کراچی سیاسی لحاظ سے کھچڑی کی ہانڈی بن چکا ہے۔ بارشوں سے تباہی کا سندھ حکمرانوں نے کیا وفاق نے بھی کوئی نوٹس نہ لیا۔ جماعت اسلامی کی بینر پوسٹر ریلی سیاست اسے زندہ رکھے ہوئے ہے۔ 50 سال پہلے بھی جماعت فحاشی عریانی مہنگائی کیخلاف ریلیاں نکالتی تھی ۔ آج بھی ایسے شو دکھا دیتی ہے۔ پیسے میں وہ جادو ہے جو نظر یں جھکا دیتا اور زبان پر تالا ڈال دیتا ہے۔ 302 کے پرچوں میں بھی تفتیش کا رخ موڑ دیتا ہے۔ شک کا فائدہ لینے کیلئے بھی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ شک انصاف کو بھی مخمصے میں ڈال دیتا ہے۔ سندھ کی سیاسی بساط فی الحال پیپلز پارٹی کے حق میں ہے۔ پاکستان میں بساط الٹتے دیر نہیں لگتی ، رات بحیثیت وزیر اعظم بستر پر دراز صبح قیدیوں کا ناشتہ کرتے رہے ہیں۔ پشاور میں اختیارات کی جنگ جاری ہے لیکن ہار جیت کے بغیر بلوچستان میں بھارت مخالف مظاہرے بلوچیوں کی بیداری کا پتہ دے رہے ہیں۔ جنوبی پنجاب ڈرامے کا سکرپٹ بھی تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ سکرپٹ کے مطابق ڈائیلاگ ریکارڈ بھی ہو جائے تب بھی سنسر بورڈ اس پر قینچی چلانے کا اختیار رکھتا ہے۔ سیاسی سنسر بورڈ کی تشکیل کا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوتا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم نہ رکا تو جنگ کا آپشن موجود ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی ہماری کوئی پالیسی نہیں جنگیں ہتھیاروں یا معیشت سے نہیں عزت ، غیرت اور عوامی اعتماد کے ساتھ لڑی جاتی ہیں۔ قوم عوامی اعتماد کا مظاہرہ 65ء کی جنگ میں دیکھ چکی ہے۔ جب 6 ستمبر کی صبح فیلڈ مارشل ایوب خان کی ریڈیو پاکستان پر آواز گونجی تھی اور ساتھ جاگ اٹھا ہے سارا وطن کا نعرہ پاکستان کے کونے کونے میں گونج رہا تھا، بھارت نئی جنگ کا بیج بو رہا ہے، کشمیر ہماری شہ رگ ہے ، کسی بھی حد تک جائیں گے خواہ کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ آخری گولی ، آخری سپاہی، آخری سانس تک افواج پاکستان پرعزم ہے۔ کشمیریوں کے حق خودارادیت کا وقت آ پہنچا ہے۔ کشمیر پر سودا ہماری لاشوں پر ہو سکتا ہے، 72 سال اس کاز سے پیچھے نہیں ہٹے اب کیوں ہٹیں گے۔ جتنی کشمیریوں نے تکالیف اٹھائیں اس سے دوگنا بھارت کو اٹھانا پڑیں گی۔ مسئلہ کشمیر پر سعودی عرب اور امارات نے او آئی سی کا خصوصی اجلاس بلانے کی حمایت کر دی ہے ۔ انہی دوستوں کے ہاتھوں مودی کے گلے میں خالص سونے کے ہار ڈالے گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور آئی سی اور یو این او کی حیثیت مودی کی نظر میں اخبار کی شہ سرخیوں سے زیادہ نہیں جن پر قاری نظر ڈال کر اخبار کو دائیں بائیں رکھ دیتا ہے۔ سفارتی محاذ پر بھارت کو شکست کرکٹ میچ میں شکست سے زیادہ نہیں۔
پارلیمنٹ کی موجودگی میں صدارتی آرڈیننسوں کے ذریعے کام چلانا پسندیدہ دکھائی نہیں دے رہا۔ سپیشل کورٹ کے تین ججوں کی برطرفی نے بھی حکومت کی طرف سے قانون کی عملداری پر سوالات اٹھائے ہوئے ہیں۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر کی پیداوار 30 فیصد گر چکی ہے۔ بڑے پیمانے کی صنعتوں کا زوال بڑے پیمانے پر مزدوروں کی چھانٹی پر منتج ہوگا۔ ٹریکٹرز اور ٹرکوں کی مارکیٹ بھی زوال پذیر ہے۔ بجلی ایک روپے 78 پیسے فی یونٹ مزید مہنگی کر دی گئی ہے۔ سیاسی محاذ پر قیدی نوازشریف واضح کر دیا ہے کہ وہ نہ ملک سے باہر جائیں گے نہ ہی مولانا فضل الرحمن کو آزادی مارچ ملتوی کرنے کا مشورہ دیں گے۔ نوازشریف کے پیروکار اور جانثار شاہد خاقان عباسی نے برسر عدالت کہہ دیا کہ جتنا مرضی ریمانڈ دے دیں میں تو وکیل بھی نہیں کروں گا۔ مہنگائی عام آدمی کا کچومر نکالے جا رہی ہے‘ بیروزگاری پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ منظور نظر صنعتکاروں کو ٹیکس کے حوالے سے عائد کردہ ٹیکس کی بھاری رقم 416 ارب کے قرضے میں سے 208 ارب روپے کی رعایت دینے کا آرڈیننس نافذ کیا تو سخت تنقید کا سامنا پڑا۔ GIDC کا آرڈیننس 2011ء میں جاری کیا گیا تھا جس کا مقصد ایران گیس پائپ لائن کی تعمیر کیلئے پیسے جمع کرنا تھا۔ کھاد کی قیمت میں اضافہ کرکے کسانوں سے جو رقم وصول کی گئی ہے اس کی واپسی ممکن ہے؟ حکومت اس سیس کو واپس بھی کرتی ہے تو کسانوں کو جو مہنگی کھاد خریدتے رہے اس کی واپسی کیسے ہوگی؟ شدید مہنگائی کے باوجود اپوزیشن تحریک چلانے میں ناکام کیوں ہے؟ یوٹیلٹی سٹورز 46 سال کے ہو گئے‘ لیکن قیمتیں اعتدال میں رکھنے میں ناکام رہے۔ ان سٹورز پر دودھ‘ چائے کی پتی‘ ہلدی‘ دھنیا‘ چینی کے نرخ نجی سٹورز سے تجاوز کر گئے ہیں۔ عمران خان اتنے فکرمند ہیں کہ معیشت بارے ہفتہ وار میٹنگ کر
رہے ہیں‘ تاہم انہیں پولیس کی ماورائے عدالت لاقانونیت اور انسانیت سوزی پر غور کیلئے بھی میٹنگز کرنا چاہئے۔ وہ داخلی اور خارجی (کشمیر) محاذوں پر برسرپیکار ہیں۔ معیشت کی کھٹارا گاڑی اب دھکا سٹارٹ نہیں رہی۔ تاجروں کو نیب کے شکنجے سے باہر رکھنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اب تک تو سرمایہ کار نیب سے بدکے ہوئے ہیں۔ زرداری کے خیال میں نیب اور اکنامک گروتھ ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔ گیس ٹائیکون اقبال زیڈ احمد 100 ارب سے زائد کی ناجائز کمائی کے الزام میں نیب کی حوالات میں جا پہنچے ہیں۔ بجٹ خسارہ آج بھی 3.45 کھرب روپے جی ڈی پی کا 8.9 فیصد بنتا ہے۔ قرضہ 40.2 کھرب روپے کی حد کو چھو رہا ہے۔ ایک سال میں چینی 20 روپے کلو‘ بکرے کا گوشت 84 روپے کلو اور کوکنگ آئل 4 کے جی کا ڈبہ 82 روپے مہنگا ہوا ہے۔ نان روٹی کی قیمتیں بھی من مانی ہیں۔ نائی‘ درزی ‘ حلوائی‘ بیکری‘ دھوبی‘ سبھی ریاست کی پابندیوں سے آزاد ہیں۔ منڈیوں کے آڑھتیوں پر کون ہاتھ ڈال سکتاہے۔ ریڑھی والے اور رکشا ڈرائیوروں کی بے باکی ایک جیسی ہے۔ اکیڈمیاں سونے کے سکوں کی ٹکسال ہیں۔ پیپر مارکنگ‘ امتحانی ڈیوٹیوں‘ ٹیوشنوں سے اساتذہ کا جی نہیں بھرتا۔ پھر سلام ٹیچر مار نہیں پیار کو پس پشت ڈالنے والے ایک درندہ صفت بے رحم ٹیچر نے 10 ویں کا حافظ قرآن طالبعلم مار ڈالا۔ ہم مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا رونا روتے ہیں۔ پولیس کے نجی عقوبت خانے ارباب بست وکشاد کو کیوں دکھائی نہیں دیتے۔ نقیب اللہ محسود‘ پروفیسر ارمان بوبی‘ سانحہ ساہیوال اور صلاح الدین کی بے رحمانہ موت کا ذمہ دار کون ہے۔ 16 ستمبر کو آئی ایم ایف کے نکیرین سرکار سے سوالوں کیلئے آرہے ہیں کہ ہماری کتنی اطاعت کی؟ شبر زیدی نے فائلرز کی تعداد میں 69 فیصد ا‘ضافہ کیا ہے۔ شمالی چھائونی میں ایک کرسچین لڑکا عامر پولیس نے مار دیا۔ پولیس حراست میں ہلاکتیں حکمرانوں کا ضمیر کب جھنجھوڑیں گی؟
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024