پیپلز پارٹی قوم کو بحرانوں سے نجات دلا سکتی ہے ،قمر الزمان کائرہ
کلر سیداں (نامہ نگار )قمر الزمان کائرہ نے کہا ہے کہ موجود حکومت کے خاتمے پر تمام اپوزیشن میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے پیپلز پارٹی مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ میں شرکت کیلئے آج بلائے جانے والے کور کمیٹی کے اجلاس میںغور کرے گی حکومتیں بنانا اور گرانا اداروں کا کام نہیں یہ ادارے اپنی حدود میں کام کریں تو قوم کو بحرانوں سے نجات دلائی جا سکتی ہے ۔انہوں نے کلر سیداں کے قریب گائوں منیاندہ مین پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر چوہدری ظہیر محمود کی والدہ محترمہ کی وفات پر فاتحہ خوانی کے بعد مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا اس موقع پر صوبائی جنرل سیکرٹری چوہدری منظور حسین، راجہ خرم پرویز، محمد اعجاز بٹ اوردیگر بھی موجود تھے۔قمرالزمان کائرہ نے اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تو اس وقت ساری اپوزیشن جماعتوں کا اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ جعلی انتخابات کے ذریعے حکومت بنائی گئی اور اس کیخلاف ہم نے اپنے اعتراضات بھی فائل کر دہئے تھے۔مولانا فضل الرحمان کا خیال تھا کہ ہمیں اسمبلیوں کا بائیکات کرنا چاہے لیکن ہمارا موقف تھا کہ اسمبلیوں کا بائیکاٹ کرنے کی بجائے اسمبلیوں کے اندر رہ کر سسٹم کو چلایا جائے۔مولانا فضل الرحمان کے اصولی موقف کیساتھ ہیں مگر دھرنے کیساتھ نہیں۔ چیئرمین سینیٹ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک میں پندرہ منٹ میں خیالات بدل گئے۔ ہمارے ملک میں خیالات بدلوانے کی مہارت ہمارے کچھ اداروں کے پاس ہے۔ڈپٹی اسپیکر کو ڈی سیٹ کرنے کے فیصلے کے بعد یہ بات اب واضح ہو گئی ہے کہ جس حلقے سے بھی بیلٹ بکس کھولے جائیں گے وہاں سے ردی ہی برآمد ہو گی۔ فلور آف دی ہاؤس میں بلاول بھٹو نے اپنی پہلی تقریر میں جس حوصلے کا مظاہرہ کیا عمران خان ایسا حوصلہ ساری زندگی پیدا نہیں کر سکتے۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کا اصولی موقف تھا کہ ہم پی ٹی آئی حکومت کو موقع دیں اورہم نے پوری کوشش کی مگر عمران خان نے قوم سے غلط وعدے کئے اور جھوٹ بولا۔بلاول بھٹو نے عمران خان کو پوری دنیا کے سامنے کہا کہ وہ اپنا ایجنڈا پورا کریں،عوام کی خدمت کریں،قدم بڑھائیں ہم ان کا ساتھ دیں گے مگر ہمیں پتہ تھا کہ حکومت چلانا عمران خان کے بس کا روگ نہیں،ہم جانتے تھے کہ وہ اکانومی سمیت ملکی سیاست کا ستیاناس کر کے رکھ دیں گے مگر پورے تعاون کے باوجود سوائے گالیوں کے ہمیں کچھ حاصل نہ ہوا، ملک کے ہر طبقہ زندگی کے افراد اب حکومتی رویے اور اقدامات سے تنگ ہیں۔انہوں نے کہا حکومت ہونے کے باوجود عوام نے اپنے تحفظ کیلئے فوج کی طرف دیکھا،قانون سازی اورمقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات کے خاتمہ کیلئے فوج کی طرف دیکھا۔جب صنعت کار اور تاجربھی فوج کے سربراہ کو مل کر اپنے شکوے شکایات کر رہے ہوں تو اس صورت میں حکومت کا وجود مشکوک ہو جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ فوج ہمارے لئے قابل عزت و احترام ہے مگر ان کا آئینی دائرے کے اندر رہنا ضروری ہے،انہیں سوچنا ہو گا کہ حکومت آج کہاں کھڑی ہے۔انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جس میں تمام اپوزیشن جماعتوں نے شرکت کی اور اعلامیہ میں ہم نے واضح کہ ساری جماتیں انفرادی اور اجتماعی طریقہ سے مل کر حکومت کیخلاف تحریک چلاکر اسے چلتا کریں گے،اس کے نتیجے میں ہم نے اجتماعی جلسے بھی کئے۔انہوں نے اس تاثر کو سراسر بے بنیاد اور غلط قرار دیا کہ پیپلز پارٹی لانگ مارچ میں شرکت کیلئے کسی طے شدہ پروگرام سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی دھرنا پالیٹکس کیخلاف ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ دھرنے کے نتیجے میں ہمیشہ سسٹم ڈی ریل ہوا۔عمران خان کے دھرنے سمیت تحریک لبیک کے دھرنے کے بھی ہم مخالف تھے۔طاقت کے زور پر نہیں عوامی دباؤ کے زور پر حکومتیں جانی چاہیں۔کوئٹہ میں منعقدہ ملین مارچ میں مولانا فضل الرحمان نے صرف اپنی جماعت کے دھرنے کا اعلان کیا اس میں اپوزیشن کی جماعتوں کا کہیں بھی ذکر نہیں لیکن اس کے بعد انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کیساتھ رابطہ کیاجس پر ہم نے اپنے تحفظات کا ذکر کیا کہ اگر اس دھرنے کے بعد بھی حکومت قائم رہی تو ہمارا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ مولانا کے اصولی موقف کیساتھ ہیں مگر دھرنے کیساتھ نہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کے موقع پر اپوزیشن کے پاس اکثریت تھی۔جب ان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تو اس وقت پورے سینیٹر ان کیخلاف کھڑے ہوئے لیکن اس کے پندرہ منٹ بعد سینیٹرز کے خیالات بدل گئے اور ہمارے ملک میں خیالات بدلوانے کی مہارت ہمارے کچھ اداروں کے پاس ہے۔ہ چاہتے ہیں کہ اداروں کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے انہیں مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے آئینی حدودمیں رہیں۔ایجنسیوں کا کام حکومتیں بنانا یا گرانا نہیںاس وقت بھی ہم نے پچاس ووٹ حاصل کئے،تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں،ہمارے پاس ایسا پیمانہ نہیں کہ ہم کوشش کر رہے ہیں جونہی ہمیں ثبوت حاصل ہوئے تو ایسے سینیٹرز کو پارٹی میں نہیں رہنے دیں گے،نشان عبرت بنا دیں گے سیکرٹ بیلٹ میں بھی پچاس ووٹ چیئرمین کیخلاف آئے۔ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی الیکشن کمیشن کی جانب سے انہیں ڈی سیٹ کرنا اور عدالت عظمی کی جانب سے انہیں بحال کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ا لیکشن کمیشن کے فیصلے سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ جس جس حلقہ سے بھی بیلٹ بکس کھولے جائیں گے ان میں سے ردی ہی برآمد ہو گی۔انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی آزادی مارچ میں کس طرح شرکت کرے گی اس پر غور کے لیے پارٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس آج اسلام آباد میں طلب کر لیا گیا ہے ۔