میںنے کوشش کی ہے کہ پاکستان کی ایک چھوٹی جماعت کی اس روشن جدو جہد کا تذکرہ کروں جو اس نے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لئے کی اور ا س کا آغاز کرنے کے لئے ا سنے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی اپیل کا انتظار نہیں کیا بلکہ جونہی پانچ اگست کی پابندیاں لگیں تو اس چھوٹی سی جماعت کے سربفلک سربراہ سینیٹر سراج الحق نے پاکستان بھر میں احتجای جلسے جلوسوں کے ایک پروگرام کا اعلان کر دیاا ورا س پر عمل بھی شروع کر دیا۔ ہمیں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سینیڑ سراج الحق کے تاریخی خطاب کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔اور یہ خطاب اس حال میں ہوا کہ کشمیر پر طلب کیا گیا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس آپس کی گالی گلوچ اور نعرے بازی سے بد حال ہورہا تھا۔
نریندر مودی حکومت نے 5اگست کو غیر قانونی، غیر آئینی طور پر مقبوضہ کشمیر کو بھارت میںضم کرنے کا اعلان کیا تو اسی دن امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے منصورہ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ملک گیراحتجاجی سرگرمیوں کاعلان کیا اور حکومت کو متنبہ کیاکہ اب الفاظ سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کا وقت آپہنچا ہے۔
6اگست کو لاہور اور کراچی میں یکجہتی کشمیر ریلیوں کاانعقاد کیاگیا۔
7 اگست کوملک گیر یوم احتجاج منایا گیا، مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں یکجہتی کشمیر ریلیاں نکالی گئیں۔
8 اگست کو امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق مرکزی وفد کے ہمراہ مظفرآباد گئے اور وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کے ساتھ ملاقات میںکشمیری قوم کو اپنی مکمل حمایت اور تعاون کا یقین دلایا۔8 اگست کو ہی اسلام آباد میںمرکزی مشاورتی اجلاس ہوا۔ جبکہ اسی روز کراچی میں خواتین نے بڑا یکجہتی مارچ کیا اور ادارہ نورحق میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیاگیا۔
9 اگست کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھارتی سفارتخانے کی طرف کشمیر بچائومارچ کیاگیا۔ شدید بارش کے باوجود ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ 9 اگست کو امیر جماعت اسلامی سینیٹرسراج الحق نے پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن سے خطاب کیا ۔
9اگست کو اسلام آباد میں مشاورتی اجلاس منعقد کیا گیا جس میںآزاد کشمیر سے حریت کانفرنس سمیت نمائندہ سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔
10 اگست کو دیراپر میں یکجہتی کشمیر ریلی سے خیبرپختونخوا کے سابق سینئروزیر عنایت اللہ خان نے خطاب کیا۔
15 اگست کوحلقہ خواتین جماعت اسلامی نے اسلام آباد میں وزارت خارجہ کے دفتر کے باہراحتجاجی مظاہرے میںوزارت کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی طرف متوجہ کیا۔
16 اگست کو جہلم میں ہونے والے اجتماع عام میںامیر جماعت اسلامی سینیٹرسراج الحق نے مسئلہ کشمیر پر گفتگو کی۔
17 اگست کوسینیٹرسراج الحق نے کنٹرول لائن پر شہید ہونے والے تیمور اسلم شہید کے گھر حاضری دی۔ اسی روز مریدکے یوتھ پروگرام میں نوجوانوں سے آزادی کشمیر کیلیے ہر ممکن جدوجہد کا عہدلیا۔
22 اگست کو نائب امیر جماعت اسلامی اسداللہ بھٹو نے کشمور میں کشمیر بچائو مارچ کی قیادت کی۔22اگست کوہی اسلام آباد میںکشمیر کی صورتحال پر مشاورتی اجلاس منعقد ہوا۔
23 اگست کو امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کشمیر بچائومارچ کے حوالے سے مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی، چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن،جامعۃ الرشید کے مہتمم مولانا عبدالرحیم اور جامعہ بنوریہ کے مہتمم مفتی محمد نعیم سے ملاقات کی۔
