برطانوی پارلیمنٹ میں 11ستمبر کو مسئلہ کشمیر پر بحث کا فیصلہ اور وزیراعظم آزاد کشمیر کی خطرناک بھارتی عزائم کی نشاندہی…علاقائی اور عالمی امن کی خاطر اب مسئلہ کشمیر بہرصورت حل کرنا ہوگا
برطانوی پارلیمنٹ نے بھارتی اعتراض مسترد کرتے ہوئے 11 ستمبر کو مسئلہ کشمیر پر بحث کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بحث برطانوی پارلیمنٹ میں قائم آل پارٹیز کشمیر کمیٹی نے طے کی تھی‘ آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی آزاد کشمیر کے مرکزی رہنماء بیرسٹر سلطان محمود نے اس سلسلہ میں بتایا کہ برطانوی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر پر بحث کیلئے برطانیہ میں مقیم کشمیری اور پاکستانی عوام نے اہم کردار ادا کیا ہے جبکہ بھارت نے اس پر اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرایا تھا جو برطانوی حکومت نے مسترد کردیا اور باور کرایا کہ مسئلہ کشمیر پر بحث ضروری ہے۔ قبل ازیں برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور برطانوی وزیر خارجہ کو مراسلات بھجوا کر مسئلہ کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عالمی برادری کی توجہ مبذول کرائی تھی۔ بیرسٹر سلطان محمود چودھری نے اسی معاملہ میں برطانوی پارلیمنٹیرینز سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے برطانوی رکن پارلیمنٹ لارڈ قربان حسین سے مفصل تبادلہ‘ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اب مسئلہ کشمیر برطانوی پارلیمنٹ اور ہائوس آف لارڈز میں جارحانہ انداز میں اٹھایا جانا ضروری ہو گیا ہے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو رکوانے کیلئے بھارت پر دبائو بڑھایا جاسکے۔
کشمیر کا مسئلہ درحقیقت برطانیہ کا ہی پیدا کردہ ہے اور اس سنگین مسئلہ کے طول اختیار کرنے سے علاقائی اور عالمی امن کو لاحق ہونیوالے سنگین خطرات کو ٹالنے کیلئے برطانیہ کو ہی مسئلہ کشمیر کے قابل قبول حل کی جانب پیش رفت میںاپنا کردار بروئے کار لانا چاہیے۔ دیرآید درست آید کے مصداق اب برطانوی پارلیمنٹ اور حکومت کو دیرینہ مسئلہ کشمیر کے حل کی کوئی راہ نکالنے کا احساس ہو گیا ہے تو اب یہ موقع ضائع نہیں جانے دینا چاہیے۔
اگر تقسیم ہند کے مراحل میں تقسیم ہند کے متفقہ فارمولے کے مطابق آزاد ریاستوں حیدرآباد دکن‘ جوناگڑھ‘ مناوادر کی طرح کشمیر کے مستقبل کا بھی اسی وقت فیصلہ کرلیا جاتا تو قیام پاکستان کے ساتھ ہی مسئلہ کشمیر کبھی جنم نہ لیتا۔ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق فطری امر تھا جس کیلئے کشمیری عوام قیام پاکستان سے قبل اپنے لیڈر چودھری غلام عباس کے طلب کردہ اجتماع عام میں پہلے ہی پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر چکے تھے مگر اس وقت کی بھارتی لیڈر شپ نے پاکستان کو شروع دن سے ہی کمزور کرنے کی اپنی مخصوص نیت کے تحت برطانوی وائسرائے سے ملی بھگت کرکے کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا جس پر کشمیری عوام کو مایوسی ہوئی اور انہوں نے پاکستان کے ساتھ اپنے الحاق کی خاطر منظم ہونا شروع کر دیا جبکہ بھارت نے بدنیتی کے تحت اپنی افواج جموں و کشمیر میں داخل کرکے اسکے بڑے حصے پر زبردستی اپنا تسلط جمالیا اور پھر اس وقت کے بھارتی وزیراعظم کشمیر کا اپنا ہی پیدا کردہ تنازعہ طے کرانے کیلئے اقوام متحدہ جا پہنچے۔ یہی وہ بھارتی گھنائونی سازش تھی جس کے توڑ اور مزاحمت کیلئے کشمیری عوام نے گوریلا جنگ کا آغاز کیا اور اپنی آزادی تک یہ جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس تناظر میں یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ علاقائی امن وآشتی کو خود متعصب بھارتی لیڈر شپ نے تاراج کیا جبکہ بانیٔ پاکستان قائداعظم کی اعلان کردہ شہ رگ پاکستان کشمیر پر بھارتی تسلط ختم کرائے بغیر آزاد و خودمختار پاکستان کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی قراردادوں کے ذریعے کشمیری عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور بھارت کو کشمیر میں استصواب کے انتظامات کی ہدایت کی‘ اسکے برعکس بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے کر آئین میں ترمیم کی اور مقبوضہ وادی کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا۔ اس بھارتی بدنیتی سے ہی پاکستان بھارت باہمی تنازعات پیچیدہ ہوئے جس سے علاقائی ہی نہیں‘ عالمی امن و سلامتی کو بھی سنگین خطرات لاحق ہوگئے۔ بھارت نے کشمیر پر اپنی ہٹ دھرمی برقرار رکھنے کی خاطر پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیں اور مکتی باہنی کی سازش کے تحت اسے سقوط ڈھاکہ کے سانحہ سے دوچار کیا جس کے بعد باقیماندہ پاکستان کی سلامتی بھی ختم کرنے کی نیت سے اس نے 1974ء میں ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی۔ بھارتی لیڈر شپ کے پیدا کردہ یہی وہ حالات تھے جب پاکستان کو بھارتی تسلط سے اپنی شہ رگ کشمیر کو نجات دلانے کے علاوہ اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے بھی بھارتی ایٹمی صلاحیتوں کا توڑ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس تمام تر صورتحال اور پاکستان بھارت دوطرفہ کشیدگی کا مسئلہ کشمیر کے یو این قراردادوں کے مطابق حل کی صورت میں ہی تدارک کیا جا سکتا تھا جس کیلئے برطانیہ چاہتا تو یو این قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اپنا کردار ادا کر سکتا تھا مگر برطانیہ کی جانب سے دانستہ طور پر بھارت کی سائیڈ لیتے ہوئے اس مسئلہ کو مزید پیچیدہ بنایا گیا جس سے لامحالہ بھارت کے حوصلے مزید بلند ہوئے اور اس نے پاکستان کی سلامتی کیخلاف تیار کی گئی اپنی سازشوں کے تحت پاکستان کو اسکے حصے کے پانی سے بھی محروم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جس کی خاطر بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی جانب آنیوالے دریائوں پر چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر اپنی سازشی تھیوری کو عملی جامہ پہنایا۔ ان حالات میں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کشمیری باشندوں نے عالمی پلیٹ فارموں پر اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں میں کشمیر ایشو کو اجاگر کرنے کا سلسلہ شروع کیا جبکہ کشمیری حریت پسندوں نے بھارتی فوجوں کے مظالم کا سامنا کرتے اور جانی و مالی قربانیاں دیتے ہوئے اپنی آزادی کی جدوجہد بھی ماند نہ پڑنے دی۔ اس جدوجہد کے نتیجہ میں ہی کشمیر کا مسئلہ عالمی برادری کے سامنے ایک اٹل حقیقت بن کر اجاگر ہو چکا ہے اور ایمنسٹی انٹرنیشنل ‘جموں و کشمیر ہیومن رائٹس کمیشن اور انسانی حقوق کی دوسری عالمی تنظیموں کی رپورٹوں میں بھارتی مظالم کی نشاندہی کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ بند کرنے پر زور دیا جا چکا ہے۔ یورپی یونین ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کی بنیاد پر بھارت میں یورپی ممالک کے ساتھ تجارت کرنے پر پابندیاں بھی عائد کر چکی ہے۔ جموں و کشمیر ہیومن رائٹس کمیشن دنیا بھر کو باور کرا چکا ہے کہ بھارتی فوجوں کے تسلسل کے ساتھ جاری رکھے گئے مظالم سے پانچ لاکھ سے زائد کشمیری باشندے جانوں کی قربانیاں پیش کر چکے ہیں۔ اسی طرح ایمنسٹی انٹرنیشنل کے وفد نے مقبوضہ کشمیر میں اجتماعی قبروں کی بھی نشاندہی کی اور بھارت کی جانب سے بدنام زمانہ ٹاڈا اور پوٹا کے قوانین کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے بھی دنیا کو آگاہ کیا۔ یہی وہ حالات ہیں جب دنیا میں کشمیری عوام کو حق خودارادیت دلانے کی تڑپ پیدا ہوئی‘ چنانچہ یورپی پارلیمنٹ میں بھی متفقہ قرارداد کے ذریعے بھارت سے کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا تقاضا کیا گیا۔ یو این سیکرٹری جنرل نے بھی کشمیری عوام پر بھارتی مظالم بند کرانے کی ضرورت پر زور دیا۔ امریکہ‘ برطانیہ اور چین کے سربراہان مملکت کی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ثالثی کے کردار کی پیشکشیں کی گئیں اور مسئلہ کشمیر باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا جبکہ اب اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی میں بھی مسئلہ کشمیر حل کرانے کی قرارداد آچکی ہے۔ اسکے برعکس مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور اسکی ہٹ دھرمی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ دنیا گواہ ہے کہ پاکستان بھارت مذاکرات کے ہر رائونڈ کو کشمیر کا تذکرہ ہوتے ہی خود بھارت نے سبوتاژ کیا ہے اور بھارت کی مودی حکومت نے تو بزور کشمیر کا ٹنٹا ختم کرنے کی ٹھان رکھی ہے جس کی خاطر مودی حکومت کی جانب سے سرحدی کشیدگی کو انتہاء درجے تک پہنچایا گیا ہے۔ بھارتی آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام کی خصوصی حیثیت ختم کرکے وہاں ہندوئوں کو غلبہ دلانے کی سازش کی گئی ہے اور گزشتہ ماہ 25 اگست کے طے شدہ پاکستان بھارت خارجہ سیکرٹریوں کے مذاکرات کی میز بھی الٹا دی گئی ہے جبکہ اب عندیہ دیا جا رہا ہے کہ اس ماہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستان بھارت وزراء اعظم کی ملاقات کا بھی کوئی امکان نہیں۔ ان بھارتی عزائم کو بھانپ کر ہی گزشتہ روز آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار یعقوب نے باور کرایا ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی کے عزائم انتہائی خطرناک ہیں جو آزاد کشمیر پر پھر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کے ساتھ بھارت کی جانب سے بڑھائی جانیوالی کشیدگی کے باعث ہی اقوام عالم کو عالمی امن سلامتی تاراج ہوتی نظر آرہی ہے کیونکہ دونوں ایٹمی قوتوں پاکستان اور بھارت میں اگر کشمیر ایشو پر دوبارہ جنگ ہوتی ہے جس کی فضا خود بھارت بنا رہا ہے تو یہ جنگ صرف مخصوص علاقے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پوری اقوام عالم اسکی زد میں آسکتی ہیں۔ یہی وہ احساس ہے جو اب برطانوی پارلیمنٹ میں بھی اجاگر ہو رہا ہے اور برطانوی حکومت کی رضامندی سے 11ستمبر کو برطانوی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر پر بحث کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ اگر عالمی طاقتیں اس احساس کے تحت ہی مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کردار ادا کرنے پر سنجیدہ ہوتی ہیں کہ یہ مسئلہ عالمی تباہی پر منتج ہو سکتا ہے تو اب ماضی کی طرح محض روایتی جمع خرچ سے کام نہیں لیا جانا چاہیے۔ اب یو این جنرل اسمبلی میں بھی کشمیر ایشو پر قرارداد آچکی ہے اس لئے برطانوی پارلیمنٹ کو بھی اس قرارداد کی بنیاد پر کشمیری عوام کو حق خودارادیت دلانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہی مسئلہ کشمیر کا پائیدار اور تمام فریقین کیلئے قابل قبول حل ہے۔ اگر برطانیہ چاہے تو کشمیر کو متنازعہ بنانے کی اپنی سابق غلطی کا ازالہ کر سکتا ہے جس سے علاقائی اور عالمی امن کی بھی ضمانت حاصل ہو جائیگی۔ بصورت دیگر پاکستان کے پاس اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے اپنی ایٹمی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے سوا اور کیا چارہ کار رہ جائیگا۔