تاجروں کی سپہ سالار سے ملاقات
ایک مؤقر انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے کرپشن کیخلاف مہم کے دوران اپنی جماعت کے تین چار لیڈروں کو گرفتار کر لیا ہے جن کیخلاف کرپشن میں ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے تھے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر کرپشن پر قابو نہ پایا گیا تو طاقتور فوج کو ایک بار پھر اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع مل جائیگا۔ بنگلہ دیش تعلیم صحت آبادی اور معیشت میں پاکستان سے آگے نکل چکا ہے۔ بنگلہ دیش کی سیاسی قیادت بلوغت کے اس درجے تک پہنچ چکی ہے کہ اسے احساس ہو چکا کہ اگر عوام گڈ گورننس سے محروم ہوں تو فوج کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ پاکستان ابھی تک قیادت کے حوالے سے بھی پس ماندہ ہے۔ بد قسمتی سے گزشتہ بیس سالوں کے دوران حکمران سیاستدانوں تاجروں صنعتکاروں اور بیوروکریٹس نے لوٹ مارکی کی انتہا کردی جس کے ٹھوس شواہد سیاستدانوں کے اپنے ویڈیو بیانات اور عدلیہ کا ریکارڈ منہ بولتا ثبوت ہیں۔ قومی لٹیروں نے نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئیگا جب ان کا کڑا احتساب ہو گا وہ جب تک باری باری اقتدار میں آتے رہے ایک دوسرے کی کرپشن کو تحفظ دیتے رہے اور کڑے احتساب سے محفوظ رہے جس سے انکی مزید حوصلہ افزائی ہوئی اور انہوں نے کرپشن کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ کر رکھ دئیے ۔
جب کرپشن حد سے زیادہ بڑھنے لگی تو پاک فوج کو قومی سلا متی خطرے میں نظر آنے لگی اور اس نے ریاست کے اداروں کو کرپٹ عناصرسے آہنی ہاتھوں سے نبٹنے کی حوصلہ افزائی اللہ تعالیٰ کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے غریب عوام کی حالت زار پر رحم آگیا اور اس نے پاکستان کا ازخود نوٹس لے لیا۔ اللہ نے نہ جھکنے نہ دبنے اور نہ بکنے والی شخصیات جنرل راحیل شریف جنرل قمر جاوید باجوہ سابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار جسٹس (ر) جاوید اقبال اور عمران خان کا انتخاب کیا تاکہ انکے ذریعے قومی لٹیروں کا قلع قمع کیا جاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ قومی لٹیرے اللہ کی پکڑ میں آچکے ہیں اور احتساب سے بچنے کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ انہوں نے عمران خان کو دباؤ میں لانے کیلئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کئے مگر ناکام رہے، بیرونی دباؤ بھی کام نہ آیا۔ مولانا فضل الرحمان کا نام نہاد آزادی مارچ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس سے اطلاعات کے مطابق تحریک لبیک پاکستان کی طرح نبٹا جائیگا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق دو بڑی جماعتوں کے کرپشن کے الزام میں قید رہنماوں نے بڑے تاجروں اور صنعت کاروں کو آمادہ کیا کہ وہ آرمی چیف سے ملاقات کر کے ریلیف لینے اور حکومت اور فوج کے درمیان فاصلے پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ تاجروں اور صنعتکاروں کا خیال تھا کہ آرمی چیف ان سے علیحدہ ملاقات کرینگے اور وہ کھل کر عسکری قیادت سے اپنے منصوبے کیمطابق بات چیت کرسکیں گے مگر چونکہ پاکستان کے سپہ سالار نیک نیت اور محب وطن شخصیت ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہوکر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے۔ چنانچہ انہوں نے مبینہ سازش کو کامیاب نہ ہونے دیا اور انکے ساتھ ملاقات کا پروگرام اس طرح شیڈول کیا کہ ملاقات کے موقع پر حکومت کی معاشی ٹیم بھی موجود تھی۔
