جمعۃ المبارک ‘ 21 ؍ صفرالمظفر 1442ھ‘ 9؍اکتوبر 2020ء
جاتی امرا میں مولانا فضل الرحمن کیلئے پرتکلف کھانا
اب اس کھانے کی کیا تعریف کریں جس میں 5 اقسام کا میٹھا موجود تھا ۔ بادام ، اخروٹ ، پستے ، گری و کشمش والا حلوہ بھی دروغ برگردن راوی خاص طور پر موجود تھا۔ اب معلوم نہیں حلوے کی یہ اعلیٰ قسم گنوا کر راوی یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ مولوی حضرات کو حلوہ بہت پسند ہے۔ شاید اس لئے ایسا مقوی ٹوٹی فروٹی حلوہ موجود تھا۔ شاعر شباب و انقلاب جوش ملیح آبادی نے بھی مولوی حضرات کے حوالے سے کیا خوب کہا تھا ’’تجھ کو کھانے میں مزہ ہے مجھے پینے میں سرور‘‘ اس لئے اس پرتکلف دعوت میں چکن کباب سٹیم روسٹ ، مٹن کڑاہی، سجی ، پالک گوشت اور دیسی مرغ بھی مولانا کی تواضح کے لئے موجود تھے۔ شرکاء کے لئے یہ دعوت تو واقعی دعوت شاہی تھی۔ جب اتنے لوازمات سامنے ہوں تو پھر ہاتھ اور منہ پر کب قابو رہ سکتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اب اپوزیشن حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے تازہ دم ہو رہی ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارے سیاسی رہنما خوش خوراک ہوتے ہیں۔ ان کے باہمی میل ملاقات میں جب دستر خوان سجتے ہیں تو پھر ہر پلیٹ میں بوٹیاں پھڑکتی اور کھویا اچھلتا نظر آتا ہے۔ دیکھتے ہیں اب اور کون کون سا رہنما دعوت سازی کے اس عمل میں شریک ہوتا ہے اور اپنی ضیافت پر داد وصول کرتا ہے۔ خود مولانا فضل الرحمن کادستر خوان بھی خاصا وسیع اور پررونق ہوتا ہے۔ اب وہی سارے اپوزیشن رہنمائوں کو بلا کر ایسی ہی دعوت شیراز کا اہتمام کریں تحریک چلے یا نہیں کم از کم دستر خوان پر تو سب جمع ہو سکتے ہیں اور اس طرح دل کی بھڑاس بھی نکلتی رہے گی۔
٭٭٭٭٭
پلی بارگین کی درخواست منظور جلیل الزمان نے ڈیڑھ کروڑ روپے جمع کرا دئیے
اب اس کام کے بعد احتساب عدالت نے ان کو رہا کر دیا۔ مگر یہ رہائی پھیکی اور بے مزہ ہی رہی کیونکہ کرپشن کے الزام میں احتساب عدالت نے مخدوم جلیل الزماں کو دس سال کے لئے نااہل بھی قرار دیدیا۔اب نہ وہ الیکشن لڑ سکتے ہیں نہ کوئی عوامی و سرکاری عہدہ حاصل کرسکتے ہیں۔ جیسے مچھلی پانی سے باہر نہیں رہ سکتی اسی طرح سیاستدان بھی سیاست سے باہر نہیں رہ سکتا۔ اس پر جلیل الزماں کہہ سکتے ہیں۔ ’’قید مانگی تھی۔ رہائی تو نہیںمانگی تھی ‘‘ کیونکہ یہ رہائی کی خوشی ادھوری لگتی ہے۔ مگرمخدوم کو زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ بادشاہ سے زیادہ بادشاہ گر اہم ہوتے ہیں۔ ماحول بنانے اور بگاڑنے میں ان کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ شطرنج کا کھیل کھیلنے والے جانتے ہیں کہ پیادہ ، فیل ، اسپ ، وزیر ، ملکہ اور بادشاہ کی چال چلانے میں کتنا مزہ آتا ہے۔ یوں مخدوم صاحب کہہ سکتے ہیں۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ بزرگ زیادہ زیرک ہوتے ہیں اور اچھی چال چلتے ہیں۔ اب اگر ہمارے دوسرے سیاستدان بھی جو اس وقت نیب کی یا احتساب عدالت کی کڑکی میں پھنسے ہیں وہ بھی بارگین کے قانون کا فائدہ اٹھا لیں تو طویل پریشانی سے بچ سکتے ہیں۔ جب ایک قانون موجود ہے ، رعایت حاصل ہے تو اس سے فائدہ کیوںنہ اٹھایا جائے ۔ خود نہ سہی بیٹے کو بیٹی یا بیگم کو بھی تو میدان میں لا کر مقابلہ جیتا جا سکتا ہے۔ حکومت کی جا سکتی ہے۔ خود باہر رہ کر بھی حکمرانی کے مزے لئے جا سکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
