نیٹ کا استعمال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔بچوں نے بڑوں کو پیچھے چھوڑ دیا
مظہر حسین شیخ
یہ حقیقت ہے کہ انٹر نیٹ نے ہر شعبہ میں ترقی اورآسانیاں پیدا کی ہیں موجودہ جدید دور میں گھنٹوں کا کام اب منٹوں میں ہونے لگا ہے،سرکاری وغیر سرکاری دفاترہرجگہ کمپیوٹرنصب ہیں اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر اس کا منفی استعمال ہوتا ہے دفاتر ہوں یا گھر کمپیوٹرکے زریعے گیمز کھیلی جاتی ہیں بچے تو بچے بڑوں نے بھی گیمز کھیلنے میں مہارت حاصل کر لی ہے حالانکہ ماضی میں اس طرح کے کھیل نہ کھیلے جاتے تھے کیونکہ اس وقت یہاں کمپیوٹر کا نام ونشان تک نہ تھا اور بچے بڑے ایسا کھیل کھیلتے تھے جس سے جسمانی ورزش ہوتی تھی زیادہ تر کھیل گاﺅں سے شروع ہوئے اور پھر آہستہ آہستہ شہروں تک پہنچے ۔ گاﺅں کی تازہ آب و ہوا کھلے میدانوں، کھیت، کھلیاں جہاں زمین ہموار ہو وہاں کھیلنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔پُرانے کھیل تو آہستہ آہستہ دم توڑ رہے ہیں اس کی جگہ اب موبائل فون اور انٹرنیٹ نے لے لی ہے۔ ہم اسے کھیل تو نہیں کہہ سکتے ہاں البتہ زیادہ تر بچوں نے اس کو کھیل ہی سمجھ رکھا اور وہ کمپوٹر اور موبائل فون کے زریعے نت نئی گیمز کھیلنے میں مہارت حاصل کر چُکے ہیں اور ان گیمز میں اس قدر مگن ہو جاتے ہیں کہ کھانے پینے کا ہوش نہیں رہتا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے منفی استعمال سے بچوں کی پڑھائی بھی متاثرہوتی ہے۔ رات گئے تک انٹرنیٹ اور گیمز میں مگن رہنے کی وجہ سے تاخیر سے سونا اور صبح دیر سے اٹھنا ان کی کی عادت بن چکی ہے ،ایسے میں طالب علم اچھی پوزیشن کیسے لے سکتے ہیں؟اس کے باوجود ایسے ذہین اور ہونہار طالب علم بھی ہیں اس کے ساتھ ساتھ پڑھائی میں بھی دلچسپی لیتے ہیںاورانٹر نیٹ کا منفی استعمال نہیں کرتے بلکہ اس سے معلومات حاصل کرتے ہیں جبکہ ایسے طالب علموں کی بھی کمی نہیں جوٹیوشن (اکیڈمی) کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے صرف سکول میں ہی زیر تعلیم ہیں وہ انٹرنیٹ سے استفادہ کرتے ہوئے اس سے آگاہی حاصل کرتے ہیں ان کا بہترین استاد کمپیوٹر ہے جہاں سے انہیں پڑھنے لکھنے کا ہر سبق مہیا ہو جاتا ہے ۔ بہت سے بچوں نے اس میں آئی ٹی میں نام پیدا کیا آج کے بچے بہت ذہین ہیں اگر یہ کہا جائے کہ آج کے دور میں انٹرنیٹ کے میدان میں بچوں نے بڑوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے تو بے جانہ ہوگا۔ جبکہ یہ بھی درست ہے کہ آج کے بچے جسمانی ورزش سے محروم ہیں۔ انٹرنیٹ کا مثبت استعمال بچوں کے ذہین پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے جبکہ منفی استعمال سے بچوں میں آگے بڑھنے کی صلاحیت دم توڑ جاتی ہے اور وہ تعلیمی میدان میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں آج کے جدید دور میں پوری دنیا آپ کی مٹھی میں ہے۔ دنیا میں کسی بھی ملک کے حالات و واقعات کا جائز لینا ہو تو بٹن دباتے ہی نہ صرف پوری دنیا کا نقشہ بلکہ غیر ممالک کے حالات کیسے ہیں ؟کس ملک نے ترقی کی اور کس پر زوال آیا؟ سب کچھ سامنے آجائے گا اور یہ بھی درست ہے کہ آج کے بچے موبائل فون اور انٹرنیٹ کا پیچھا نہیں چھوڑتے کیا ہی اچھا ہو کہ ہر کام کے لئے مناسب وقت نکالیں اور یہ بھی خیال رکھیں کہ پڑھائی متاثر نہ ہو۔سکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم طالب علموں کو سب سے بڑی سہولت انٹر نیٹ کی ہے۔اگر طالب علموں نے کسی سوال کا جواب حاصل کرنا ہوتو اس کے ذریعے معلوم کرسکتے ہیں۔ انتہائی خوشی کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے ذہین اور ہونہار طالب علم بے پناہ صلاحیتوں اور خوبیوں کے مالک ہیں پاک وطن کے بچے پوری دنیا میں اپنی ذہانت کا لوہا منوا چُکے ہیں۔ نوازش علی کا نام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جس نے کم عمری میں ریکارڈ قائم کرکے نہ صرف اپنے خاندان کے وقار کو بلند کیا بلکہ ملک و قوم کا نام بھی روشن کیا۔ حارث منظور نے صرف نو برس کی عمر میں اولیول کا امتحان پاس کر کے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ ارفع کریم کم عمری میں ہم سے بچھڑ چکی ہےں ۔ اس کے نام پر حکومت پنجاب نے ایک بلند ترین ٹاور قائم کیا ہے وہ ہم میں نہیں لیکن اس کا نام اس کا کام ہمیشہ زندہ رہے گا اس لئے کہ وہ بھی ائی ٹی میں ورلڈ ریکارڈ قائم کر چُکی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اپنا نام ملک و قوم کا نام روشن کرنے کے لئے اور والدین کا سر فخر سے بلند کرنے کے لئے محنت تو کرنا پڑتی ہے صرف خیالی پلاﺅ بنانے سے کام نہیں چلتا جنہوں نے عملاً کام کر کے دکھا یا انہوں نے ورلڈ ریکارڈ قائم کئے جنہیں ہر کوئی جانتا ہے ہر کوئی پہچانتا ہے ان کو دیکھ کر ہر کوئی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لئے پوری کوشش اور محنت کررہا ہے یہ بات تو آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی ۔ بچے وہی کامیاب و کامران ہوتے ہیں جو تعلیمی میدان میں بڑھ چڑھ کر دلچسپی لیتے ہیں ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ کھیل کود چھوڑ دیں اور کتابی کیڑا بن جائیں تعلیم اور تفریح ساتھ ساتھ ہوتودونوں کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ آپ زندگی کے ہر میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