پیر ‘ 9 ؍ محرم الحرام 1441ھ ‘ 9 ستمبر 2019 ء
داعش نے گائے کو بھی خودکش بمبار بنا دیا
ابھی تک دنیا والے خود کش بمبار کے حوالے سے یہی جانتے تھے کہ کسی مرد، عورت یا بچے کو اس کام کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کی مکمل برین واشنگ ہوتی ہے۔ اسے جنوں کی حد تک اپنے مقصد مسلک یا مشن سے منسلک کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے مشن پر روانہ کیا جاتا ہے۔ اب عراق میں داعش کی قائم سلطنت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ مگر یہ سخت جان تنظیم ابھی تک مختلف علاقوں میں گھسی ہوئی ہے۔ پہلے کی طرح اب یہ کھل کر دو بدو دعوت مبازت تو نہیں دیتی البتہ کہیں اچانک گھات لگا کر حملہ کر کے یا خودکش بمبار سے حملہ کروا کر اپنی موجودگی کا پتہ ضرور دیتی ہے۔ مگر ناگفتہ بہ حالات کی وجہ سے اب اسے نفری کی کمی کا سامنا ہے۔ زیاد ہ تر نفری آج کل شام میں مصروف عمل ہے ۔ اب اس افرادی قوت میں کمی کا حل بھی داعش والوں نے ڈھونڈ لیا ہے۔ اب اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو خودکش حملوں کی نئی تاریخ لکھی جا سکے گی جس میں درج ہے۔ فلاں مقام پر ایک خودکش گائے نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔ کہیں لکھا ہو گا۔ فلاں قصبے میں خودکش بکری نے تھانے کی عمارت کے پاس جا کر خود کو اڑا دیا یا کسی فوجی چوکی کے قریب ایک گدھے نے خودکش دھماکہ کر کے چوکی کی اینٹ سے اینٹ بجا د ی۔ اس کام میں اونٹ اور گھوڑوں سے عرب بہت محبت کرتے ہیں۔ اس لیے شاید انہیں جان کی امان مل جائے۔ اور بھی بہت سی اقسام کے چرند و پرند موجود ہیں انہیں بھی خودکش بمبار بنایا جا سکتا ہے۔ اب کہیں کچھ مرغیاں آوارہ پھر رہی ہوں اور فوجی انہیں روسٹ کر کے کھانے کے لیے پکڑنے کی کوشش کر رہے ہوں اور اچانک دھماکہ ہو تو یہ خودکش مرغ دھماکہ بھی کہلا سکتا ہے۔ اس لیے اب عراق والوں کو آوارہ منش جانوروں سے بھی بچ کر رہنا ہو گا کہ کہیں وہ بھی خودکش بمبار نہ ہوں۔
٭٭٭٭٭٭
نواز اور زرداری جلد پیسے واپس کریں گے: شیخ رشید
سکھر میں تگڑا ناشتہ کرنے کے بعد وزیر ریلوے سے اسی قسم کے تگڑے بیان کی امید تھی۔ کہنے کو تو شیخ جی سندھ میں ریل کی پٹڑیوں کا معائنہ کرنے اور ریلوے کے معاملات کا جائزہ لینے سندھ کے ریلوے سٹیشنوں کے دورے پر ہیں مگر کیا کریں وہ کہتے ہیں ناں ’’چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی‘‘ سو دوران سفر بھی وزیر ریلوے کو صبح کا روایتی ناشتہ یاد رہا اور انہوں نے سکھر میں دیسی پائے ، چنے اور روایتی مقامی پکوان بھی چائے کے ساتھ نوش جان کئے۔ بس پھر کیا تھا ان کا دماغ اور زبان دونوں تازہ دم ہو کر فراٹے بھرنے لگے۔ انہوں نے جیک آباد میں 10 ہزار نوکریاں دینے کا اعلان کیا جسے عوام نے سیاسی سمجھ کر برداشت کر لیا مگر جب انہوں نے یہ کہا کہ ٹرینوں کی رفتار 60 سے 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کر دی جائے گی تو ریلوے ملازمین سمیت عوام بھی منہ چھپا کر ہنسنے پر مجبور ہو گئے کیونکہ سب جانتے ہیں ایسا ممکن نہیں ہماری بوسیدہ پٹڑیاں اور ریلوے کے پل اس رفتار کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ یہاں تک کہ ہمارے پاس اب ایسے صحت مند انجن اور ڈبے بھی نہیں جو اتنی سپیڈ سے چل سکیں۔ ذرا رفتار تیز ہوتی ہے تو کئی ڈبے پٹڑی سے اور کئی مرتبہ تو انجن کو بھی پٹڑی سے اُتر پڑتا ہے کہ بھئی اتنا تیز ہم نہیں چل سکتے۔
