بات تو ٹھیک ہے مگر یہ پوری بات نہیں۔ پارلیمنٹ کا ایوان بالا سینٹ ملک کا اہم ترین ادارہ ہے اتنا اہم کہ اس میں ملک کے چاروں صوبوں کو برابر نمائندگی دی گئی ہے لیکن اس اہم ترین ادارے کے ارکان کس کا انتخاب ہوتے ہیں؟ اپنے صوبہ کے عوام کا انتخاب یا کسی اور کا انتخاب؟ اور ان کے اس انتخاب کا معیار کیا ہوتا ہے؟ کوئی اصول، کوئی اخلاقی ضابطہ یا کسی پارٹی مالک کی وفا اور خدمت؟ یا مال و زر؟ ہوتا تو ایسے بھی رہا ہے کہ بلوچستان سے سینٹ کیلئے رکن خالص لاہوری بھی منتخب ہو جاتے رہے ہیں۔ کس معیار پر؟ مال لگاؤ اور ملک کے سب سے بڑے ادارے کے رکن بن جاؤ۔ کتنے سنیٹر ہوں گے وقت رواں میں جو اسی مال کا انتخاب نہیں ہوں گے؟ کتنے ہی ایسے ہوں گے جو پاکستان آئے ہی مال لگا کر سینٹری کرنے ہوں گے۔ ملک کے وقت رواں میں سب سے اہم عہدے پر فائز وزیر داخلہ کس کا انتخاب ہیں؟ ہو سکتے ہیں وہ اپنے آبائی علاقے یا ملک کے کسی بھی اور حلقہ کے ووٹروں کے ووٹوں کی قوت سے منتخب؟ اور ان کو سینٹر منتخب کرنے کرانے کا معیار کیا ہے؟ کس نے کیا ہوا ہے انہیں منتخب اور کس کی خدمات کے لئے منتخب کیا کرایا ہوا ہے انہیں؟ ملک کی پارلیمنٹ کے اس ایوان بالا کے چیئرمین کے انتخاب کا کیا معیار تھا؟ اس کے علاوہ ان کی اس ملک کی اور اس کے عوام کی کوئی خدمت ہے کہ انہوں نے این آر او شاہ کے خلاف مقدمات کا فیصلہ نہیں ہونے دیا تھا سالوں تک؟ وہ مقدمات درست تھے یا غلط یہ الگ موضوع ہے ویسے اگر وہ مقدمات غلط تھے تو انہوں نے ان عدالتوں میں اپنی قانونی مہارت سے وہ مقدمات غلط ثابت کر کے دھو کیوں نہیں دیے تھے اپنے شاہ جی کے دامن سے ان کے داغ؟ ہے کوئی اس کے سوا اس اہم ترین ادارے کے اس چیئرمین کی خدمت کہ اس نے وہ داغ صاف نہیں ہونے دیے تھے؟ وہ داغ جو نہ دھوئے جا سکتے ہیں کبھی نہ مٹائے جا سکیں گے جن مقدمات کو پھر سے شروع کرانے کا ملک کی عدالت عالیہ کا متفقہ حکم اس لئے نہیں مانا جا رہا کہ اس شاہ جی کے جملہ ماہرین کو بھی آس نہیں کہ مقدمات چل پڑے تو غلط ثابت ہو جائیں گے۔ اگر وہ سب مقدمات غلط تھے تو کیوں لیا جا رہا ہے استثنیٰ کا سہارا؟ اس ساری مصیبت میں ملک کو اس کی حکومت کو بے نظیر این آر او جمہوریت کو اور اس کے شہنشاہ کو مبتلا رکھنے کا اصل ذمہ دار کون بنتا ہے؟ بن سکتا ہے اس کا ذمہ دار کوئی اور ماہر مقدمیات ملک کے ایوان بالا کے اس چیئرمین کے علاوہ؟ ملک کی جمہوریت کو محافظ اس ایوان بالا کا وہ چیئرمین ہو سکتا ہے وہ اپنے آبائی حلقہ سے یا ملک کے کسی بھی ووٹروں کے ووٹوں سے وہ کبھی منتخب؟ وہی نہیں ایوان بالا کے اکثر و بیشتر ارکان عوام کے ووٹوں سے منتخب نہیں ہو سکتے ہیں۔ وہ کبھی عوام میں رہے ہیں؟ انہیں اندازہ بھی ہوتا ہے کہ عوام کن مصائب اور مسائل میں مبتلا ہیں؟ اگر نہیں تو وہ کیا ہیں اور کیوں ہیں؟ کیوں نہیں ان کے لئے بھی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونا لازم قرار دیدیا جاتا؟ ہوتے نہیں امریکہ میں سینٹر عوام کے ووٹوں سے منتخب؟ کیا وہ جمہوریت خام ہے؟ یا پھر یہ سب سرمایہ داروں کی جنگ زرگری ہی ہے ان سرمایہ داروں کی جنہوں نے اس ملک کے بے بس عوام کو غلام بنایا ہوا ہے۔ کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں ان سینٹر صاحبان کو کسی پارٹی مالک سے سینٹری خریدنے کے لئے؟ کس جمہوری اخلاقی انسانی قدر کو پروان چڑھاتے ہیں یہ سینٹر صاحبان؟ اور ان کے ایسے کھیل تماشہ کے جملہ اخراجات بھی ان عوام کو ادا کرنا پڑتے ہیں جن سے ان کا نہ کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ ہی وہ ان کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ تو ہے نہیں یہ ملک اور بی بی جمہوریت کے ساتھ مل جل کر کھاؤ پیو موج اڑاؤ طبقہ کا سنگین ترین مذاق؟ مگر پوچھ سکتی ہے کوئی عدالت ان سے کہ یہ کھیل کیوں کھیلا جا رہا ہے؟ تم کون ہو؟ تم کس کا انتخاب ہو؟ تمہاری عوامی حیثیت کیا ہے؟ اس لئے نہیں پوچھ سکتی کہ اس کھیل سے مال بنانے والوں نے خود ہی تو وہ قانون بنایا ہوا ہے۔ خود ہی منصف خود ہی ملزم اور خود ہی اصول انصاف۔ کوئی ایک بھی ان میں سے اس کی حمایت کرے تاکہ سینٹ کے ارکان کا انتخاب بھی ملک کے ووٹروں کو کرنا چاہیے؟ کسی ایک بھی جمہوریت کی علمبردار پارٹی کا مالک کرے گا اس کی حمایت؟ اگر جمہوریت عوام کی نمائندگی سے آتی ہے تو اس ادارے کو جمہوری بنانے کے سب ہی مخالف کیوں ہیں؟ اس لئے کہ زردوزی اور زرزوری کے اس کھیل تماشہ کے سبب سے ہی تو ان کی گدیاں شدیاں چل رہی ہیں۔ ہم پڑھ رہے تھے کہ عدالت عالیہ کے ایک جج صاحب نے فرمایا ہے کہ ’’مخصوص نشستوں پر منتخب خواتین عوامی نمائندہ نہیں کہلا سکتیں‘‘ دوسرے جج صاحب نے فرمایا کہ ’’موجودہ طریق انتخاب غیر جمہوری ہے‘‘ اور تیسرے جج صاحب نے فرمایا کہ ’’صرف خواتین کی نمائندگی امتیازی سلوک ہے‘‘ بات تو ٹھیک ہے مگر یہ پوری بات نہیں کہ اس ملک کی جمہوریت کے میاں جی سینٹ کا کوئی رکن بھی تو عوام کا نمائندہ نہیں اور کیا ملک میں کہیں جمہوریت ہے؟ جمہوری کھیل تماشہ کے مالکوں کی پارٹیوں میں کہیں جمہوریت ہے، جہاں سو وہاں سوا سو کی حمایت کر نہیں رہے تھے وہ جو کوئی اس تماشہ کے مالکوں کے اس کھیل کا دفاع کر رہے تھے کوئی اٹارنی جنرل۔ انہوں نے بھی تو نوکری کرنی ہے ان تماشہ مالکان کی اب تک کی خواتین ’’نمائندہ‘‘ کی فہرستیں منگوائیں۔ ان سب اسمبلیوں میں اب تک خواتین کی نمائندگی کرنے والی خواتین کا حدود اربعہ دیکھیں سب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کسی کی نمائندہ تھیں اور ہیں اور کیوں؟ اس کھیل کے جمہوری بجوری درد کی آگ ہر طرف ایک ہی جیسی ہی رہی ہے کوئی اسلام کا نام لینے والی پارٹی دیکھیں اس کے اسلام پسند انصاف پسند مالک و مختار کی خواتین کی نشستوں پر نامزد خواتین کا حدود اربعہ دیکھ لیں ہر جگہ مخصوص نشستیں بھی میٹھا میٹھا ہڑپ کا تماشہ ہی ملے گا۔ ان پارٹی مالکان نے بھی جن کے اسلام کے فروغ میں خواتین کارکن بھی سرگرم رہی ہیں ہمیشہ اپنی عزیز و اقارب کو ہی ان نشستوں پر اسمبلیوں میں بھیجا ہے۔ جن خواتین نے ملک کی خواتین کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کیا ہوا ہے ان میں ہے کسی ایک کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے محل کے سایہ میں کتنی خواتین بچوں کے ہاتھ پکڑے سڑک پر پڑی ہیں۔ بارہا ہے ان میں سے کسی ایک کا بھی ملک کی کسی غریب بستی سے کسی دور دراز کے غریب گاؤں کی غربت زادہ خواتین سے کبھی کوئی تعلق ؟ وہ اسی کھیل کے محافظ و مختار طبقہ سے ہی ملیں گے سب اگر ضمنی انتخاب میں چند روز پہلے ایک خاتون کامیاب ہو سکتی ہیں تو بقیہ بیگم بی بیاں کیوں نہیں جاتیں عوام کے پاس؟ نشستیں مخصوص کر دی جائیں کہ کس اسمبلی میں کتنی خواتین انتخاب جیت کر آئیں گی، لڑیں ان سیٹوں پر خواتین بھی۔ انتخابی نامزدگی امتیازی سلوک ہی نہیں غیر جمہوری غیر اخلاقی کھیل بھی ہے جسے ویسے ہی جمہوریت کے نام پر کھیلا جا رہا ہے جیسے باقی کھیل کھیلے جا رہے ہیں۔ کیا کرئیں گے آپ جج صاحبان جی؟
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024