منگل‘28 ؍محرم الحرام 1440 ھ ‘ 9اکتوبر 2018ء
روٹی اور نان کی قیمت میں اضافہ
یہ توہونا ہی تھا۔ کیونکہ جو حکومت مہنگائی کم کرنے گیس بجلی پٹرول کی قیمتیں کم کرنے کے نعرے لگا کر اقتدار میں آئی تھی۔ اسے آئے ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے کہ اس نے عوام کو اپنے آنے کا تحفہ مہنگائی بم کی شکل میں ان کے سر پر مار کر دیا ہے۔ عوام کا سب سے بڑا سجن پاپی پیٹ ہے۔ اگر وہ خالی ہو تو علم و حکمت ترقی و خوشحالی کے سارے دعوے جھوٹے لگتے ہیں۔ سچ کہتے ہیں ’’روٹی بندہ کھا جاندی اے‘‘ غریب لوگ روٹی نہیں کھاتے روٹی انہیں کھا جاتی ہے۔
اب آٹے اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ نے مل کر غریبوں کے پیٹ پر ایک لات رسید کردی ہے۔ تندور والوں نے روٹی کی قیمت 6 روپے سے بڑھا کر 10 اور نان کی 10 سے بڑھا کر 15 روپے کر دی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی کہے کہ ہماری حکومت غریب پرور ہے۔ اور ان کی بہتری کے لئے کوشاں ہے تو اس کا مطلب یہی لیا جا سکتا ہے کہ حکومت غربت نہیں غریب مکائو پروگرام پر صدق دل سے عمل کرنے کے چکروں میں ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
لاہور کے منشا بم کے بعد کراچی کے عدنان بم کی دریافت
منشا بم کے بعد عدنان بم دریافت۔ ابھی پاکستانی میڈیا لاہور کے منشا بم سے پوری طرح نجات نہیں پا سکا تھاکہ اب ایک نیا عدنان بم کراچی سے نکل آیا۔ یہ تو ا یسے لگ رہا ہے جیسے مولا جٹ کے بعد کوئی نوری نت نکل آیا ہو۔ ویسے بھی مولا جٹ نوری نت کے بغیر سجتا ہی نہیں۔
اب ہمارے ہر شعبہ زندگی میں نجانے کہاں کہاں بے شمار مولا جٹ اور نوری نت چھپے بیٹھے ہیں۔ ویسے ہی جیسے اب بھی کبھی کبھار سرحدی علاقوں میں بھارتی فوج کی طرف سے پھینکے گئے 65 یا 71 والی جنگ کے بم برآمد ہوتے ہیں، جنہیں بعد میں شہری دفاع والے ناکارہ بناتے ہیں۔ اب کراچی کا یہ چھوٹا تھانیدار عدنان بم کرپشن کے الزامات میںدھر لیا گیا ہے۔ موصوف بھتہ خوری اوررشوت لے کر بھرتی کرانے کے صاف و شفاف قسم کے کاروبار میں ہمہ وقت مشغول تھا اور اسی کی بدولت کروڑوں پتی بن چکا ہے۔ لاہور والے منشا بم تو سر پر سلیمانی ٹوپی پہن کر اپنے بیٹوں سمیت یوں غائب ہوئے ہیں کہ پنجاب کی ماہر ترین پولیس بھی اسے ڈھونڈنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ خدا جانے ایسی کونسی طاقت ہے جو ان کو اپنے دامن میں چھپائے بیٹھی ہے۔ کراچی والا عدنان بم البتہ اب ٹوپی نہ پہننے کی وجہ سے قابو آ چکا ہے تو صاحبو منشا بم جب تک قابو نہیں آتا عدنان بم کی کہانی سے ہی مزہ لیتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
تھر میں زمین پر قحط سالی کا فضائی جائزہ وزرا کا شاہانہ انداز میں دورہ
سندھ کے وزیراعلیٰ کے حکم پر دو وزیر کراچی سے مٹھی بذریعہ ہیلی کاپٹر پہنچے۔ شاید وہ آسمان سے دیکھنا چاہتے تھے کہ زمین والوں کی زندگی پر بھوک ‘پیاس اور بیماری میں کیسے گزرتی ہے۔
