پاکستان کرکٹ بورڈ نے بین الاقوامی نشریاتی ادارے کے ساتھ رقم کی ادائیگی کا تنازعہ تو حل کر لیا ہے۔ گورننگ بورڈ نے بھی اس کی منظوری دیدی ہے، بین الاقوامی نشریاتی ادارے کی ناراضی کا خدشہ بھی ختم ہو گیا ہے، پرانے بزنس پارٹنر کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کا خطرہ بھی ٹل گیا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس سیٹلمنٹ میں کچھ رعایت بھی ملی ہے، یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ سیٹلمنٹ میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے حساب کتاب میں فائدہ حاصل کیا ہے۔
کرکٹ بورڈ کی موجودہ انتظامیہ لگ بھگ ایک سال سے اس مسئلے پر بین الاقوامی نشریاتی ادارے کی سہولت کا راستہ ڈھونڈ رہی تھی، کوئی درمیانہ راستہ نکالنے کی کوشش کر رہی تھی۔ واقفان حال تو یہ بھی بتاتے ہیں کہ موجودہ چیئرمین عہدہ سنبھالنے سے قبل ہی اس مسئلے میں نشریاتی ادارے کے موقف کے حامی تھے اور وہ ان سے تعلقات کو خراب کرنے کے بجائے جیسے تیسے معاملہ نمٹانے کے حامی تھی۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، کچھ ذاتی اور پرانے تعلقات ہو سکتے ہیں۔ کچھ دوستیاں ہو سکتی ہیں، کچھ ضرورتیں یا مصلحتیں بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے معاملے میں اتنا جھکاؤ یا لچک دکھانے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا پانچ سالہ معاہدے میں یہ نہیں لکھا ہوا تھا کہ نشریاتی ادارہ ان میچوں کے بتیس ملین ڈالرز دینے کا پابند ہے، کیا پانچ سالہ معاہدے میں یہ نہیں لکھا ہوا کہ نشریاتی ادارے کو شیڈول سے ہٹ کر سیریز کی اطلاع تین ماہ قبل دینا لازم ہے، اگر پی سی بی نے یہ شرط پوری کی ہے تو پھر نشریاتی ادارے کے نقصان میں کرکٹ بورڈ مالی نقصان کیوں برداشت کر رہا ہے، کیا نشریاتی ادارے کی ذمہ داری صرف پاکستان کے میچز سے منافع کمانا ہے، اگر وہ ہماری کرکٹ سیریز سے زیادہ منافع کماتا ہے تو کیا ایسی صورت میں وہ منافع میں پی سی بی کو حصہ دار بناتا ہے، اگر زائد منافع میں حصہ نہیں دیا جاتا تو پھر نقصان میں کیوں پاکستان کرکٹ بورڈ کو حصہ دار بنایا گیا ہے۔
جب معاہدے کے مطابق نشریاتی ادارہ بتیس لاکھ ڈالرز دینے کا پابند ہے تو پاکستان کرکٹ بورڈ نے معاہدے کی پاسداری پر زور کیوں نہیں دیا۔ سیٹلمنٹ میں تین برس کے دوران 75 روز کی ڈومیسٹک کرکٹ کوریج کی یومیہ قیمت پینتالیس ہزار ڈالرز مقرر کرنے سے قبل اوپن بڈز کا طریقہ کار کیوں اختیار نہیں کیا گیا، فریقین میں کوئی تنازعہ موجود بھی تھا تو فری ائیر ٹائم ایڈجسٹ کرتے ہوئے اوپن بڈنگ کروائی جاتی تاکہ اصل قیمت سامنے آتی اور اس اوپن بلڈنگ کی روشنی میں معاملات طے کیے جاتے۔ کاغذات میں بتانے کی حد تک تو یہ بہت خوش کن محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے معاملہ خوش اسلوبی سے طے کر لیا ہے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اگر نشریاتی ادارہ کرکٹ بورڈ کو معاہدے کے مطابق رقم ادا کرتا تو وہ بتیس لاکھ ڈالرز ہوتے جبکہ سیٹلمنٹ میں پی سی بی کو آٹھ لاکھ دس ہزار ڈالرز ملے ہیں۔ باقی تیئس لاکھ نوے ہزار ڈالرز کی رقم ایڈجسٹمنٹ کی نذر ہو گئی ہے۔ کیا ہمارے ملک میں کوئی سپورٹس چینل نہیں ہے جسے ڈومیسٹک مقابلوں کی کوریج کے حقوق دیے جاتے، کیا ملک میں موجود سرکاری اور نجی سپورٹس چینل کو ڈومیسٹک کرکٹ مقابلوں کے نشریاتی حقوق بیچے جاتے تو وہ بھی پینتالیس ہزار ڈالرز یومیہ معاوضہ لیتے۔ سیٹلمنٹ سے پہلے اوپن بلڈنگ کروائی جاتی تو کیا یومیہ ریٹ پینتالیس ہزار ڈالرز ہی رہتا۔ جب زمبابوے سیریز پر پی سی بی مقررہ وقت تک نشریاتی ادارے کو بتانے میں ناکام رہا تو اس وقت انہوں نے ہمارے ساتھ کوئی رعایت کی تھی، اگر ایسا نہیں ہے تو اس مرتبہ پی سی بی نے کیوں لچک کا مظاہرہ کیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی موجودہ انتظامیہ انتہائی شفاف انداز میں کام کرتی ہے تاہم اس سیٹلمنٹ سے معاہدے کی شفافیت پر سنجیدہ سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اپنے معاہدے پر قائم کیوں نہیں رہا، پی سی بی نے معاہدے کے مطابق رقم کی وصولی پر زور کیوں نہیں دیا، پاکستان کرکٹ بورڈ اپنے حق سے دستبردار کیوں ہوا، گزشتہ برس ائیر ٹائم خریدنے کے لیے جاری کیا گیا ٹینڈر کیوں منسوخ کیا گیا، کیا ائیر ٹائم خریدنے کے لیے ٹینڈر منسوخ کرتے وقت قانونی تقاضے پورے کیے گئے تھے، کہیں ٹینڈر منسوخ کرنے والے افسر نے اختیارات سے تجاوز تو نہیں کیا تھا، ائیر ٹائم خریدنے کے لیے جاری ٹینڈر منسوخ کرنے سے پہلے کس سے مشورہ کیا گیا، کس کی ہدایات پر گزشتہ برس ائیر ٹائم خریدنے والے ٹینڈر کو منسوخ کر دیا گیا تھا، کیا اس معاہدے کی شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کو نشریاتی ادارے کے ساتھ پانچ سالہ معاہدے کو اپنی ویب سائٹ پر جاری نہیں کرنا چاہیے؟؟؟؟
اس سیٹلمنٹ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور اس کا پس منظر شفافیت کے دعوے داروں سے سوال کر رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا وژن شفافیت ہے، ان کا نعرہ تبدیلی ہے، موجودہ انتظامیہ بھی اس وعدے کے ساتھ میدان میں آئی تھی کہ عوام سے کچھ نہیں چھپایا جائے گا لیکن یہاں تو عوام کو کچھ بتانے کے قابل ہی نہیں سمجھا جا رہا۔ ہم کب تک بین الاقوامی اداروں کے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں گے، ہم کب تک ان کے مفادات کا تحفظ کرتے رہیں گے، آخر کب تک، کیا عمران خان کے دور میں بھی ایسا ہی ہو گا؟؟؟
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024