جو شخص بھی غریبوں ‘ مسکینوں ‘ یتیموں‘ بیوا¶ں‘ ناداروں ‘ کسانوں‘ مزدوروں‘ محروموں اور مستضعفین کی حمایت کرتا ہے اسے رجعت پرست اور مذہبی ٹھیکیدار اشتراکی اور مارکسی قرار دے کر دہریہ ‘ لادین اور واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ بھارت میں جب مشہور انقلابی شاعر ساحر لودھیانوی کی کتاب ”تلخیاں“ شائع ہوئی تو اسے گردن زنی قرار دیا گیا۔ ملحد و کافر کا فتویٰ صادر ہوا۔ فیض احمد فیض کو اشتراکی تو بجا کہا گیا لیکن وہ مارکسی یا لادین نہیں تھے۔ انہوںنے اردو اور پنجابی زبان میں لازوال شاعری کی۔ زندگی میں فارسی زبان میں صرف ایک تخلیق کی وہ نعت رسولﷺ تھی۔ ان کے آخری مجموعہ کلام بعنوان ”غیار ایام“ میں وہ نعت موجود ہے دو شعر پیش کرتا ہوں ....
اے تو کہ ہست ہر دل محزوں سرائے تو
آوردہ ام سرائے دگر از برائے تو
باید کہ ظالمان جہاں را صدا کند
روزے بسوائے عدل و عنایت صدائے تو
اس نعت شریف میں فیض احمد فیض ”ظالمان جہاں“ سے بیزاری اور ”عدل و عنایت“ کی خواستگاری کے متمنی ہیں۔ نقش فریادی میں ایک نظم بعنوان ”رقیب سے“ میں غریبوں کے درد کو یوں بیان کرتے ہیں....
عاجزی سیکھی غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے رخ زرد کے معنی سیکھے
غریبوں اور زیردستوں کی حمایت ہی معراج تحریر ہے۔ یہ غالباً 1974ءکی بات ہے۔ فیض صاحب نیشنل آرٹس کونسل کے چیئرمین تھے۔ اسلام آباد میں ان کا دفتر تھا۔ میں اکثر ان سے ملنے جاتا تھا۔ انہوںنے اپنے دفتر کی دیوار پر ”ان الدین عنداﷲ الاسلام“ کی تختی لگوا رکھی تھی۔ اﷲ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ یہ کتبہ لگانے کا مقصد وحید یہ تھا کہ وہ انقلابی مسلمان ہیں۔ اشتراکی ہیں لیکن لادین نہیں ہیں۔ اسلام پر ان کا مکمل اعتقاد و ایمان ہے۔
ڈاکٹر مرزا جو کہ راولپنڈی میں اپنا کلینک چلاتے تھے۔ فیض صاحب کے قریبی حلقہ احباب میں سے تھے۔ ان سے میری بھی دوستی تھی۔ انہوں نے فیض صاحب کی یادوں پر ایک کتاب بعنوان ”ہم کہ ٹھہرے اجنبی“ لکھی۔ اس کتاب میں انہوں نے لکھا ہے کہ فیض صاحب سے میں نے ان کے مذہب و مسلک کے بارے میں استفسار کےا تو انہوں نے کہا۔ ” مےر امسلک وہی ہے جو حسرت موہانی کا مسلک تھا“حسرت موہانی کا مسلک کےا تھا۔ وہ توحےد ، اشتراکےت = اسلام قرار دےتے تھے۔ گوےا توحےد و اشترکےت پر ان کا اےمان تھا۔ اشتراکےت کو انگرےزی زبان مےںسوشلز م کہتے ہےں۔ اور اشتما لےت کو کمےونزم کہتے ہےں۔ کےمونزم کی بنےاد تےن چےزوں پر ہے۔ دہرےت ، آمرےت اور اشتراکےت۔ کمےونسٹ خدا پر ےقےن نہےں رکھتا وہ کائنات کی مادی تعبےر کرتاہے۔ وہ دہرےہ ہوتا ہے۔ کمےونزم مےں جمہورےت کی گنجائش نہےں”اےک جماعتی“ نظام ہوتاہے ۔ کمےونسٹ پارٹی سفےد و سےاہ کی مالک ہوتی ہے۔ کثےر الجماعتی جمہوری سےاست کی اس نظام مےں کوئی گنجائش نہےں۔ انگلستان کے فلسفی برٹر ےنڈ رسل نے روس کے نظام کے خلاف کتاب لکھی جس کا نام شاہراہ غلامی Road To Serf Dom)) ہے۔ اشتراکےت کمےونزم کا معاشی نظام ہے ۔ اس نظام اقتصادےات مےں تمام ذرائع پےدا وار رےاست کی رےاستی ملکےت ہوتے ہےں۔ قدرتی ذرائع پےداوار زمےن اور معدنےات انفرادی ملکےت کی بجائے رےاستی ملکےت ہوتے ہےں۔ غےر قدرتی ذرائع پےداوار ےعنی تجارت، صنعت ، تعلےم و صحت کے محکمہ جات مےں بھی انفرادی آزادی نہےں ہوتی۔ روز گار بھی رےاست کے ہاتھ مےں ہوتا ہے۔ روٹی، کپڑا، مکان، تعلےم وصحت کے معاملات کی ذمہ داری رےاست کی ہوتی ہے جو کہ خوش آئندہ بات ہے لےکن روز گار مےں آزادی کا نہ ہونا اشترا کی رےاست کو ”زندان“ بنا دےتا ہے۔ ہر شخص کی بنےادی ضرورےات کو پورا کرنا اشترا کی رےاست کی ذمہ داری ہے۔ ضرور ت سے زائد دولت ارتکاز دولت کا سبب بنتی ہے جو سر ماےہ داری نظام کو جنم دےتی ہے۔ علامہ اقبال نے روس کے اشترا کی انقلاب کو خوش آمدےد کہا تھا اور سرماےہ داری کے خلاف اسے گرز آہنی تصورکرتے ہوئے کہا
قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے ےہ معلوم
بے سود نہےں روس کی ےہ گرمئی رفتار
جو ”حرف قل العفو“ مےں پوشےدہ تھی اب تک
اس دور مےں شاید وہ حقےقت ہو نمودار
”قل العفو“ کےاہے۔ قران مجےد مےں ارشاد بانی ہے۔ ”ےہ تجھ سے پوچھتے ہےں کہ ہم (اللہ کی راہ) مےں کےا خرچ کرےں۔ کہوضرورت سے زےادہ (خرچ کردو)“۔ بنےادی ضرورےات انسانی سے زےادہ دولت رکھنا خلافِ حکم قرآن ہے۔مارکسی اشتراکےت اور اسلامی اشتراکےت مےں کےا بنےادی فرق ہے۔ ”اسلامی سوشلزم“ ایک جدید اصطلاح ہے۔بانی پاکستان قائد اعظم اور ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اس اصطلاح کو استعمال کیا ہے۔ اس جدید انقلابی فکر کو علامہ اقبال کی بھی تائید حاصل تھی۔ اس سے مراد یہ ہے کہ قدرتی ذرائع پیداوار زمین اور معدنیات ریاست اسلامی کی ملکیت ہیں اور غیر قدرتی ذرائع پیداوار تجارت و صنعت ‘ ملازمین اور روزگار میں افراد آزاد ہیں۔ ریاست اسلامی میں جاگیر داری ممنوع ہے۔ ریاست اسلامی زمین کو کسانوں کو پٹہ پر د ے سکتی ہے لیکن زمین کی انفرادی ملکیت اور وراثت غیر اسلامی ہے۔ افسوس صد افسوس اسلامی ممالک میں جاگیرداری بھی ہے اور عوام کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کا بھی کوئی ریاستی سطح پرانتظام نہیں۔ مارکس ازم کے برخلاف اسلام میں نظریہ توحید ہے۔ آمریت و فسطائیت کے برعکس مشاورت و خلافت ہے جسے اجتہادی نقطہ نظر سے اسلامی جمہوریت کہا جاتا ہے جس کی تائید مولانا مودودی نے بھی ”خلافت و ملوکیت“ میں کی ہے۔ توحید‘ جمہوریت اور مساوات اسلام کے بنیادی ارکان معاشرت ہیں۔ اسلامی سوشلزم کو میں ”مساوات محمدی“ کہتا ہوں۔ قرآن مجید نے جا بجا حرص زر اور ارتکاز زر کی مذمت و ممانعت کی ہے۔ سورہ ماعون میں یتیموں اور مسکینوں کی اعانت نہ کرنے والے کو ”تکذیب دین“ قرار دیا گیا۔ سورة الھمزہ میں مال جمع کرنے والوں کی شدید الفاظ میں ملامت کی گئی اور ان کا ٹھکانہ جہنم قرار دیا گیا۔ ”حطمہ“ میں ان کو جلایا جائے گا۔ یہ وہ آگ ہے جو انہیں بھسم کر دے گی۔ محبان زر اور مساکین و یتامیٰ کی امداد نہ کرنے والے اور وراثتی مال کو ہڑپ کرنے والے خائین و زر پرستوں کی سورة الفجر میں ملامت و مذمت اور عذاب آخرت کی وعید ہے۔ تاریخ کا یہ عظیم ستم ہے کہ حاملین و داعیان اسلام صدیوں سے ملوکیت و ملائیت ‘ خانقاہیت و ثیخیت ‘ جاگیرداری و سرمایہ داری ‘ فرقہ پرستی و رجعت پرستی ‘ تاریخی ‘ شخصی ‘ گروہی‘ قبیلائی‘ مسلکی ‘ فقہی اور نظری اختلافات کا بری طرح سے شکار ہیں۔ آمریت‘ عسکریت‘ فسطائیت اور طاغوت و جبروت کی زد میں ہیں۔ ہمیں مارکسی نہیں محمدی نظام مساوات کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اہل زر ہی اہل زور ہیں۔ سیاست موروثی ہے۔ صاحبان حکمت جب تک صاحبان حکومت نہیں ہوں گے قوم ذلیل و رذیل رہے گی۔ میرے کالم کا مستقل عنوان ”حکمت و حکومت“ ہے۔ پاکستان میں مذہبی جماعتیں مسلکی جماعتیں ہیں۔ فرقہ واریت کی نمائندہ ہیں۔ سیاسی جماعتیں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی لونڈیاں ہیں۔ پاکستان کی بقاءجمہوریت و مساوات پر ہے۔ صاحب ایمان و ایقان ‘ صاحب دانش و بینش اور صاحب دیانت و فطانت نئی نسل سے میری پرزور اپیل ہے کہ وہ ”تحریک مساوات محمدی“ کا پرچم اٹھائیں اور قیام اسلام حقیقی کے لئے صف بستہ ہو کر نعرہ زن ہوں ”میں مارکسی نہیں محمدی ہوں“
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38