چین ہی ایک واحد سپر پاور ہے جو ہمہ وقت پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔ عالمی سطح پر چین کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ اس کی آبادی،اس کا رقبہ، اس کی مجموعی قومی آمدنی، اس کی برآمدات کا حجم اور اب ون بیلٹ ون روڈ کا انشی ا یٹو جو دنیا کے تین بر اعظموں کو تجارتی روابط میں منسلک کرے گا۔
ان دنوں پاکستان کا بھارت کی جارحانہ پالیسیوں سے و اسطہ پڑا ہوا ہے۔ وادی کشمیر پر بھارت نے کرفیو نافذ کرر کھا ہے اور ہر کشمیری کی زندگی عذاب بنا دی گئی ہے۔خطرہ یہ ہے کہ بھارت کو ذرہ بھر بہانہ ملا تو وہ پاکستان پر چڑھ دوڑے گا اور پھر دمادم مست قلندر ۔
ان خطرات کے پیش نظر پاکستان کو چین کی حمائت مل جائے تواس سے بڑی بات اور کیا ہو گی۔ وزیر اعظم نے اپنے آپ کوکشمیر کا سفیر قرار دیا ہے ۔ وہ چین پہنچے ہیں اور ان کے ساتھ آرمی چیف بھی ہیں۔ ہمارے ملک کاا ک نرالا وطیرہ ہے کہ حکومت اور فوج کی آپس میں مخاصمت ہو تو بھی طعنے اور موافقت ہو تو بھی طرح طرح کی باتیں، مگر دانش مندی کا راستہ تو یہی ہے کہ ملک کے تمام ریاستی ا دارے یک جان ہوں۔ ایک پیج پر نظرا ٓئیں، نہ صرف حکومت اور فوج بلکہ بیوروکریسی بھی اور ہر محکمہ بھی خواہ وہ صحت کا محکمہ ہی کیوںنہ ہو۔ یہ فعال نہیں ہو گا تو یہی ہو گا جو اس وقت ہو رہا ہے ۔ ڈینگی جانیں لے رہا ہے اور ہسپتال مریضوں سے بھرے چلے جا رہے ہیں۔
بہر حال یہ امر خوش آئند ہے کہ پہلی بار حکومت اور فوج کی سوچ اور عمل ایک جیسا ہے اور دونوں ادارے باہم صلاح مشورے سے حکمت عملی مرتب کرتے ہیں اور اس پر عمل درا ٓمد کرتے ہیں۔ اپوزیشن اس سے چڑتی ہے تو چڑتی رہے مگر یہی سیاست دان اس وقت بھی ناخوش ہوتے تھے جب میاںنواز شریف ہر بار فوج سے لڑتے بھڑتے رہے۔ کبھی جنرل آصف نواز کے ساتھ۔،کبھی جنرل وحید کاکڑ کے ساتھ اور کبھی جنرل پرویزمشرف کے ساتھ۔ پتہ نہیں انہوں نے جنرل راحیل شریف کے ساتھ کیسے نباہ کر لیا اورا نہیں احسن طریقے سے سعودی عرب جانے کی اجازت دی۔ پی ٹی آئی کی حکومت ابھی بنی نہیں تھی تو کچھ سیاستدانوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ عمران کی مدد خلائی مخلوق کر رہی ہے جس پر فوج کے ترجمان کو کہنا پڑا تھا کہ ہم تو خدائی مخلوق ہیں۔ بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں۔ اس پر فوج نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور ملک کی دگر گوں معاشی ا ور مالی صورت حال کو سنبھالا دینے کے لیے خود آرمی چیف حرکت میں آئے، انہوںنے سعودی عرب کا دورہ کیا، چین کا دورہ کیا،امارات کا دورہ کیا اور حکومت کے لئے مذاکرات کی سازگار فضا تیار کی ۔یہ کریڈٹ فوج کو جاتا ہے کہ اس نے پاکستان کی آئی سی یو میں پڑی معیشت کی خبر گیری کی ورنہ عمران خان تو ریکارڈ پر تھے کہ وہ کسی سے پیسہ نہیں مانگیں گے کیونکہ ا س سے پرواز میںکوتاہی آ جاتی ہے۔ بات تو ان کی سو فیصد درست تھی۔ جنرل ایوب جیسے حکمران جو یو ایس ایڈ کے سہارے پلے بڑھے بالا ٓخر یہ روناروتے سنے گئے کہ اس رزق سے موت اچھی جس سے پرواز میں کوتاہی آجائے۔ مگر اب پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پر تھا اور نئے قرضوں یا سافٹ امداد کے بغیر کام نہیں چل سکتا تھا۔ اس مقصد کے لئے وزیر اعظم اور آرمی چیف نے مل کر کام کیا اور ملک کو وقتی طور پر بڑا سہارا میسرا ٓ گیا۔