25 اگست کو امیر جماعت اسلامی سینیٹرسراج الحق نے پشاور میں کشمیربچائو مارچ کی قیادت کی اور اختتام پر بڑے جلسہ عام سے خطاب کیا۔
27 اگست کو جماعت اسلامی کے رہنما اور آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن عبدالرشید ترابی نے ملائشیا میں کشمیرپر بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کیا۔
28 اگست کو امیر جماعت اسلامی سینیٹرسراج الحق نے اسلام آباد میں وفاقی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی اور انہیں جماعت اسلامی کی تجاویز اور موقف سے آگاہ کیا۔شاہ محمود قریشی نے انہیں حکومتی کوششوں کے بارے میں بتایا۔
28 اگست کو ہی جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ آزادکشمیر نے چکوٹھی کے مقام پر کنٹرول لائن کی طرف مارچ کیا جبکہ اسی روز کراچی میں سکول کے بچوں نے یکجہتی کشمیر مارچ کا اہتمام کیا۔
یکم ستمبر کو کراچی میں ایک تاریخی اورعظیم الشان آزادی کشمیر مارچ ہوا جس سے امیر جماعت اسلامی سینیٹرسراج الحق نے خطاب کیا۔
یہ کہانی مجھے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم نے سنائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت میں کوئٹہ میں ہوں کیوں کہ یہاں اتوار کو کشمیر مارچ ہو رہا ہے اس کی تیاری کے لیے لیے میں یہاں موجود ہوں۔ جماعت اسلامی ایک چھوٹی جماعت سہی مگر ملک کی واحد نظریاتی جماعت ہے جو آزادی کشمیر پر ایمان رکھتی ہے۔ اس نے اپنی جدو جہد کو لفاظی تک محدود نہیں رکھا بلکہ جب تک دنیاا ور پاکستان کے قوانین نے اجازت دی، اس کے نوجوانوںنے کشمیریوں کے شانہ بشانہ قربانیاں دیں۔ جماعت اسلامی کو فخر حاصل ہے کہ یہ دوسروںکے بچے آگے نہیں کرتی بلکہ جماعت کے اعلی عہدیداروں کے لاتعداد جوان جہاد کشمیر میں شہادت کی خلعت سے سرفراز ہوئے۔ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے لیڈر سید علی گیلانی کی ساری عمر بھارتی قید وبند میں گزر گئی مگر ان کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی ۔ انہوںنے جس اولولعزمی کا مظاہرہ کیا ۔ اسی کی وجہ سے ا ٓج مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ بھی آزادی کی جدو جہد میں آ شامل ہوئی ہے۔ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کی طرف سے اعتراف کیا گیا کہ بھارت سے الحاق ان کی غلطی تھی۔ اور آج انہی کے اس غدارانہ کردار کی سزا پوری کشمیری قوم کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔جماعت اسلامی پاکستان سے جو بن پڑا ، اس نے کیا مگر وہ فیصلہ کن کردار ادا کرنے سے قاصر ہے کیونکہ کشمیر پر جو حکمت عملی ہے وہ حکومت نے تشکیل دینی ہے۔ حکومت نعرے باز ی تک محدود ہے اور افواج، حکومت کی طرف دیکھ رہی ہیں کہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔ بڑھنا بھی ہے یا نہیں۔ ہم ایک دوراہے پرکھڑے ہیں۔قومی تاریخ میں اس سے بھیانک لمحات بھی آئے ۔ وہ لمحہ جب ہم نے مشرقی پاکستان کھو دیاا ور کچھ نہ کر پائے۔ اور آج تک اس کی واپسی کی آواز تک بلند نہیں ہوئی۔کیا کشمیری بھی ہماری بے حسی ، غفلت اور بے عملی کی وجہ سے بھارت کے رحم و کرم پر رہیں گے۔ جماعت اسلامی کی آواز جتنی بھی بلند ہو، یہ تو اسلام آباد کے ایوانوںتک نہیں پہنچتی۔نام نہاد باخبر اینکر تک نہیں پہنچتی، دلی کے مودی تک کیسے پہنچ پائے گی۔ بہر حال جماعت اسلامی کے جو بس میں تھا،اس سے بڑھ کر اس نے کیااور نتیجہ تو خدا کے ہاتھ میں ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38