پاکستان کے حکمران طبقوں کے وہ افراد جو ہمیشہ سٹیٹس کو کے ذریعے اقتدار، دولت، طاقت، سیاسی اور سماجی بالادستی کے چشموں سے نسل در نسل اپنی تشنہ لبی کو سیراب کرتے چلے آرہے ہیں۔ اُنہیں اب سیلاب کے سیل بلاکے بطن سے انقلاب پھوٹتا نظر آرہا ہے۔ خونی انقلاب اور فرانسیسی انقلاب کے نعرے بلند ہو رہے۔ پاکستان بھی کیا خوب ملک ہے۔ خونی انقلاب اور فرانسیسی انقلاب کے نعرے لگانے والے لیڈران ایسی کلاس سے تعلق رکھتے ہیں کہ وہ کیونکر چاہیں گے کہ اُنکی مال و دولت، زمینوں، جائیدادوں پر غریب انقلابی قبضہ کر لیں‘ لہٰذا انقلاب کا نعرہ معاشی حالات سے مجبور اور بے بس مزدور، کسان اور عام آدمی سے منسلک تھا مگر بدقسمتی سے یہ نعرہ بھی ہماری ایلیٹ پارٹیوں کے لیڈروں نے اپنا لیا ہے کہ کہیں سچ مچ کوئی انقلابی لیڈر کسی کوٹھڑی اور جھُگی سے نمودار نہ ہو جائے۔ جس فرانسیسی اور خونی انقلاب کے نعرے الطاف حسین اور شہباز شریف بلند کر رہے ہیں تو ایسے انقلاب میں تو ہر اُس شخص کو قتل کر دیا جاتا ہے جو صابن سے ہاتھ منہ دھوتا ہو اور صاف کپڑے پہنتا ہو۔ ایسا ہی فرانس میں بھوک سے بدحال عوام نے طبقہ اشرافیہ کیساتھ کیا تھا۔ مگر کیا آج کے پاکستان کے معروضی حالات ویسے ہی ہیں جیسے 1789ء کے عُہد میں فرانس کے تھے۔ ویسے فرانس کے بادشاہ کیخلاف بغاوت کو ہوا وہاں کے ایسے جاگیرداروں نے دی تھی جو حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ اپنی اپنی ریاستوں کے باشندوں سے خود محصولات اکٹھا کرنا چاہتے تھے۔ جب بادشاہ نے ایسے جاگیرداروں کو کنٹرول کرنا چاہا تو مُلک میں انارکی اور شورش پھیل گئی۔ چنانچہ عوام نے بھوک اور افلاس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنا رزق امراء سے چھین لیا کیونکہ معاشرہ جاگیرداری دور کے ابتدائی مراحل میں تھا۔ مگر آج کا معاشرہ صنعت اور ٹیکنالوجی اور بیرونی تجارت کے ایسے دور میں شامل ہو چکا ہے‘ جہاں تمام دنیا کے ممالک کے مفادات ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں کیا پاکستان میں انارکی کے نام پر ایسا انقلاب آسکتا ہے جہاں پاکستان کا نیوکلیئر کمانڈ اینڈ کنٹرول سر پھرے انقلابیوں کے ہاتھوں میں آجائے۔ کیا انقلابیوں کا کوئی جتھہ پاکستان کی بہادر افواج کے ساتھ لڑ سکتا ہے۔ ایسا سوچنا بھی حماقت ہے طالبان کا حشر سب کے سامنے ہے۔
امریکہ، سعودی عرب اور یورپی اقوام کے علاوہ چین، روس، ہندوستان، ایران اور افغانستان کے جیو سٹریٹجک مفادات پاکستان کی سلامتی کیساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ لہٰذا پاکستان میں ایرانی، روسی، چینی یا فرانسیسی طرز کے کسی قسم کے انقلاب کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تاہم لاقانونیت، دہشت گردی، خانہ جنگی جیسے مسائل پاکستان کے حکمرانوں کی نااہلیوں اور کرپشن کی وجہ سے ہر دور میں رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ افقی اور عمودی سمتوں میں تقسیم درتقسیم ہو چکا ہے۔ انقلاب ایسی قوم میں آتا ہے۔ جہاں عوام مذہبی، لسانی اور قومیت کی بنا پر ایک جیسی سوچ اور فکر کے حامل ہوں اور اُنکے پاس کوئی امید افزا نظریہ حیات اور مائوزے تنگ، امام خمینی اور لنین جیسی کوئی کرشماتی لیڈرشپ ہو۔ ایسا لیڈر جو بے لوث ہو جو اپنی ذات اور خاندان کے مفادات کو پس پشت ڈال کر محض اپنے نظریے کی سچائی پر یقین رکھتا ہو اور اسکے نفاذ کیلئے کسی قسم کی ہلاکت اور تباہی کی بھی پرواہ نہ کرتا ہو۔ انقلاب محض حکمرانوں کی تبدیلی کا نام نہیں ہوتا ہے۔ اصل انقلاب میں بڑی خونریزی ہوتی ہے اور سیاسی، سماجی نظام مکمل طور پر تبدیل ہو جاتا ہے اور معاشرے میں طاقت کے نئے سرچشمے پھوٹتے ہیں۔ طالبان کی اپنی فوج اور عدالتیں ہیں۔ وہ اپنا مخصوص طرز فکر اور اسلامی نظریہ بھی رکھتے ہیں اور طاقت کے بل بوتے پر وہ پورے پاکستان میں اپنی شریعت بھی نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ کیا اس طرح کی انقلابی سوچ پاکستان کے مختلف سیاسی گروہ اختیار کر لیں گے تو پاکستان میں ایسا انقلاب آجائیگا جہاں غریبوں کے حالات زندگی بدل جائیں گے اگر پرانے جاگیرداروں اور امراء سے دولت چھین لی جائیگی تو پھر لوٹ مار کرنیوالے نئے گروہ طبقہ اشرافیہ کے طور پر ابھریں گے اور وہ بھی طاقت کے فلسفے کے تحت حکمرانی کرینگے۔ یہی انسان کی سرشت ہے۔ افغانستان میں وارلارڈز جو انتہائی غریب تھے۔ جنگ اور ڈرگز کی سمگلنگ سے کس قدر طاقتور ہیں۔ افغانستان میں بادشاہت کے خاتمے سے کتنے انقلاب آئے ہیں مگر عوام کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ لہٰذا انقلاب کی ڈرامائی اصطلاح کو بار بار دہرانے سے پہلے ہمیں اسکے اثرات کی گہرائی کا اندازہ بھی لگانا چاہئے۔
A revolution, Properly so called is a violent and total change in political system which not only vastly alters the distribution of power in the society but results in major changes in whole social structure.
شہباز شریف خونی انقلاب کی باتیں کرتے ہیں مگر شاید اُنہیں نہیں معلوم کہ انکی ظالم بیوروکریسی کی وجہ سے خونی انقلاب آئیگا۔ غضب خدا کا کہ ایک ٹی وی چینل تونسہ شریف میں ہزاروں لوگوں کو بھوک سے ہلکان دکھا رہا ہے اور چند کلومیٹر کے فاصلے پر پنجاب حکومت کے محکمہ خوراک کا 86 ہزار ٹن گندم کا ذخیرہ پڑا ہوا ہے۔ ڈیرہ غازی خاں کا بند توڑنے سے 17 ہزار ایکڑ کی سیلاب کیلئے مختص جگہ (Pond) خشک پڑی ہے کیونکہ اسکے ساتھ سردار ذوالفقار علی کھوسہ کی زمینیں ہیں جبکہ 107 کلومیٹر پر مشتمل علی پور اور اسکے گردونواح کے زرخیز علاقوں میں آٹھ آٹھ فٹ پانی ابھی تک کھڑا ہے۔ کیا ایسے وزراء سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور بااثر افراد کو شہباز شریف کا آہنی ہاتھ شکنجے میں نہیں لے سکتا ہے۔ اگر آپ ایسا کرینگے تو یہی انقلاب ہوگا۔ پاکستان میں اگر تمام امیر و ںغریبوں کے حقوق کا تحفظ اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کیلئے سب لوگ مساوی حیثیت رکھتے ہوں اور کوئی طاقتور کسی کمزور کا استحصال کرنے کی جرأت نہ کرے چاہے وہ جاگیردار ہو۔ سرمایہ دار ہو یا بیوروکریٹ! تو پاکستان میں نیا سماجی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں سٹیٹس کو کے علمبردار چاہے وہ جاگیردار ہوں، سرمایہ دار ہوں، ملٹری سول بیوروکریسی ہو۔ سٹاک ایکسچینج اور پراپرٹی ڈیلرز ہوں وہ کیسے اس ملک میں ایسا انقلاب لانے دینگے جن سے اُنکے معاشی مفادات پر ضرب پڑے۔ اسکے علاوہ ناجائز اسلحہ اور ڈرگز کے تاجر، سیمنٹ، شوگر مافیا، بین الاقوامی ادارے این جی اوز، مذہبی اجارہ دار اور غیرملکی سرمایہ دار جنہوں نے پاکستان کی مارکیٹ میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اور جنکے مالکان امریکہ، سعودی عرب، دوبئی، کویت اور مشرق وسطی کے حکمرانوں کے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ آسانی سے پاکستان کی اتنی بڑی مارکیٹ کو اپنے ہاتھوں سے کھو دیں گے۔ 