ہفتہ ‘17 ذوالحج 1438ھ‘ 9 ستمبر2017
بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں، انہیں لیڈر کیسے مانا جا سکتا ہے: چودھری نثار
غالباً اُنہیں یہ کہنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی، کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے سیاست میں اُن لوگوں کو پذیرائی ملنا شروع ہو گئی ہے۔ جو عمر میں اُن سے نصف ہیں۔ مگر یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ چودھری صاحب مانے ہوئے سیاستدانوں کی پہلی صف میں بھی بہت نمایاں مقام کے حامل ہیں لیکن اُن کی پچھلی صفوں میں بعض ایسے ”بچے“ بھی ہیں جن پر ذرا سی توجہ دی جائے یا کوئی اچھا اُستاد، مثل نواز شریف یا آصف زرداری مل جائے، تو وہ پہلوں سے آگے نکلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان ہونہار برووں کے پات کتنے چکنے ہیں۔ اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ وہ جہاں کھڑے ہو جاتے ہیں، انہیں دیکھنے یا سننے کیلئے مجمع خودبخود اکٹھا ہو جاتا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ وہ سیاستدان جو اس وقت ستر کی عمر کے قریب ہیں، جلد ایسی عمر کو پہنچنے والے ہیں جنہیں پنجابی میں ستریا بہتریا کہتے ہیں۔ بہرکیف یہی بچے آگے بڑھ کر سیاست کے میدان کے خلا کو پُر کریں گے۔ اگر تو جناب کا اشارا سیاست میں نئے داخل ہونے والوں کی غلطیوں کی طرف ہے تو یہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میدان کے ”اساتذہ“ سے بھی سنگین غلطیاں سرزد ہوئی ہیں۔ بلکہ بعض ساٹھے باٹھے سیاستدان تو اب بھی تعمیر سے زیادہ تخریب کے ماہر کی شہرت رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہی نہیں، ہمسایہ ملک بھارت میں بھی سیاست کے رنگ ڈھنگ کچھ ایسے ہی ہیں۔ نہرو آنجہانی ہوئے تو سپتری اندرا کے ابھی گڑیوں سے کھیلنے کے دن تھے۔ اندرا گاندھی قتل ہوئی تو جس بیٹے کو سیاست کی وراثت سونپنے اور جانشین بنانے کا ارادہ رکھتی تھیں وہ (سنجے) موصوفہ کی زندگی میں ہی پرلوک سدھار گئے۔ چنانچہ ”راج سنگھاسن، راجیو کے ہاتھ لگا، جو پیشے کے لحاظ سے پائلٹ تھا۔ راجیو کے قتل پر اُن کی اٹالین نژاد بیوی سونیا نے کانگرس کی باگ ڈور سنبھالی۔ اب آگے راجیو کے بیٹے اور بیٹی راہول اور پریانکا بھی میدان سیاست میں ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ چودھری صاحب کو بعض نوجوانوں کی سیاست میں آمد، اور سٹیرنگ سنبھال لینے سے یہ خدشہ پیدا ہوا ہو، کہ وہ ناتجربہ کاری کے باعث کوئی حادثہ نہ کر بیٹھیں، لیکن اس کا حل، مریم نواز، اور مرحومہ بے نظیر بھٹو کا تقابل کرنا نہیں، بلکہ ان کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ رہا یہ اعتراض، کہ ”بچوں“ کو لیڈر کیسے مانا جا سکتا ہے؟ تو ہم عرض کریں گے۔ آپ تھوڑا توقف فرمائیں۔ یہ فیصلہ آنے والا زمانہ کرے گا۔
٭....٭....٭
جرمن مزاح نگار کی چانسلر مرکل کو عدالت لے جانے کی دھمکی
