بھارت، پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے افغانستان میں غیر یقینی حالات کا تسلسل چاہتا ہے:عبدالباسط
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے کہا ہے کہ بھارت، پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے افغانستان مین غیر یقینی حالات کا تسلسل چاہتا ہے۔ امریکہ اور پاکستان کی سفارتی تاریخ میں اتار چڑھاو آتے رہے ہیں۔ پاک امریکہ سفارتی تعلقات میں اتار چڑھاو کی بنیادی وجہ باہمی مفادات میں تضاد ہے، ۔ وقت نیوز کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں ہمارا مفاد قیام امن میں ہے۔افغانستان میں قیام امن کے ساتھ پاکستان کی ترقی مربوط ہے۔ بھارت کا افغانستان میں بنیادی مفاد وہاں غیر یقینی صورتحال کے تسلسل میں ہے۔افغانستان میں غیر یقینی صورتحال کے تسلسل سے بھارت کا مقصد پاکستان کی مغربی سرحد کو غیر محفوظ رکھنا اور وہاں عدم استحکام ہے۔بھارت افغانستان میں عدم استحکام چاہتا ہے تاکہ پاکستان کی ترقی ممکن نہ ہو سکے۔ہمارے لئے بڑا چیلنج امریکہ کو سمجھانا ہے کہ افغانستان میں پاک امریکہ مفادات مشترکہ ہیں اور ان میں اختلاف نہیں ہے،۔ امریکہ کو سمجھانا ہو گا کہ افغانستان میں قیام امن کے لئے امریکہ کو پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا ۔ ہمیں اپنی ملکی سفارت کاری میں تھوڑی توانائی پیدا کرنا ہو گی، ۔پاکستان کو امریکہ کی سول سوسائٹی، تھنک ٹینکس اور امریکی میڈیا تک رسائی حاصل کرنا ہو گی۔ بھارت پاکستان سے اپنی شرائط پر بات چیت چاہتا ہے۔ بھارت اس وقت جموں و کشمیر پر مذاکرات میں قطعا دلچسپی نہیں رکھتا۔جموں و کشمیر پاکستان کے لئے ایک بنیادی مسلہ ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام جنگیں دہشت گرد واقعات سے پہلے لڑی گئیں ۔: اس وقت دکھائی نہیں دیتا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ کوئی نتیجہ خیز بات چیت چاہتا ہے۔: بھارت کی جموں و کشمیر کے حوالے سے پالیسی انتہائی خطرناک ہے۔بھارت کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوتے تو بھلے نہ ہوں۔ بھارت نے مذاکرات کے نام پر جو فساد بنا رکھا ہے اس کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا ہو گا۔ پاک بھارت مذاکرات سے زیادہ اہم ان مذاکرات کا نتیجہ خیز ہونا ہے۔ہمیں پاک بھارت مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے کام کرنا چاہئے، ۔ خواہش ہے کہ بھارت کے ساتھ تمام مسائل حل ہوں ۔مسئلہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی اعتماد سازی کی کمی کی بنیادی وجہ ہے۔جموں و کشمیر کے عوام پرعزم ہیں کہ وہ جموں و کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ تسلیم نہیں کریں گے۔کشمیری جانیں تو دے دیں گے تاہم جموں و کشمیر پر بھارتی قبضہ تسلیم نہیں کریں گے۔ جموں و کشمیر کے مسلہ پر انتہائی فعال سفارت کاری کی ضرورت ہے۔ کشمیر پر مربوط سفارتکارانہ پالیسی کی ضرورت ہے۔