امریکا اور ترکی نے شام کے شمال مشرق میں مشترکہ گشت شروع کردیا ہے۔اس کا مقصد امریکا کی حمایت یافتہ کرد فورسز اور ترکی کے درمیان پائے جانے والے تناو کا خاتمہ کرنا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکا اور ترک کے درمیان سات ستمبر کو طے شدہ سمجھوتے کے تحت ترکی کی چھے بکتربند گاڑیاں سرحد عبور کرکے شام کے علاقے میں داخل ہوئی ہیں اور ترک فوجیوں نے امریکی فوجیوں کے ساتھ مل کر پہلے مشترکہ گشت کا آغاز کیا ہے۔ترکی کی بکتر بند گاڑیاں جب دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی علاقے میں داخل ہورہی تھیں تو اس کے دو ہیلی کاپٹر فضا میں پرواز کررہے تھے۔مذکورہ سمجھوتے کے تحت ترکی کی سرحد کے ساتھ دریائے فرات کے مشرق میں واقع علاقوں کے درمیان”محفوظ زون“ کا قیام ہے۔فرات کا یہ مشرقی علاقہ امریکا کی اتحادی کرد ملیشیا پیپلز پروٹیکشن یونٹس (وائی پی جی) کے کنٹرول میں ہے مگر ترکی وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے محفوظ زون کے قیام کے لیے کوئی پیش رفت نہ ہونے کی صورت میں شام میں وائی پی جی کے خلاف آپریشن کی دھمکی دی تھی۔صدر ایردوآن کا کہنا تھا کہ ان سے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ یہ محفوظ زون بتیس کلومیٹر طویل ہو گا۔حال ہی میں دونوں ملکوں نے سمجھوتے کے تحت کارروائیوں کےلیے ایک مشترکہ مرکز قائم کیا ہے۔ترکی نے 2016 ءمیں سرحد پار شمالی شام میں داعش کے خلاف لڑنے والے شامی جنگجووں کی حمایت میں کارروائیاں کی تھیں۔اس نے 2018ءکے اوائل میں وائی پی جی کے خلاف بھی کارروائی کی تھی۔ترکی وائی پی جی کو دہشت گردقرار دیتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ کالعدم گروپ کردستان ورکرز پارٹی ( پی کے کے) ہی کا حصہ ہے۔کردستان ورکرزپارٹی نے1984ءسے ترکی کے جنوب مشرقی علاقے میں مسلح بغاوت برپا کررکھی ہے اور اس کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں اور بم حملوں میں 40 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ترکی کے علاوہ یورپی یونین اور امریکا نے بھی پی کے کے کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024