1979ء نہیں ہے کہ امریکہ اور اُسکے حواری شہنشاہ ایران کیلئے کچھ نہ کر سکے۔ اب تو امریکہ براہ راست ایسے ممالک میں مداخلت کرتا ہے جہاں اسکے سٹریٹجک مفادات کا تحفظ نہ ہو رہا ہو۔ پاکستان میں تو وہ آسانی سے مارشل لاء لگوا دیتا ہے مگر ہمارے سیاستدان کیا چاہتے ہیں وہ خود نہیں جانتے ہیں۔ مرشد کا کہنا ہے کہ ہر طرف خون ہی خون نظر آرہا ہے۔ راستہ ابھی تک غائب ہے یہ خون اور پانی دونوں بہتے رہیں گے کیونکہ جب مجھے سزا مل رہی ہو تو تم دخل نہیں دے سکتے ہو۔ اللہ سے رحمت اور استغفار کی درخواست نبی اکرمﷺ کے وسیلے سے کرو۔ طاقت صرف اللہ کی ہے میری سزا میرے غرور اور غربت کی انسانی تخلیق کی وجہ سے ہے‘ لہٰذا Share Bread and Share Preedon وگرنہ ہم سب اللہ کی سزا کے حق دار رہینگے۔
امریکہ، سعودی عرب اور یورپی اقوام کے علاوہ چین، روس، ہندوستان، ایران اور افغانستان کے جیو سٹریٹجک مفادات پاکستان کی سلامتی کیساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ لہٰذا پاکستان میں ایرانی، روسی، چینی یا فرانسیسی طرز کے کسی قسم کے انقلاب کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تاہم لاقانونیت، دہشت گردی، خانہ جنگی جیسے مسائل پاکستان کے حکمرانوں کی نااہلیوں اور کرپشن کی وجہ سے ہر دور میں رہے ہیں۔ پاکستانی معاشرہ افقی اور عمودی سمتوں میں تقسیم درتقسیم ہو چکا ہے۔ انقلاب ایسی قوم میں آتا ہے۔ جہاں عوام مذہبی، لسانی اور قومیت کی بنا پر ایک جیسی سوچ اور فکر کے حامل ہوں اور اُنکے پاس کوئی امید افزا نظریہ حیات اور مائوزے تنگ، امام خمینی اور لنین جیسی کوئی کرشماتی لیڈرشپ ہو۔ ایسا لیڈر جو بے لوث ہو جو اپنی ذات اور خاندان کے مفادات کو پس پشت ڈال کر محض اپنے نظریے کی سچائی پر یقین رکھتا ہو اور اسکے نفاذ کیلئے کسی قسم کی ہلاکت اور تباہی کی بھی پرواہ نہ کرتا ہو۔ انقلاب محض حکمرانوں کی تبدیلی کا نام نہیں ہوتا ہے۔ اصل انقلاب میں بڑی خونریزی ہوتی ہے اور سیاسی، سماجی نظام مکمل طور پر تبدیل ہو جاتا ہے اور معاشرے میں طاقت کے نئے سرچشمے پھوٹتے ہیں۔ طالبان کی اپنی فوج اور عدالتیں ہیں۔ وہ اپنا مخصوص طرز فکر اور اسلامی نظریہ بھی رکھتے ہیں اور طاقت کے بل بوتے پر وہ پورے پاکستان میں اپنی شریعت بھی نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ کیا اس طرح کی انقلابی سوچ پاکستان کے مختلف سیاسی گروہ اختیار کر لیں گے تو پاکستان میں ایسا انقلاب آجائیگا جہاں غریبوں کے حالات زندگی بدل جائیں گے اگر پرانے جاگیرداروں اور امراء سے دولت چھین لی جائیگی تو پھر لوٹ مار کرنیوالے نئے گروہ طبقہ اشرافیہ کے طور پر ابھریں گے اور وہ بھی طاقت کے فلسفے کے تحت حکمرانی کرینگے۔ یہی انسان کی سرشت ہے۔ افغانستان میں وارلارڈز جو انتہائی غریب تھے۔ جنگ اور ڈرگز کی سمگلنگ سے کس قدر طاقتور ہیں۔ افغانستان میں بادشاہت کے خاتمے سے کتنے انقلاب آئے ہیں مگر عوام کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ لہٰذا انقلاب کی ڈرامائی اصطلاح کو بار بار دہرانے سے پہلے ہمیں اسکے اثرات کی گہرائی کا اندازہ بھی لگانا چاہئے۔
A revolution, Properly so called is a violent and total change in political system which not only vastly alters the distribution of power in the society but results in major changes in whole social structure.
