر وقفے وقفے سے ان کا دورہ کریں تو وہاں بھی تبدیلی آ سکتی ہے۔ شکایات کم ہو سکتی ہیں۔ ہر جگہ نہ سہی کہیں نہ کہیں تو تبدیلی کے آثار نظر آ سکتے ہیں۔
٭…٭…٭
آئی جی پنجاب نئے سی سی پی او کی تعیناتی سے ناخوش دفتر بھی نہیں آ رہے
محکمہ پولیس ہو یابیوروکریسی موجودہ حکومت کے آنے کے بعد پنجاب میں جس طرح تیزی کے ساتھ تبادلوں کا سونامی آیا ہے۔ اس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے منہ زور سیلاب سب کو بہائے چلا جا رہا ہے۔ کسی کو پتہ نہیں ہوتا کہ آج وہ یہاں ہے تو کل وہ کہاں ہو گا۔ بے شک تقرروتبادلے کا حق حکومت کو ہوتا ہے۔ مگر جس طرح اعلیٰ پولیس اور سول افسران کو شرارتی بچوں کی طرح کاغذی جہاز بنا کر اڑایا جا رہا ہے اس پر کافی ناک بھوں چڑھائی جا رہی ہے۔ محسوس ہوتا ہے وزیراعلیٰ جب تک کسی افسر کے ساتھ کام کرنے میں آرام محسوس نہیں کرتے اس وقت ’’ تو چل میں آیا‘‘ والی پالیسی برقرار رہے گی یوں یہ آنا جانا لگا رہے گا۔ حکمران کا حق ہے کہ وہ من پسند افسران اور انتظامیہ کو ساتھ لے کر چلے تا کہ اپنے وژن کیمطابق اصلاحات کا عمل تیزکرے اور صوبے میں امن و امان کی حالت بہتر بنائے۔ اب آئی جی پنجاب کو گلہ یہ ہے کہ نئے سی سی پی او کی تقرری میں ان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اب انہیں یہ خود سمجھ لینا چاہیے کہ اگر اعتماد میں لیا بھی جاتا تو کیا وہ اپنے پسند کے افسر کو نیا سی سی پی اور بنا سکتے تھے۔ ہونا تب بھی یہی تھا جواب ہو ا ہے۔ بات وہی ہے کہ دلہن وہی جوجو پیا من بھائے۔ اب نیا سی سی پی او دیکھتے ہیںکتنے دن من پسند رہتا ہے ان سے پہلے بھی جو آئے وہ بھی تو مقرب بندے ہی تھے۔ خود آئی جی کی پوسٹ بھی ڈانواں ڈول ہے۔ چل چلاؤنظر آ رہا ہے۔ پھر یہ دل کا جلانا عبث ہے۔ ایسی صورتحال میں تو مزہ لینا چاہیے۔ کیونکہ کہتے ہیں۔ سوچی پیا تہ بندہ گیا‘‘ اس لیے (تبدیلی کے ساتھ)
’’تبادلوں ‘‘کے غم کو اے میرے دل غم ہستی نہ بنا
زیست مشکل ہے اسے اور بھی مشکل نہ بنا
٭…٭…٭
وفاق کا کے الیکٹرک کو تحویل میں لینے کیلئے عملی اقدامات کا آغاز
کے الیکٹرک والوں نے جتنا موج میلہ کرنا تھا کر لیا۔ جتنی بجلیاں کراچی والوں پر گرانی تھیں گرا لیں۔ جتنا لوڈشیڈنگ کرنا تھا۔ کراچی والوں کو ناکوں چنے چبوانے تھے چبوا لیئے اب ان کو بھی نکیل ڈالنے کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں۔ وفاقی حکومت نے اس شتر بے مہار کو قابو کرنے کیلئے کام شروع کر دیا ہے۔ اب کسی بھی وقت یہ منہ روز محکمہ پہاڑ تلے آنے والا ہے۔ اس کے قیام سے لے کر آج تک کراچی والے ہمیشہ اس کی کارکردگی کے شاکی رہے ہیں۔ ایک بھی ایسا دعویٰ جو اس کے قیام کے وقت کیا گیا تھا شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ یہ ادارہ بھی کھاؤ پیو لٹوتے پھٹو کی عملی تقسیر بن گیا۔ سیاسی دباؤ تقرریاں میرٹ کاقتل عام سفارشی بھریتوں اور بے جا مداخلت نے اسے بھی عضو معطل بنا کر رکھ دیا۔ کراچی والے پہلے وا پڈا اور پھر کے الیکٹرک کی مہربانیوں سے ایسے زیربار ہوئے کہ توبہ۔ اب اس ادارے کی حالت بہتر بنانے کے لیے وفاقی حکومت کو اس کا انتظام و انصرام اپنے ہاتھ میں لینا پڑ رہا ہے۔ خدا کرے یہ کام اس محکمہ کے لیے سعد ثابت ہو اور کراچی والوں کے لیے یہ تبدیلی تازہ ہوا کا جھونکا بن جائے۔ اگر کے الیکٹرک کے حالات سدھر گئے تو پھر کراچی والوں کے باقی بگڑے ہوئے محکموں کے حالات بھی سدھر جائیں گے۔ اس طرح وہ باقی محکموں کو بھی وفاق کے سپرد کرنے کی بات کر سکتے ہیں۔ جس پر سندھ حکومت کو اعتراض ہو سکتا ہے۔ مگر اچھی کارکردگی دکھا کر یہ اعتراض بآسانی مسترد کیا جا سکتا ہے۔
٭…٭…٭
ریسکیو 1122 کا دائرکار تحصیل او رموٹربائیک سروس کا ضلع تک بڑھانے کا اعلان
ریسکیو 1122 اور موٹر بائیک سروس کے کیا دشمن کیا سجن سب معترف ہیں۔ یہ کسی بھی ایمرجنسی میں فوری طبی امداد کا ایک موثر ذریعہ ہیں۔ لاہور میں ان کی خدمات سے ہر شہری فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اب وزیراعلیٰ پنجاب نے ریسکیو 1122 کا دائرکار تحصیل کی سطح تک بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے اور موٹر بائیک سروس بھی ہر ضلع میں دستیاب ہو گی۔ اس طرح پورے پنجاب کے عوام ان سہولتوں سے فائدہ اٹھائیں گے۔ اچھا کام جو بھی کرے اسکی تعریف ہونی چاہیے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اچھے کام بھی سیاست کی نذر ہو جاتے ہیں۔ چودھری پرویز الہٰی کے دور میں جو اچھے کام ہوئے ان میں یہ ریسکیو 1122 بھی شامل ہے۔ اب موجودہ حکومت نے موٹر بائیک سروس سے فرسٹ ایڈ کوئیک سروس شروع کر کے اس نیک کام کو کو مزید وسعت دی۔ اب یہ سلسلہ پورے پنجاب میں پھیلایا جا رہا ہے۔ اگر باقی صوبوں میںریسکیو 1122 اور موٹر بائیکس پر فوری طبی امداد کی سہولت مل جائے تو ہزاروں افراد کی جان‘ بچائی جاسکتی ہے۔