میرے بھائی کے بچے
انسان جہاں پیدا ہوتا ہے ، جوان ہوتا ہے ،پڑھتا لکھتا ہے ، ہنستا کھیلتا ہے ،اس زمین سے جب جدا ہو کر جیتا ہے تو بس تمام عمر ادھورا ہی رہتا ہے ۔سب مہاجروں کی ایک سی کہانی اور ایک سی کبھی نہ ختم ہونے والی کسک ہوتی ہے ۔ پاکستان جا ئو تو ایک فقرہ بہت سننے کو ملتا ہے ، آپ لوگوں کا کیا ہے ، آپ لوگ تو وہاں عیش کر رہے ہیں ۔ اس عیش کے لفظ میں ایک طنز ہو تا ہے ، ایک چھپی ہو ئی نفرت۔ طنز اس لئے کے چلے گئے ہو تو اب کیا ہماری اور ملک کی بد حالی کا مزہ لینے آتے ہو ؟مگر اس سب ڈھکی چھپی شکایت اور نفرت کے باوجود وہ ہم مہاجروں کو مکمل طور پر دھتکار بھی نہیں سکتے ۔ہماری وجہ سے انکے بازاروں کی رونقیں قائم ہیں ۔بدلنے سے یاد آیا ،جس جگہ کو آپ چھوڑ آتے ہیں ، وہ جگہیں بھی بدل جاتی ہیں ، انکے ساتھ ساتھ وہاں رہنے والے انسان بھی بدل جاتے ہیں۔ مجھے ایف سی کالج جانے کا اتفاق ہوا ۔میں وہی تھی بالکل ویسی کی ویسی ، عمر گزری ہو تو گزری ہو ، دل وہیں کا وہیں رکا ہوا تھا ۔ جس صبح وہاں جانا تھا ، رات بھر سوچتی رہی تھی کہ کلاس روم جا کر دیکھوں گی ، وہ بنچ جہاں میں بیٹھا کرتی تھی اور جہاں میرے بیٹھنے سے پہلے سر خ رنگ سے کوئی کچھ لکھ جایا کرتا تھا ، جہاں اس بات پر میرا غصہ اور پھرسہیلیوں کے ساتھ قہقہے سب وہیں کہیں دبے ہونگے ، کالج کے ان کشادہ خوبصورت سرسبز میدانوں میں تھوڑی دیر کو چہل قدمی کروں گی ، جہاں ہم نے نیا نیا یو نیفارم سٹارٹ ہوا تھا ، جس کے اوپر ایک عدد کالا گائون بھی پہننا ہوتا تھا ، جو ہمیں اپنی آزادی کی راہ میں رکاوٹ لگا کرتا تھا ، اکثر اتار کر کلاس میں ہی رکھ آیا کرتی تھیں اور جب کبھی پر نسپل رائونڈ لگاتے ادھر کو نکل آیا کرتے تھے تو ہم ان کو دیکھ کر مخالف سمت میں بھاگ کھڑی ہو تی تھیں ۔اس پارکنگ لاٹ کی موٹی سی زنجیر کو دیکھوں گی جس کے پیچھے میرے بھائی کو مجھے اتارنا ہوتا تھا ، اور جس کے آگے اسی کالج میں پڑھنے والے شریف خاندان کے سپوتوں کی گاڑیاںبغیر کسی رکاوٹ کے گذر جایا کرتی تھیں ، اور میںخود کو عام انسان ہونے پر کوستی کلاس میں ہمیشہ ایک آدھ منٹ لیٹ داخل ہو تی تو ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ اشفاق سرور صاحب انتہائی منظم ہو نے کی وجہ سے مجھے کلاس سے باہر بٹھا دیا کرتے تھے۔اس وائٹ بورڈ کو دیکھنا چاہتی تھی ، جہاں جس کو موقع ملتا خالی کلاس دیکھ کر اپنے اپنے دل کی بھڑاس ، یا کسی کا رکھا نام لکھ دیا کرتا تھا ۔اس لائبیریری کو جو ہمارے کلاس روم کے بالکل سامنے ہوا کرتی تھی ، اور اس چرچ کو جہاں ہم لائبریری سے زیادہ جایا کرتی تھیں۔میں اس کینٹین میں جانا چاہتی تھی ، جہاں بیٹھ کر ہم سموسوں اور بوتلوں کیلئے پیسے گنا کرتی تھیں ۔مگر وہاں مجھے کچھ نہ ملا نہ کینٹین والے بابا جی ، نہ وہ کینٹین ،نہ لالہ جی اور نہ ایف سی کالج کی وہ نیلی بسیں۔