تاجروں اور عسکری قیادت کے درمیان ملاقات آٹھ بجے رات کو شروع ہوئی اور ایک بج کر تیس منٹ پر ختم ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد میڈیا پر مختلف قسم کی کی افواہیں پھیلنے لگیں۔ چنانچہ آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک وضاحتی بیان میں کہا کہ معیشت کا ملکی سلامتی کے ساتھ گہرا تعلق ہے، اس لئے مناسب سمجھا گیا کہ سب سٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جائے تاکہ آپس میں معاشی استحکام کے سلسلے میں مشاورت کی جاسکے اور معیشت کو آگے بڑھانے کیلئے سفارشات مرتب کی جاسکیں۔ یاد رہے کہ آرمی چیف قومی ترقیاتی کونسل کے رکن بھی ہیں۔ آئین کی رو سے پاک فوج کو سیاسی امور سے الگ تھلگ ہی رہنا چاہئے مگر جب معاشی بحران اس قدر تشویشناک ہو جائے کہ قومی سلامتی اور آزادی خطرے میں پڑنے لگے تو حالات کے جبر کے تحت ملکی سلامتی کی خاطر ریاست کے مختلف اداروں کا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ناگزیر ہو جاتا ہے جس کی مثالیں دنیا کے مختلف ممالک میں موجود ہیں۔ وفاقی وزیر مملکت حماد اظہر نے اپنے ایک بیان میں بتایا ہے کہ تاجروں کی سپہ سالار کے ساتھ ملاقات بڑی خوشگوار رہی اور ملاقات کے بعد وہ بہت خوش نظر آرہے تھے۔ سپہ سالار نے سب کو یہ باور کرایا کہ ریاست کو کسی صورت عدم استحکام کا شکار نہیں ہونے دیا جائیگا۔ باوثوق ذرائع کیمطابق پاکستان کے سپہ سالار کو معاشی صورتحال کے بارے میں پوری طرح آگاہ کیا گیا تھا لہٰذا انہوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ معاشی مسائل پر تاجروں اور صنعت کاروں سے گفتگو کی۔ حکومت کی معاشی ٹیم نے بتایا کہ پاکستان میں معاشی اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں، صورتحال کو جوں کا توں نہیں چھوڑا جاسکتا۔ میاں منشاء نے گفتگو کے دوران چند تجاویز پیش کیں جن کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو جمود سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ہائوسنگ سیکٹر پر زور دیا تاکہ اس سیکٹر سے منسلک مختلف صنعتیں چلائی جا سکیں، انہوں نے بیمار ریاستی کارپوریشنوں کی نج کاری پر بھی زور دیا۔
بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے گلہ کیا کہ ان کو کام کرنے کا موقع نہیں دیا جارہا۔ وہ پاکستان کو یورپ بنا کر دکھا سکتے ہیں۔ مبینہ طور پر سپہ سالار نے ان سے پوچھا کہ آپ کو کس شخص نے روکا ہے۔ اس کا نام بتائیں تاکہ اس سے وضاحت طلب کی جائے ، ملک ریاض خاموش ہو گئے۔ ملاقات کے دوران تاجروں اور صنعتکاروں نے نیب کے بارے میں اپنے شدید تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا جن کو نیب کے دلیر چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے بلا جواز قراردیا اور انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ نیب کو گزشتہ ایک سال کے دوران کسی کاروباری شخصیت کی جانب سے ایک بھی شکایت نہیں ملی۔ البتہ چیئرمین نیب نے یہ حکم جاری کردیا ہے کہ انکم ٹیکس کے مقدمات میں کسی بزنس مین کو نہ بلایا جائے اور انکے تمام کیسز ایف بی آر کو ریفر کر دئیے جائیں۔ ایک رپورٹ کیمطابق وفاقی مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے بتایا کہ پاکستان کے ایک نامور تاجر نے چین کو بارہ بلین ڈالر کا سامان برآمد کیا جبکہ اس نے اپنے کھاتوں میں صرف چھ بلین ڈالر دکھائے جبکہ باقی چھ بلین ڈالر چین سے دوسرے ملکوں میں منتقل کر دئیے۔ ایک اور رپورٹ کیمطابق پاکستان کی عسکری قیادت نے تاجروں اور صنعت کاروں پر یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ تعاون کریں کیونکہ آئینی اور جمہوری حکومت پانچ سال کی مدت پوری کریگی۔ مبینہ طور پر سپہ سالار نے کہا ایک سال پہلے پاکستان عالمی سطح پر وقار کھو چکا تھا، موجودہ حکومت نے ایسے ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں جن سے پاکستان کا وقار بحال ہوا ہے اور دنیا کے اہم ممالک پاکستان کو اہمیت دینے لگے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے بھی تاجروں اور صنعت کاروں کو ان کے تحفظات دور کرنے کا یقین دلایا اور فیصلہ کیا گیا کہ بزنس مینوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو خود فیصلہ کریگی کہ کس بزنس مین کے خلاف ریفرنس نیب کو ارسال کیا جائے۔ حکومت کا یہ فیصلہ اس کی کمزوری کا مظہر ہے، بیوروکریٹس بھی یہی مطالبہ کر سکتے ہیں۔ حکومت چھڑی اور گاجر کے اصول پر کام کرے۔ پاک فوج اپنے وقار اور عوامی اعتماد کا خیال رکھے، سویلین امور میں انتہائی ضرورت کے علاوہ مداخلت قومی سلامتی کے ادارے کی ساکھ کو متاثر کر سکتی ہے۔