دنیا میں اکثر جنگیں اگرچہ حادثاتی یا معمولی غلطیوں کی وجہ سے ہوتی رہی ہیں لیکن یہ اس دور کی بات ہے جب ایٹمی ہتھیار ایجاد نہیں ہوئے تھے ۔ ایک ایٹم اور دوسری بین الاقوامی سیاسی اور اقتصادی میدان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بے پناہ اثر رسوخ‘ یہ کمپنیاں نہ صرف تمام دنیا میں کھربوں ڈالر کی انوسٹمنٹ کئے ہوئے ہیں بلکہ امریکہ جیسے ممالک میں اپنے اپنے پسندیدہ امیدوار کی الیکشن مہم کے اخراجات اٹھانے میں بھی پیش پیش ہوتی ہیں اور کامیابی کی شکل میں عوضانہ ملکی اور غیر ملکی قوانین کو اپنے مفاد میں تشکیل کروا کر وصول کرتی ہیں۔ دنیا میں جنگ ہو جنگ کے بعد تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی دوبارہ تعمیر سب میں انہی کمپنیوں کے کاروباری مفادات مقدم رہتے ہیں۔
انہی کمپنیوں کی اس وقت بھارت میں اس قدر انوسٹمنٹ موجود ہے کہ وہ بھارت کو براہ راست اور امریکہ جیسے ممالک کے ذریعے پاکستان کے خلاف جنگ میں الجھنے سے باز رکھیں گی۔ کیوں کہ یہ جنگ کئی لحاظ سے بھارت اور ان کمپنیوں کو ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کر سکتی ہے۔ جس میں سرفہرست پاکستانی میزائلوں کی تباہ کاریوں کے علاوہ کارروائیاں ہوں گی۔ جہادی فدائی بمباراس حد تک بڑھ جائیں گے کہ افغانستان کے طالبان کی طرح ساری دنیا کی افواج بھی انہیں روک نہ پائیں گی۔ ابھی تک ان مجاہدوں کو روک رکھنے اور ان پر پابندیاں لگانے میں حکومت پاکستان اس لئے کامیاب رہی ہے کہ بھارت پاکستان سے براہ راست جنگ سے باز رہا ہے۔ دوسرا ماضی میں بھارت کا مؤقف یہ رہا ہے کہ کشمیر میں تحریک آزادی کشمیریوں کی وجہ سے نہیں بلکہ پاکستانی در اندازوں کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا بین الاقوامی دباؤ ڈال کر پاکستان کی ایسی تمام تنظیموں پر پابندیاں لگا دی گئیں جو اپنے کشمیری بھائیوں کی کسی بھی طرح سے مدد کرتی تھیں۔ ان پر پابندیاں لگانے کا ایک یہ بھی مقصد تھا کہ بھارت سے کشمیر کے مسئلے پر بات چیت کا دروازہ کھلے لیکن وقت نے ثابت کیا کہ بھارت کشمیر کو مسئلہ قرار دینے اور اس پر کسی قسم کی بات چیت کے لئے کبھی تیار نہیں لیکن تحریک کشمیر کے موجودہ انداز نے ثابت کر دیا کہ یہ تحریک کشمیری عوام کی اپنی تحریک ہے جس میں پاکستان کا سیاسی‘ سفارتی اور اخلاقی مدد کے علاوہ کوئی کردار نہیں۔ اگر یہ تحریک جیساکہ آثار بتاتے ہیں کچھ عرصہ اور جاری رہتی ہے تو یہی بین الاقوامی کمپنیاں امریکہ کے ذریعے بھارت کو کشمیر کا مسئلہ گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کیلئے دباؤ ڈالیں گی کیونکہ جنگی ماحول میں ان کے کاروبار متاثر ہوتے ہیں اور بھارت تحریک کو ٹھنڈا کرنے کیلئے ایک بار پھر بات چیت کے لئے آمادہ ہو جائے گا اور ماضی دُہرایا جائے گا۔ کشمیر کے مسئلے کو اگر تاریخی حوالے سے اپنا اقتدار جون 1948ء تک ختم کرنے کا اعلان کیا لیکن بعد میں مسلمانوں اور ہندؤوں کے درمیان بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی اور قتل و غارت میں اضافے کے سبب 15 اگست 1947ء کو ہی اپنے اقتدار کے خاتمے کا فیصلہ کر لیا۔ پنجاب‘ بنگال اور آسام میں متصلہ مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل پاکستان وجود میں لانا قرار پایا۔ صوبہ سرحد میں چونکہ کانگریس کی حکومت تھی اس لئے مسلم اکثریتی صوبہ ہونے کے باوجود کانگریس کے اصرار پر وہاں ریفرنڈم کرایا گیا کہ آیا وہاں کے لوگ بھارت کا حصہ بننا پسند کریں گے یا کہ پاکستان کا جبکہ یہ صوبہ بھارت سے متصل بھی نہ تھا۔ اسی طرح صوبہ آسام کا مسلم اکثریتی ضلع سلہٹ جوکہ مسلم مشرقی بنگال سے متصل تھا مشرقی پاکستان کا حصہ بنانے سے پہلے کانگریس کے اصرار پر ریفرنڈم کرایا گیا کہ آیا وہ مشرقی پاکستان کا حصہ بھی بننا چاہتا ہے یا کہ نہیں اس لئے کہ صوبہ آسام میں کانگریس کی حکومت تھی۔ یہاں بھی ریفرنڈم کا نتیجہ پاکستان کے حق میں نکلا۔