شہباز شریف خونی انقلاب کی باتیں کرتے ہیں مگر شاید اُنہیں نہیں معلوم کہ انکی ظالم بیوروکریسی کی وجہ سے خونی انقلاب آئیگا۔ غضب خدا کا کہ ایک ٹی وی چینل تونسہ شریف میں ہزاروں لوگوں کو بھوک سے ہلکان دکھا رہا ہے اور چند کلومیٹر کے فاصلے پر پنجاب حکومت کے محکمہ خوراک کا 86 ہزار ٹن گندم کا ذخیرہ پڑا ہوا ہے۔ ڈیرہ غازی خاں کا بند توڑنے سے 17 ہزار ایکڑ کی سیلاب کیلئے مختص جگہ (Pond) خشک پڑی ہے کیونکہ اسکے ساتھ سردار ذوالفقار علی کھوسہ کی زمینیں ہیں جبکہ 107 کلومیٹر پر مشتمل علی پور اور اسکے گردونواح کے زرخیز علاقوں میں آٹھ آٹھ فٹ پانی ابھی تک کھڑا ہے۔ کیا ایسے وزراء سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور بااثر افراد کو شہباز شریف کا آہنی ہاتھ شکنجے میں نہیں لے سکتا ہے۔ اگر آپ ایسا کرینگے تو یہی انقلاب ہوگا۔ پاکستان میں اگر تمام امیر و ںغریبوں کے حقوق کا تحفظ اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کیلئے سب لوگ مساوی حیثیت رکھتے ہوں اور کوئی طاقتور کسی کمزور کا استحصال کرنے کی جرأت نہ کرے چاہے وہ جاگیردار ہو۔ سرمایہ دار ہو یا بیوروکریٹ! تو پاکستان میں نیا سماجی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں سٹیٹس کو کے علمبردار چاہے وہ جاگیردار ہوں، سرمایہ دار ہوں، ملٹری سول بیوروکریسی ہو۔ سٹاک ایکسچینج اور پراپرٹی ڈیلرز ہوں وہ کیسے اس ملک میں ایسا انقلاب لانے دینگے جن سے اُنکے معاشی مفادات پر ضرب پڑے۔ اسکے علاوہ ناجائز اسلحہ اور ڈرگز کے تاجر، سیمنٹ، شوگر مافیا، بین الاقوامی ادارے این جی اوز، مذہبی اجارہ دار اور غیرملکی سرمایہ دار جنہوں نے پاکستان کی مارکیٹ میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اور جنکے مالکان امریکہ، سعودی عرب، دوبئی، کویت اور مشرق وسطی کے حکمرانوں کے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ آسانی سے پاکستان کی اتنی بڑی مارکیٹ کو اپنے ہاتھوں سے کھو دیں گے۔ 1979ء نہیں ہے کہ امریکہ اور اُسکے حواری شہنشاہ ایران کیلئے کچھ نہ کر سکے۔ اب تو امریکہ براہ راست ایسے ممالک میں مداخلت کرتا ہے جہاں اسکے سٹریٹجک مفادات کا تحفظ نہ ہو رہا ہو۔ پاکستان میں تو وہ آسانی سے مارشل لاء لگوا دیتا ہے مگر ہمارے سیاستدان کیا چاہتے ہیں وہ خود نہیں جانتے ہیں۔ مرشد کا کہنا ہے کہ ہر طرف خون ہی خون نظر آرہا ہے۔ راستہ ابھی تک غائب ہے یہ خون اور پانی دونوں بہتے رہیں گے کیونکہ جب مجھے سزا مل رہی ہو تو تم دخل نہیں دے سکتے ہو۔ اللہ سے رحمت اور استغفار کی درخواست نبی اکرمﷺ کے وسیلے سے کرو۔ طاقت صرف اللہ کی ہے میری سزا میرے غرور اور غربت کی انسانی تخلیق کی وجہ سے ہے‘ لہٰذا Share Bread and Share Preedon وگرنہ ہم سب اللہ کی سزا کے حق دار رہینگے۔