ہفتہ، 2 ربیع الاول 1443ھ9 اکتوبر 2021ء
ء کے زلزلہ متاثرین 16 برس بعد بھی امداد کے منتظر
خیبر پی کے اور آزاد جموں و کشمیر میں 8 اکتوبر 2005ء کو آنے والے قیامت خیز زلزلہ کو بیتے ہوئے سولہ برس ہو چکے ہیں مگر ا س کی تلخ یادیں آج بھی لاکھوں افراد کے دلوں میں تازہ ہیں۔ اس سانحہ میں متاثر ہونے والے بچے آج جوان ہو چکے ہیںاور جو لوگ زندہ ہیں انہوں نے جو کچھ دیکھا وہ کبھی بھلا نہیں سکیں گے۔ ہنستی مسکراتی زندگی ایک لمحے میں موت کی دہلیز پار کر گئی۔ اس موقع پر اہلِ پاکستان نے جس طرح آزاد کشمیر اور خیبر پی کے میں زلزلہ متاثرین کی امداد کی وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ ہر پاکستانی نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر زلزلہ متاثرین کی مدد کی۔ پاک فوج کے ہزاروں جوان،طبی عملہ ، سماجی کارکن ، دن رات کی پرواکئے بغیر امدادی کاموں میں مصروف ہے۔ دنیا بھر سے کھربوں روپے کی امداد ملی۔مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج 16 برس بعد بھی اگر ایمانداری اور غیر جانبداری سے زلزلہ زدہ علاقوں کا دورہ کیا جائے تو وہاں اس المیہ سے متاثر افراد حکومتوں کی بے حسی اور امدادی مال ہڑپ کرنے کی داستانوں پر آنسو بہاتے ملیں گے۔ امدادی رقم کا بڑا حصہ حکمران اور بیورو کریٹس کھا گئے۔ یہ بے چارے متاثرین امداد کی راہ دیکھتے رہ گئے اور یہ کالے چور ارب پتی بن گئے اور متاثرین زلزلہ کے بارے میں کیا لکھیں۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے ریمارکس ہی کافی ہیں۔ آج تک یہ بے چارے امداد کے منتظر ہیںان کے علاقوں میں نہ کوئی سکول بنا ،نہ ہسپتال ،نہ گھر۔ ہاں حکمرانوں کے محلات ضرور بن گئے۔
٭٭٭٭
پیر سے تمام تعلیمی ادارے مکمل طور پر کھل جائیں گے: اسد عمر
لیجئے جناب ہو جائیے تیار۔ چھٹیاں ختم۔ لمبی عیاشیاں ہو چکی۔ اب تمام تعلیمی ادارے مکمل طور پر کھل رہے ہیں۔ تعلیمی سرگرمیاں پیر سے شروع ہو جائیں گے۔ اس خبر پر سب سے زیادہ سکھ کا سانس والدین نے لیا ہو گا جو بچوں کی وجہ سے نکو نک آ چکے ہیں۔ کیا بچے کیا بڑے بچے ان کے ہاتھوں والدین یرغمال بنے ہوئے تھے۔ اب سکول کالج کھلنے کے بعد وہ گویا قید سے رہا ہوں گے۔ ویسے اتنے لمبے وقفے کے بعد بچوں کو واپس پڑھائی کی طرف راغب کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ امید ہے والدین اور اساتذہ مل کر یہ مشکل بھی حل کر لیں گے۔ بہت وقت ضائع ہو گیا۔ اب ایک نئے عزم سے تعلیمی سرگرمیوں کا نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کا آغاز کرنا ہو گا تاکہ جو نقصان ہو چکا اس کا ازالہ ہو۔ وہ بچے جو لکھنے پڑھنے سے جی چراتے ہیں وہ اس فیصلے سے خاصے جزبز ہیں۔ وہ تو کورونا کی چھٹیوں کو نعمت سمجھتے تھے۔ اب سکول جانا ان کے لئے ایک ڈرائونا خواب ہو گا۔ جو بچے لکھنے پڑھنے کے شائق ہیں وہ سجدہ شکر ادا کریں گے کہ سکول پھر کھل رہے ہیں۔ دوستوں سے ہم جولیوں سے ملاقات ہو گی۔ اب والدین کی درد سری ختم اور اساتذہ کی شروع ہو گی کیونکہ بچوں کو پڑھانا خالہ جی کا گھر نہیں۔ بچوں کے دم قدم سے سکول آباد ہونے والے ہیں۔ اصل موجیں تو نجی سکولز مالکان کے میں جو جی بھر کر اگلی پچھلی ساری کسریں نکالیں گے اور دونوں ہاتھوں سے من مانی فیسیں وصول کریں گے۔ حکومت اس بارے میں سختی سے تعلیم کے نام پر تجارت کرنے والوں کو لگام ڈالے تاکہ والدین کے لیے تعلیم بوجھ نہ بنے۔