جرمنی کی سربراہ چانسلر انجلینا مرکل نے جرمن مزاح نگار بوہمرہان کی ترک صدر پر لکھی نظم کو توہین آمیز اور جذبات کو مجروح کرنے والی قرار دے دیا۔ اس پر مزاح نگار بھڑک اُٹھے اور کہا چانسلر مرکل کے ریمارکس سے میرے جذبات سخت مجروح ہوئے ہیں۔ اگر موصوفہ نے معافی نہ مانگی تو میں انہیں عدالت لے جا¶ں گا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جرمن مزاح نگار بھی، کچھ زیادہ ہی تنک مزاج واقع ہوئے ہیں کہ جو اتنی سی بات کو دل پر لگا بیٹھے۔ ورنہ ادب سے تعلق رکھنے والے جانتے ہیں کہ ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے۔ نقاد حضرات تو جو کرتے ہیں سو کرتے ہیں، عام لوگ بھی، نہیں معاف کرتے، میر تقی میر جن کے بارے میں غالب کہا کرتے تھے۔ ”کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا“ موصوف کسی ایسے کو منہ نہیں لگاتے تھے، جو اُردوئے معلیٰ سے آشنا‘ آگاہ نہ ہو۔ فارسی کا یہ مشہور مصرع کس نے نہیں سُنا ....ع
سخن شناس نہ ای دلبرا خطا ایں جا است
ادب کی کتابوں میں اس مصرع کی شانِ نزول کچھ اس طرح بیان کی گئی ہے کہ ایک دن حضرت نے محبوبہ کی شان میں، کچھ ایسے شعر کہے، جن میں استعمال کی جانے والی تشبیہات میں، رشک چمن غنچہ دہن، آہو چشم، اور غزال صحرا بھی شامل تھیں۔ رقیب کی بن آئی، اُس نے موصوفہ کو خوب لون مرچ لگا کر بھڑکایا کہ حضرت نے آپ کو پرندوں اور حیوانوں سے ملا دیا ہے۔ بس یہ سننا تھا کہ اُس نے شاعر صاحب کو جواب میں خوب سنائیں جس پر اُنہیں یہ مصرع کہنا پڑا کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ رونا یہ ہے کہ آپ سخن شناس اور سخن فہم نہیں۔ اسی طرح ایک اور قصہ ہے۔ حافظ شیرازی نے شعر کہا
گر آں ترک شیرازی بدست آرد دل مارا
بخال ہندوش بخشم سمرقند و بخار را
ترجمہ: اگر محبوبہ ہم سے محبت کرنے لگے، تو ہم اُس کے گال کے تل پر سمرقند و بخارا نچھاور کر دیں۔
امیر تیمور نے سُنا تو حافظ صاحب کو طلب کر کے فرمایا، حضرت! آپ کو معلوم ہے جس سمرقند و بخارا کو آپ محبوب کے تل پر وار رہے ہیں۔ ان دونوں شہروں کو ہم نے ہزاروں لوگوں کی قربانی دے کر فتح کیا ہے۔ حافظ صاحب نے جواب دیا۔ عالی جاہ! ایسی فضول خرچیوں نے تو ہمیں اس حال کو پہنچایا ہے۔ ورنہ ہم پیدائشی قلاش نہ تھے۔
٭....٭....٭
کھانوں کو سجا کر پیش کرنے کا منفرد فن
بتایا گیا ہے کہ ملائشیا کی ایک خاتون ذاکر یہ کھانوں کو سجا کر پیش کرنے کا منفرد فن جانتی ہیں کہ جنہیں دیکھتے ہی بھوک چمک اُٹھتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بھوک ایسے چونچلے کی محتاج نہیں۔ ایسے طریقے وہ ڈھونڈتے ہیں۔ جو بھاگ دوڑ یا محنت مشقت کا کام نہیں کرتے۔ کھایا اور کرسی پر بیٹھ گئے یا کھایا اور سو گئے۔ ایسے ہی لوگ ہیںجن سے ڈاکٹروں کے کلینک آباد ہیں یا چورن بکتے ہیں۔ آج سے ساٹھ ستر سال پہلے، پنجاب کا کلچر یہ تھا کہ سالن کم ہی پکتے تھے۔ خصوصاً دیہات میں تو بہت ہی کم رواج تھا، بڑا کسی نے کیا تو دالیں یا چنے پکا لئے، ورنہ اکثر یہ ہوتا تھا کہ تنور کی روٹی لسی میں نمک ملا کر کھا لی۔ اچار یا گڑ سے کھا لیا۔ پیاز چھیلا، ہتھیلیوں میں دبا کر نرم کیا، روٹی کھا لی۔ کچھ زیادہ چٹا پٹا کھانے کو جی چاہا تو داوری (کنڈی) میں مرچ اور دھنیا پیس کر کھا لیا، تب لوگوں کی صحت کا یہ عالم تھا کہ مشہور ترک ادیبہ خالدہ ادیبہ خانم نے تیس کے عشرے میں برصغیر کی سیاحت کی یہاں انہوں نے علامہ اقبال سمیت مسلم مشاہیر سے ملاقات کی۔ واپس جا کر سفرنامہ لکھا، لکھتی ہیں: سارے برصغیر میں پنجابی زیادہ اونچے لمبے، چوڑے چکلے اور صحت مند ہیں۔ ایسے ”کھابے“ ہی ایسے لوگ پیدا کر سکتے ہیں۔