تقسیم برصغیر کے اس تمام واقعے میں مقام افسوس یہ ہے کہ دنیا میں جمہوریت کے علمبرداروں نے اسلامی جمہوری تشخص کی بنیاد پر تقسیم کے طے شدہ اصول کے خلاف برصغیر کی 562 راجاؤں کی ریاستوں کے راجوں کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ اپنی لاکھوں کروڑوں رعایا کی مرضی کو پس پشت ڈالتے ہوئے فیصلہ کر سکتے ہیں چاہیں تو آزاد رہیں چاہیں تو ہر دو نئی مملکتوں میں سے کسی ایک میں ضم ہو جائیںلہٰذا یوں پاکستان سے متصل مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کے مسئلے کا بیج بو دیا کیونکہ اس کا راجہ ہندو تھا اور اس نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا۔ جبکہ وہاں صوبہ سرحد اور سلہٹ کی طرز پر ریفرنڈم کروایا جا سکتا تھا۔ اس طرح کشمیری مسلمانوں کو حق خودارادیت کے حصول کی جنگ میں جھونک دیا۔
کشمیر کے برعکس بھارت کے جنوب میں واقع جونا گڑھ اور مناوادر کی دو ریاستیں جن کا رقبہ پانچ ہزار مربع میل سے بھی زیادہ تھا اور وہ کراچی سے تقریباً 300 میل دور بذریعہ سمندر پاکستان سے قابل رسائی تھیں اور باہم متصل تھیں کہ راجا مسلم تھے جبکہ وہاں کی آبادی کی اکثریت ہندو تھی۔ ان راجوں نے اپنی ریاستوں کا الحاق پاکستان سے کر دیا۔ قائداعظم نے 5 ستمبر 1947ء کو الحاق کا فرمان جاری کر دیا۔ لیکن بھارت نے اپنی افواج بھیج کر ان ریاستوں پر قبضہ کر لیا۔ پاکستان نے اس کی شکایت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کردی جوکہ وہاں فیصلے کے لئے ابھی بھی منتظر پڑی ہے اور پاکستان ابھی تک نقشے میں قانونی طور پر جونا گڑھ اور مناوادر کو اپنا حصہ ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح حیدر آباد کی ہندو اکثریتی ریاست ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست تھی جس کا راجہ مسلم تھا۔ راجہ نے ہندوستان میں ضم ہونے کی بجائے آزاد رہنے کا فیصلہ کیا لیکن قائداعظم کی وفات کے بعد بھارت نے اس پر بھی قبضہ کر لیا۔ گویا کہ بھارت کو جہاں حق خودارادیت موافق آیا وہاں اس کے ذریعے قبضہ کر لیا جہاں طاقت استعمال کرنا پڑی وہاں طاقت کے بل بوطے پر کر لیااور جہاں راجے کو رام کرکے کرنا پڑا وہاں ویسے الحاق کر لیا۔
اقوام عالم میں مسلمانوں کی سوچ میں تشدد اور انتہا پسندانہ رویوں کی ایک بڑی وجہ مغربی اقوام کی امیتازی اور متعصبانہ پالیسیاں بھی ہیں۔ مثال کے طور پر انہی اقوام نے ایسٹ تیمور اور جنوبی سوڈان کو اسلامی انڈونیشیا اور سوڈان سے دو ریفرنڈمز کے ذریعے اس لئے علیحدہ کروا دیا وہاں کی آبادی عیسائی اکثریت پر مشتمل تھی اور وہ حق خودارادیت طلبگار تھے اور یہی اقوام متحدہ کشمیری مسلمانوں کی حق خودارادیت کی جدوجہد کو بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دیتی ہیں۔
ان تمام زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے راجاؤوں کی بجائے عوام کی رائے طلب کرنے پر اصرار کرتی تو نہ صرف یہ کہ کشمیر کا پاکستان سے الحاق ہوتا بلکہ کپور تھلہ کی مسلم اکثریتی ریاست جس کا راجہ سکھ تھا اور یہ ریاست ضلع فیروز پور کی مسلم اکثریتی تحصیلوں فیروز پور اور زیرہ کے ذریعے پاکستان سے جڑی ہوئی تھی پاکستان کا حصہ ہوتی۔ یہ سب کچھ اس لئے ممکن تھا کہ پاکستان ناگزیر تھا۔ اس کے وجود میں آئے بغیر برصغیر کے مسئلے کا کوئی اور حل ممکن نہیں تھا۔
اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ کیبنٹ مشن منصوبہ کی ناکامی کے بعد برصغیر کے حالات اسقدر خراب ہو چکے تھے کہ برطانیہ سے سنبھالے نہیں جا رہے تھے۔ قتل و غارت‘ لوٹ مار اور جلاؤ گھیراؤ اتنا بڑھ گیا تھا اور مرکز میں قائم ہندوؤں اور مسلمانوں کی عارضی حکومت میں تناؤ اور اختلافات اتنے شدید ہو گئے تھے کہ خود کانگریس متحدہ ہندوستان کے دعوے سے دستبردار ہو گئی اور پہلی دفعہ پاکستان کی تخلیق کو ہی اپنے سکون کی وجہ سمجھی۔ یہ وہ حالات تھے جب برطانیہ نے 1948ء کی بجائے 1947ء میں ہی برصغیر سے رخصتی کا فیصلہ کیا اور چرچل نے برطانیہ کی اس جلد بازی میں انخلا کو ایک ’’شرمناک انخلا‘‘ ''Shameful flight'' کا نام دیا کیونکہ بقول اس کے اس کا خمیازہ برصغیر کے لوگوں کو بھگتنا تھا جو وہ بھگت رہے ہیں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38