٭٭٭٭
پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے دنیا میں سب سے آگے ہے: عالمی بنک
بے شک وزیراعظم عمران خان ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے خاصے فکرمند ہیں۔اسی لئے وہ ایک ارب درخت کا منصوبہ لائے ہیں۔ حکومت کے تمام ادارے ان کے وژن کے مطابق ملک بھر میں درخت لگانے کے پروگرام پر دل و جان سے عمل پیرا بھی ہیں۔ اگر یہ پروگرام کامیابی سے جاری رہا اور یہ درخت لگ گئے تو واقعی پاکستان میں سرسبز انقلاب آسکتا ہے۔ یہاں ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کم سے کم ہو سکتے ہیں۔ آج عالمی بنک نے بھی وزیراعظم کے ان اقدامات کی افادیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کو سراہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ دنیا میں ان ٹھوس اقدامات کے باعث پاکستان سب سے آگے ہے۔ یہ ایک ایسا اعزاز ہے جس پر عمران خان فخر کر سکتے ہیں کہ ان کے اقدامات کو دنیا تسلیم کرتی اور سراہتی ہے۔ اس وقت پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں سے ایک ہے جس کی وجہ سے موسموں کا مزاج کسی معشوق کے مزاج کی طرح ہمہ وقت برہم رہتا ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں شجرکاری کی مہم کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے۔ جنگلات اور درختوں کی حفاظت کی جائے۔ ہر شہری ایک درخت ضرور لگائے یوں چند سالوں میں ہمارا ملک ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو جائے گا اور ہر طرف پھیلی ہوئی ہریالی‘ سرسبز درخت موسموں کا عاشقانہ مزاج بھی پھر پہلے کی طرح خوشگوار کر دیں گے۔ جب شجر سبز ہونگے تو یہ پرندے ہر طرف چہچہاتے ہوئے زمین کی گود کو رنگ اور امنگ سے بھر دیں گے۔ یوں ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی محفوظ ہوگا۔
٭٭٭٭
بادامی باغ میں چھاپہ ، سی آئی اے اہلکار خواتین کے تشدد سے جاں بحق
پولیس والوں کو منشیات فروش کے اڈے پر چھاپہ مارنا مہنگا پڑ گیا۔ اس کوشش میں ان کا اپنا ایک ساتھی منشیات فروش کے گھر والی خواتین کے ہاتھ تشددسے جاں بحق ہوا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں جرائم پیشہ افراد کتنے تگڑے ہو گئے ہیں۔ اب ذرا اس منشیات فروش کا نام تو دیکھ لیں کیا ہے۔ اس کے بعد اس کی طاقت کا اندازہ لگائیں۔ جی اس کا نام تو شہباز ہے مگر وہ پورے علاقے میں بھنڈی کے نام سے مشہور ہے۔ اس کا مطلب ہے ملزم معمولی سا مریل قسم کا انسان ہے مگر اس کے گھر کی خواتین کافی صحت مند مانند حلوہ کدو ہوں گی تبھی تو مزاحمت کرتے ہوئے ناصرف بھنڈی کو توری بننے سے بچا لیا بلکہ ایک پولیس اہلکارکی جان بھی لے لی۔ یہ پہلوان قسم کی ہتھ چھٹ خواتین بھی لگتا ہے منشیات فروشی کے کام میں برابر کی شریک ہیں جبھی تو انہوں نے منشیات فروش بھائی کو بچاتے ہوئے ایک بے گناہ اہلکار کی جان لی۔ اب امید ہے علاقہ کی پولیس اپنے پیٹی بند بھائی کی موت کا انتقام لیتے ہوئے علاقے میں جابجا قائم منشیات اور جوئے کے اڈوں کا قلع قمع کر کے بھنڈی ، توری ،کے نام والے ان تمام منشیات فروش کو گرفتار کر کے تاکہ آئندہ کبھی کسی کو یا اس کے گھر والوں کو ایسا کرنے کی ہمت نہ ہو۔
٭٭٭٭
2005