نہ لائبر یری نظر آئی اور نہ چرچ ، نہ اپنی کلاس ڈھونڈ سکی اور نہ اس میں بچھے ہمارے بنچ ، نہ وہ وائٹ بورڈز نہ وہ درخت جن پر لال روشنائی سے چیکو لکھا ہوتا تھا ۔اسکی بجائے ایف سی کالج ، جو کسی بھی گیٹ سے عاری ہوا کرتا تھا ، وہاں بھاری بھر کم گیٹ نظر آئے ، سیکورٹی کا ایک انتہائی سخت نظام نظر آیا ، سٹوڈنٹس اور وزیٹر لمبی لائینوں میں لگے سیکورٹی چیک اپ کروا رہے تھے ۔مجھ سے اور ساتھ گئی میری بھانجی ثنا سے بھی شناختی کارڈ رکھوا لیا گیااور گلے میں لٹکانے کیلئے ایک شناخت ڈال دی گئی کہ ہم یہاں وزیٹر ہیں ۔میں بدلے ہو ئے کالج کی در دیوار سے ہو کر بھائی کے گھر پہنچی تو اسکے بچے بھاگ کر میرے سینے سے آلگے۔ پاکستان میں قیام کے دوران جب بھی سارا دن کی مصروفیت کے بعد بھائی کے گھر واپس آتی تو اس کے چار چوزوں جیسے بچے میرے ساتھ ایسے والہانہ پن سے آلگتے کہ دن بھر کی ساری تھکان دور ہو جاتی ۔ نہیں بدلا تو وہاں ، اُس گھر میں میرا بچپن نہیں بدلا ۔ یہ بچے ، میرے بھائی کے بچے ، آج بھی ہم بہن بھائیوں کا بچپن تھامے ہوئے ہیں ۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں نہ صرف کینڈا بلکہ پاکستان کے بچوں کی بھی معصومیت کہیں کھو گئی ہے لیکن وہ بچے وہی معصومیت ، وہی سادگی ، وہی محبت لئے کھڑے ہیں جو صرف ہمارے بچپن میں ہوا کرتی تھی ۔ جب ہم اپنی نانی اماں اور خالائوں کو دیکھ کر اسی طرح والہانہ پن سے انہیں چمٹ جایا کرتے تھے ۔ انکے آنے کے بعد انکے گرد گھومتے رہتے اور انکے جانے کے بعد انکے خیالوں میں کھوئے رہتے تھے ۔۔ آج بھی بالکل ویسے کے ویسے میرے بھائی کے بچے ہیں ۔ وہاں کچھ نہیں بدلا ۔ رات رات بھر ان کے ساتھ لڈو کھیلتے میں نہ جانے کتنی مرتبہ اپنا بچپن جی آئی ہوں ۔اذان ( میرا نو سال کا بھتیجا ) جب ہارنے کے خوف سے رونے لگتا ہے تو میں اسکی ست رنگی آنکھوں میں اپنا بھائی ( ان کا باپ ) دیکھتی ہوں۔ بالکل ایسے ہی وہ کبھی ہار نہیں مانا کرتا تھا، کبھی لڈو پھاڑ دیتا تھا ، اور کبھی ہم سے مار کٹائی شروع کر دیا کرتا تھا ۔اذان اپنے باپ کا بچپن جی کر مجھے میرے کھلنڈرے بھائی سے ملواتا ہے۔ ایک دوسرے کو ڈرائونی کہانیاں سنا کر ساری رات ڈرتے رہنا ، یہ سب تو بس میرے بچپن میں تھا یہ میرے بھائی کے گھر اسکے بچوں کے اندر یہ سب کیسے زندہ ہے ۔وہ معصوم سا چوزوں جیسا خوف ، جب ہم رات کے وقت ، جب ایسی ہی کسی کہانی کو سن کر خوفزدہ ہو تے تھے تو اپنی امی کی قمیض کا دامن تھامے سارے گھر میں انکے پیچھے پیچھے پھرا کرتے تھے۔وہ سارا بچپن اپنے بچوں میں بالکل اُ سی طرح سنبھالے رکھنے پر میرا بھائی مبارکباد کا مستحق بھی ہے اور میرا دل کرتا ہے لاہور کی سب مہمان نوازیاں ، سب محبتیں ، سب شیلڈز، سب پذ یرائیاں ایک طرف جو مجھے اس دفعہ ملیں ۔۔ ان بچوں کی معصومیت ، سادگی اور محبت کی صورت میں میرا بچپن مجھے دکھانے پر بھائی کو کہوں ۔۔" شکریہ "۔