معلوم نہیں انہیں تھر کے صحرا میں خشک پڑے ٹوبے اور کنویں آسمانی سفر میں نظر آئے یا نہیں۔ صحرا میں جابجا بکھرے جانوروں کے ڈھانچوں نے اٹھ کر ہے جمالو کے ساتھ ان کا استقبال کیا یا نہیں۔ مگر جب یہ 2 وزیر 8 لینڈ کروزروں 4 ڈبل کیبن اور تین اے سی والی گاڑیوں میں ہیلی پیڈ سے مٹھی ہسپتال اور گندم فراہم کرنے والے مرکز کے دورے پر پہنچے تو وہاں ضرور بھوک پیاس اور بیماری سے ادھ موئے زرد چہروں نے پھیپھڑوں کی پوری طاقت کے ساتھ زندہ ہے بی بی زندہ ہے اور زندہ ہے بھٹو زندہ ہے کے نعرے لگا کر ان کا استقبال کیا۔ہسپتال کے گیٹ ان کی آمد سے قبل ہی بند کر کے اسے دورے کے قابل بنایا گیا۔
کیا معلوم صحت مند ملازمین کو بیڈ پر لٹا کر اصل مریضوں کو کہیں چھپا دیا گیا ہو کہ کہیں ان میلے کچیلے بیمار بچوں عورتوں ا ور مردوں کودیکھ کر ان وزراء کی طبعیت خراب نہ ہو۔ یہی حال گندم فراہمی کے مراکز پر بھی تھا جہاں پر لوگ گھپلوں کی درجنوں شکایات لیکر فریاد کناں تھے مگر اس کے جواب میں یہ وزراء صرف دلاسے دے کر جلدی سے واپس کراچی روانہ ہو گئے کہ کہیں دیر نہ ہو جائے یا کوئی بھوک‘ ننگ‘ پیاس اور بیماری کی بلا انہیں چھو جائے۔
ًًً٭٭٭٭٭
دنیا کا سب سے بڑا نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر سائنسدان گرفتار
دنیا کا سب سے بڑا نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر چنیوٹ سے گرفتار ۔ موصوف کی یہ حالت ان کے اپنے وزیٹنگ کارڈ کی وجہ سے ہوئی یا پوسٹر کی وجہ سے جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ جس میں اس نے اپنے آپ کو دنیا کا سب سے قابل بڑا ڈاکٹر ، سائنسدان اور ماہر امراض ثابت کرتے ہوئے صرف 5500 روپے میں ہر قسم کے لاعلاج مرض کا شافی علاج کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ بات یہاں تک ہی رہتی تو بھی رنگ چوکھا ہی آتا موصوف نے خود کونوبل انعام یافتہ اوراس کے ساتھ ہی ساتھ دل ہی نہیں بھرا تو شاہ فیصل ایوارڈ یافتہ سائنسدان بھی قرار دیدیا تاکہ جاہل لوگ خوب متاثر ہوں۔ اب حقیقت شاید یہ ہے کہ موصوف خود صرف کمپوڈر یا ڈسپنسر قسم کی کوئی چیز ہیں۔ ویسے بھی ہمارے ہاں گلی محلوں میں یہی ڈسپنسر اور کمپوڈر جو چند ماہ کسی ڈاکٹر کے پاس کام کرتے ہیں پھر خود ہی ڈاکٹر بن کر عوام کی بیماریوں کا علاج کرتے پھرتے ہیں لاکھوں روپے کماتے ہیں۔ اب اس ڈاکٹر کا قصور یہ ہے کہ انہوںنے خود اپنی شامت اعمال کو دعوت دی۔ سوشل میڈیا پر آنے کے شوق میں۔اب محکمہ ہیلتھ والے اس نابغہ روزگار قسم کے ڈاکٹر سے خود ہی استفادہ کرنے کے طریقے ڈھونڈ لیں گے۔
فی الحال ان سے علاج کرانے والے مریضوں کو ان کی دکان بند دیکھ کر کافی صدمہ ہو رہا ہو گا جو آئے تو تھے 10 منٹ میں ہر بیماری کا علاج کرانے مگر 10 ماہ ہونے کو آ گئے افاقہ پھر بھی نہیں ہو رہا۔
٭٭٭٭٭