آج کشمیر کا سنگین مسئلہ در پیش ہے۔ بھارت کی ڈھٹائی دیکھنے والی ہے اور دنیا بھی اس کے ساتھ ہے، حق اور انصاف کے ساتھ نہیں۔ مگر چین نے کشمیر کا ساتھ دیا ہے اور ہمارے مستقل معاشی مسائل کا مداوا کرنے کے لئے سی پیک کا عظیم الشان منصوبہ تشکیل دیا ہے جس میں گوادر کو گہرے پانیوں کی بند ر گاہ کے طور پر ترقی دی جائے گی۔پاکستان میں انفرا سٹرکچر کا جال بچھایا جائے گا اور ہر صوبے کو بلا تمیز ترقیاتی منصوبے دیئے جائیں گے، سی پیک کے ساتھ ساتھ صنعتی زون بنیں گے اور پاکستان کو راہداری کی ایک مد میں اربوں کی آمدنی ہو گی۔ چین کی یہ سرمایہ کاری نرم شرائط پر ہے۔ حالیہ دورے میں سی پیک کی رفتار تیز کرنے کی حکمت عملی مرتب کی جائے گی تاکہ چین کا اصل منصوبہ ون بیلٹ ون روڈ بھی تیزی سے آگے بڑھ سکے۔پاکستان کواس امر کا بھی جائزہ لینا ہے کہ چین کے ساتھ برآمدات میںکیسے ا ضافہ کیا جاسکتا ہے ۔وزیر اعظم کا ایک ویژن یہ ہے کہ چین نے غربت کے خاتمے میں شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ اورساتھ ہی ساتھ کرپشن کو جڑ سے اکھاڑنے میں بھی ا س کی مہارت کی ہر کوئی داد دیتا ہے۔ عمران خان ان دونوں ماڈلز کی پیروی کرتے ہوئے پاکستان میں کرپشن اور غربت کے خاتمے کی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں اور چین سے اس ضمن میں عملی راہنمائی بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
رہی بھارت کی در د سری توا س کے لئے بھی چین ہی نسخہ شفا دے سکتا ہے۔ چین اگر پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے تو بھارت کی کیا مجال کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھے،اس مقصد کے لئے دفاعی حکمت عملی کی تشکیل کی جائے گی جس میں آرمی چیف اس دورے میںساتھ گئے ہیں اور وہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے سربراہ سے بھی ملاقات کریں گے۔ دونوںاصحاب چین کے وزیر اعظم اوربعد میں چین کے صدر سے بھی مشترکہ ملاقاتیں کریں گے۔
چین کی دوستی پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ روایتی طور پر پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند، سمندروں سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے۔ اسے ا بھی زوال نہیں آیا ۔ یہ پیپلز ٹو پیپلز تعلقات کا شاہنامہ ہے جسے چینی ہنر مندوںنے شاہراہ دوستی کی تعمیر کے دوران اپنے خون سے لکھا۔ اینس سو پینسٹھ میں چین نے پاکستان کی حمایت اس طرح کی کہ بھارت کی سرحد پر چینی بھیڑوں کے ایک غول پر حملے کاالزام لگایا جس سے بھارت کے ہوش ٹھکانے آ گئے۔ چین ٹھنڈی ٹھار طبیعت کا مالک ہے ۔ وہ بظاہر گیدڑ بھبکیوں کا قائل نہیں لیکن اپنے دوستوں کی مدد ٹھوس انداز میںکرتا ہے۔ چین نے پاکستان کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ آج پاکستان میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی لعنت کا خاتمہ عمل میں آ چکا ہے تو اس کا سہرا چین کی فراخدلانہ سرمایہ کاری پر ہے۔
سلامتی کونسل میں پچاس برس بعد اگر کشمیر کا مسئلہ زیر غورا ٓیا تو چین کی بدولت اورا س کی عملی حمایت کی وجہ سے اور یقین رکھنا چاہئے کہ کشمیرکے مسئلے کا حل بھی چین کے توسط ہی سے نکلے گا اور یہ حل پائیدار ہو گا، منصفانہ ہو گا اور کشمیر کے لئے خوشیوںکا باعث ہو گا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024