گوجرانوالہ میں پولیس کا مسلم لیگ (ن) کے جلسہ پر دھاوا۔ منتظم گرفتار
دراصل یہ جلسہ تھا ہی نہیں یہ تو مریم نواز شریف کے 16 اکتوبر کے جلسے کی تیاریوں کے سلسلے میں ایک کارنر میٹنگ ہو رہی تھی۔ جس پر پولیس والوں نے ہلہ بول دیا اور میٹنگ کا انعقاد کرانے والے کو گرفتار کر لیا۔ اس افتاد ناگہانی پر کارکن ابھی سنبھلے بھی نہیں تھے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا۔ مائیک اتار لیا گیا اور میزبان اٹھا لیا گیا۔ یوں مہمان مقررین نے مائیک اور سپیکر کے بغیر گلا پھاڑ پھاڑ کر خطاب کیا اور کارکنوں نے گوگو کے نعرے لگا کر پھیکی پڑنے والی تقریب کو گرمائے رکھا۔ اب معلوم نہیں گوجرانوالہ انتظامیہ یا پولیس کو اتنی پریشانی کیوں ہے مریم نواز کے جلسے سے۔ کیا اوپر سے حکم آیا ہوا ہے کہ جلسہ نہیں ہونے دینا۔ اپوزیشن کو حق حاصل ہے کہ وہ جہاں چاہے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جلسے کرے۔ اگر کوئی غیر قانونی حرکت ہوتی ہے تو بعدازاں اس پر کارروائی کرے۔ یہ قبل از وقت پکڑ دھکڑ توبوکھلاہٹ ہی کہلائے گی۔ مریم نواز کے جلسے سے کوئی قیامت نہیں آئے گی۔ جو کام خوش اسلوبی سے طے پاتا ہو اسے غلط طریقے سے ہینڈل کرنے کی کیا ضرورت۔ اس طرح تو اپوزیشن کے مردہ گھوڑے میں جان پڑ سکتی ہے۔ حکومت کی نیک نامی پر بٹہ لگ سکتا ہے۔ اس لئے شاہ سے زیادہ شاہ پرستوں کو احتیاط کرنی چاہئے تاکہ سیاسی ماحول پرسکون رہے۔
٭٭٭٭
خیبر پی کے میں سکول کے بچوں کے لئے کم وزن بستے کا قانون
یہ بڑی اچھی بات ہے۔ باقی صوبوں کو بھی اس طرح کی قانون سازی پر غور کرنا چاہئے۔ جب سے بچوں کے بستے بھاری ہونے لگے ہیں ان کا علم کم ہونے لگا ہے۔ پڑھانے والے اساتذہ بھی کیا کریں۔ پرائیویٹ سکولوں کالجوں میں پبلشرز اپنی کتابیں لگوانے کے لئے مالکان کو بھاری کمیشن دیتے ہیں۔ یوں ایک یا دو کی جگہ چار کتابیں اور اس کے ساتھ چار کاپیاں اور ساتھ ہی چار گائیڈ بک بھی لگوا جاتے ہیں۔ سکول کالج مالکان کا کیا انہوں نے خود کونسا پڑھنا ہوتا ہے یا ان میں سے خود کتنے لکھے پڑھے ہیں کہ وہ غور کریں کہ اتنی کتابوں کی ضرورت ہی کیا جن کا بوجھ اٹھانا بھی پریب ، نرسری اور کے جی کے بچوں کے لئے ناممکن ہو۔ کبھی چھوٹے بچوں کو کتابیں اٹھائے دیکھیں تو دکھ ہوتا ہے ان بے چاروں کی کمر بستے کے وزن سے دہری ہوئی جاتی ہے۔ ان سکولوں اور کالجوں میں خود اساتذہ بھی یہ کتابیں پڑھانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اب حکومت خیبر پی کے مبارکباد کی مستحق ہے کہ وہ سکول کے بچوں کو اس عذاب سے نجات دلانے کے لئے بستوں کا وزن مقرر کر رہی ہے۔ کیا زمانہ آ گیا اب علم بھی بمطابق وزن حاصل کیا جا سکے گا۔ والدین بھی اس فیصلے پر خوش ہیں کیونکہ جب بستے کا پیٹ ہلکا ہو گا تو ان کی جیب بھاری ہو گی۔ تعلیمی اخراجات میں کمی آئے گی۔ بچے بھی کم کتابیں پڑھنے سے راحت محسوس کریں گے۔ یوں معیار تعلیم بھی بہتر ہو گا۔