مَاٹی کے مور

خْدا گواہ ہے جس وقت یہ تحریر لکھ رہا ہوں اس وقت تہجد اور فجر کے درمیان رات کے پچھلے پہر کی یہ وہ گھڑیاں ہیں جب سجدوں میں گر کر اپنے رَب سے مانگنے والے انسانوں کی دعاؤں کو اللہ باری تعالی شرف قبولیت بخش رہا ہوتا ہے اور ان لمحات میں شائد ہی اس روئے زمین پر کوئی مانگنے والا ایسا ہو جسکی جھولی اللہ کی خیر و برکت سے خالی ہو۔ صاحبِ بصیرت اور ایمان والے لوگوں کیلئے بیشک یہ نظارہ اسقدر قابلِ دید اور پْرنور ہوتا ہے کہ قوسِ قزاح کے رنگ بھی اسکے آگے ماند پڑ رہے ہوتے ہیں جسکا کمال یہ ہوتا ہے کہ اس وقت رَبِ کائنات اپنی پوری تجلیوں کے ساتھ اپنی سب سے پسندیدہ مخلوق کی شنوائی کیلئے سب سے نچلے آسمان پر جلوہ افروز ہوتا ہے اور اپنی سب سے چہیتی مخلوق سے بار بار مخاطب ہو رہا ہوتا ہے کہ اے سر سے پاؤں تک غفلت میں ڈوبے انسان اْٹھ اور اپنے رَب سے مانگ کہ وہ اپنے محبوب محمد صلی علیہ وسلم کے صدقے تْم لوگوں کیلئے سب کچھ نچھاور کرنے سب کچھ لْٹانے کو تیار ہے۔ یہ وہ لمحات ہوتے ہیں جب مجھ جیسے کچھ ناعاقبت اندیش اپنی دعاؤں کو دنیاوی خواہشات تک محدود کر لیتے ہیں جبکہ اسکے برعکس کچھ ایسے احباب بھی ہوتے ہیں جو ابدی منافع کا سودا کرتے بقول جنید جمشید یہ آہ و زاری کرتے رَب ذوالجلال سے یہ دعا کرتے ہیں کہ عنایتوں کی بارش پہ آیا ہی ہے تو پھر اے رَب کائنات اے دو جہاں کے مالک اے رحمت العالمین غفلتوں میں ڈوبے ہمارے دلوں کو بدل دے۔ ہماری التجاؤں کو سن لے چلا ہمیں سیدھے راستے پر انکے راستے پر جن پر بڑی نعمتیں ہیں۔ ہمیں وہ سیدھا راستہ دکھا دے جسکا تو نے وعدہ فرمایا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ صرف زبان سے ’’ہم تیری عبادت کرتے ہیں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں‘‘ بولنے سے کام نہیں بنتا۔ دلوں کی کیفیت کی تبدیلی کیلئے دل سے مانگنا پڑتا ہے، روح کی وہ تڑپ دکھانا پڑتی ہے جسکو دیکھ کر اے رَب تْو اپنے فرشتوں سے مخاطب ہوتا ہے کہ دیکھو یہ ہے تڑپ کا وہ عنصر وہ صفت جسکی بدولت میں نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور پھر ان میں سے اپنے محبوب کو منتخب کیا صرف اس لئے کہ وہ میری طرف سے بااختیار ہونے کے باوجود صرف اور صرف مجھ سے رجوع کرتا ہے مجھ سے مانگتا ہے۔ یہی تڑپ کا وہ عنصر ہے جسے دکھا کر تْو اے رَب اپنے فرشتوں سے مخاطب ہوتا ہے کہ عبادت تم بھی کرتے ہو عبادت یہ انسان بھی کرتا ہے۔ تم عبادت اپنی ڈیوٹی سمجھ کر کرتے ہو کیونکہ تم میں شر اور غفلت کا کوئی عنصر موجود نہیں لیکن ان انسانوں میں سے ایسے انسان بھی ہیں جو اپنی فطرت میں شّر اور غفلت کا عنصر ہونے کے باوجود صرف میری ہی عبادت کرتے ہیں اور آپس میں پیار اور محبت بانٹتے ہیں لیکن اسکے ساتھ ہی سورہ البقر میں اللہ تعالی یہ بھی فرماتا ہے کہ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنکے دلوں اور کانوں پہ میں نے مہر لگا دی ہے کہ وہ بدلنے والے نہیں اور ان کیلئے عذاب ہے۔ اِن لمحات میں جب رحمت کی ان ساعتوں میں خْدا کے عذاب کی طرف دھیان جا رہا ہے تو کپکپاہٹ کا ایک عالم طاری ہوا جاتا ہے اور جسم کے رونگٹے کھڑے ہو رہے ہیں۔ ایسے میں جامع ترمذی میں روایت بقول حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضور اکرمؐ کا وہ ارشاد پاک یاد آ رہا ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ جب مال غنیمت کو گھر کی دولت سمجھاجانے لگے گا، جب امانت؛ غنیمت سمجھ کر دبا لی جائیگی۔ جب زکوٰۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے گا۔ جب دینی تعلیم دنیا کیلئے حاصل کی جائیگی۔ جب انسان اپنی بیوی کی اطاعت کرنے لگے گا اور ماں کو ستائے گا۔ جب انسان دوست کو قریب کریگا اور ماں باپ کو دور کریگا۔ جب انسان کی عزت اس لئے کی جائیگی تاکہ وہ شرارت نہ پھیلائے۔ جب گانے بجانے والی عورتیں اور گانے بجانے کے سامان کی کثرت ہو جائیگی۔ جب شرابیں پی جانے لگیں گی اور بعد میں آنیوالے لوگ امت کے پچھلے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں گے تواس زمانہ میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا انتظار کرنا۔ زمین میں دھنس جانے اور صورتیں مسخ ہو جانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہنا اور ان عذابوں کے ساتھ دوسری ان نشانیوں کا بھی انتظار کرنا جو پے در پے اس طرح ظاہر ہوں گی جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جا ئے اور لگاتار اس کے دانے گرنے لگیں۔ بلاشک و شْبہ راقم کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ نبی پاک کے ان ارشادات کی روشنی میں موجودہ حالات کو لیکر کوئی تصویر کشی کرے یا کوئی تقابلی جائزہ پیش کرے لیکن وہ اتنا ضرور جانتا ہے کہ اسکے قارئین اسکی توقعات سے کہیں زیادہ زیرک اور نباض ہیں لہٰذا وہ یہ بات اْن پر چھوڑتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ آج ہم تاریخ کے کس موڑ پر کھڑے ہیں اور یہ طوفانی بارشوں اور زلزلوں کی صورت میں جو عذاب ہمارا پیچھا کر رہے ہیں کیا یہ ہمارے اْنہی اعمال کا نتیجہ تو نہیں جنکی نشاندہی حضورِ پاک نے اپنے ارشادات میں کی ہے۔ دیکھا جائے تو ان ارشادات کی روشنی میں یہ زلزلے اللہ کے غضب اور قہر کی نشانیاں ہیں , اللہ تعالیٰ اسکے ذریعہ ہمیں آواز دے رہے ہیں کہ میرے بندوں کہاں جارہے ہو بہت نافرمانیاں کر لیں اب تو میری طرف آجاؤ ، مجھ سے توبہ کر لو, معافی مانگ لو میں تمہیں معاف کر دونگا لیکن افسوس ہمارے اس دور اس معاشرے میں کچھ سقراط جن کی اصلیت اور حقیقت دراصل "ماٹی کے موروں" سے زیادہ کچھ نہیں زلزلوں کی صورت میں عذاب خداوندی کے متعلق عقل سے عاری کچھ ایسی توجیہات دینے میں لگے رہتے ہیں کہ خْدا پناہ۔ ایسے سقراطوں بقراطوں کیلئے راقم حضرت عمر بن عبدالعزیز کا اپنے گورنروں کے نام وہ پیغام رقم کرنا چاہے گا جب اْنہوں نے کہا تھا کہ ’’سنو! اچھی طرح جان لو کہ زلزلے کے جھٹکے سزا کے طور پر آتے ہیں۔ تم لوگ صدقہ خیرات کرتے رہا کرو اور استغفار میں لگے رہو۔ دعا ہے اس سلسلے میں اللہ ہمیں صراط مْستَقیم تک استقامت بخشے۔