اب اسی ہیوی ناشتہ کے زیر اثر شیخ جی کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف اور آصف زرداری پیسے جمع کرا دیں گے تو معلوم ہوتا ہے کہ مرغن کھانوں کا خمار شیخ جی کے دماغ پر چڑھ گیا ہے ورنہ آج تک تو یہی لگ رہے کہ ان دونوں نے اپنی گرہ ڈھیلی نہیں کی تو پیسے کہاں سے آئیں گے۔
٭٭٭٭٭٭
یمن میں نقل کی اجازت نہ ملنے پر
غیر حاضر تمام طالب علم فیل
یہ معصوم طالب علم صرف اس بنیاد پر امتحان میں نقل کی اجازت طلب کرتے پھر رہے ہیں کہ چونکہ انہوں نے پورا نصاب پڑھا نہیں اس لیے وہ امتحان میں حصہ نہیں لیں گے۔ مگر امتحان لینے والوں کو ذرا بھر بھی ان پر ترس نہیں آیا اور غیر حاضر تمام طلبہ کو فیل کر دیا۔ یہ طلبہ تو احتجاج کر رہے تھے کہ ہمیں پڑھایا ہی نہیں گیا تو امتحان کہاں سے دیں۔ افسوس خانہ جنگی نے یمن کے محکمہ تعلیم والوں کی مت مار دی ہے۔ ورنہ ہمارے ہاں جب کبھی حکومت مخالف تحریک چلتی ہے مظاہرے ہوتے ہیں ہمارا مہربان محکمہ تعلیم تو ازخود اسی ناگہانی صورت حال کی وجہ سے طالب علموں کو بنا امتحان کے ہی اگلی کلاس میں ترقی دے دیتا ہے کہ کہیں یہ بھی سڑکوں پر نہ نکل آئیں۔ اب جس ملک میں سال بھر سے خانہ جنگی جنگ و جدال جاری ہو وہاں استاد کیا خاک پڑھائے گا ، شاگرد کیا خاک پڑھے گا، یمن کے محکمہ تعلیم کو خود ہی اس پر نرم پالیسی لانی چاہئے ، جہاں دن رات مار دھاڑ بم دھماکے ، فائرنگ اور بمباری ہوتی ہو۔ وہاں تو نرمی ضروری ہے۔ ویسے بھی ہو سکتا ہے حکومت کی نرم پالیسی کی وجہ سے یہ بچے خوش ہوں اور ان کی دعائوں سے یمن پر چھائے جنگ و جدال کے بادل چھٹ جائیں۔ حکومت اور مخالفین کے دلوں میں رحم آئے اور وہ ملک و قوم کے مستقبل کے لیے فائر بندی کر لیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ایسے تمام بچوں کو پاس کیا جائے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ناراض طلبہ بھی باغیوں سے جا ملیں اور حکومت محکمہ تعلیم کو کوستی رہ جائے۔
٭٭٭٭٭٭
سعودی عرب میں سفارش کی سزا
3 برس قید ایک لاکھ جرمانہ
سعودی حکومت کا یہ فیصلہ تو سولہ آنے درست ہے۔ سفارش کا مطلب تو کھلم کھلا کار سرکار میں مداخلت ہی نہیں رکاوٹ بھی ہے۔ ایک کام ہو رہا ہے قانون کے مطابق ہو رہا ہے تو اس میں کلموئی سفارش آ کر اپنا لچ تلتی ہے۔ یوں بنا بنایا سیدھا سادہ کام بھی خراب ہو جاتا ہے۔ صاف لفظوں میں یہ غیر قانونی طریقے سے ناجائز طور پر اپنی من مانی والی بات ہے۔ جائز کام روک کر ناجائز طریقے سے من مانی کی اجازت کسی قانون میں نہیں ہے۔ ہمارے ہاں اسے تعلقات کا نام دیا جاتا ہے۔ یوں تعلقات کے نام پر شروع ہونے والی غلطی بعد میں مزید بگاڑ پیدا کرتی ہے۔ یہی بعد میں رشوت اور دبائو کا روپ بھی دھار لیتی ہے۔ سعودی عرب کی طرح ہمارے ہاں بھی یہ بیماری زوروں پر ہے۔ سعودی عرب میں اب اس کا علاج 3 برس قید اور ایک لاکھ جرمانہ مقرر ہوا ہے۔ ہمارے ہاں تو کب سے حوالے سے سزا کا ڈھول بھی بج چکا ہے۔ مگر افسوس سفارشی لوگ اسے خوشی کی نوید سمجھ کر خاطر میں نہیں لاتے۔ گرفتاریاں اور بدنامی کے باوجود لوگ اسے باعث اعزاز سمجھتے ہیں جس کی جتنی بڑی سفارش ہو اس کا اتنا بڑا نام ہوتا ہے۔ ہے نہ یہ الٹی گنگا جو یہاں بہہ رہی ہے۔ اب ہمیں بھی کڑی سزا اور بھاری جرمانہ لگا کر سفارش کا راستہ بند کرنا ہو گا۔
٭٭٭٭٭٭