پاکستان کا بابری مسجد فیصلے پر اظہار تشویش ، بھارتی سپریم کورٹ انصاف کے تقاضوں کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی، بھارت میں اقلیتیں محفوظ نہیں: دفتر خارجہ
پاکستان نے تاریخی بابری مسجد کے فیصلے پرشدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک بار پھرانصاف کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہا۔
تفصیلات کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ کے بابری مسجد کے فیصلے پر پاکستان کا باضابطہ ردعمل آگیا، ترجمان دفتر خارجہ نے بیان میں کہاہے کہ اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ بھارتی عدالتیں فیصلوں میں انسانی حقوق کو مدنظر رکھیں جب کہ مقبوضہ کشمیر کےحوالے سے بھی بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے میں سست روی ہے۔ترجمان نے کہا کہ اس طرح کے فیصلوں میں بھارت میں اقلیتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا، بھارت میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں اور آج عدالتی فیصلے سے بھی بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بھارت میں اقلیتوں کو اپنے عقائد اورعبادت گاہوں میں خطرہ ہے،بھارت ہندوتوا کیلئے نظریئے کی پیروی اورہندو راشٹر کی تاریخ پر عمل پیرا ہےایسے فیصلوں سے بھارت کے بڑے ادارے بھی متاثرہورہے ہیں۔ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارت میں انتہاپسندانہ نظریہ، ہندوؤں کی بالادستی اعتکاد پر مبنی ہے،بھارت کا طرز عمل علاقائی امن واستحکام کیلئے خطرہ ہے۔بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت اپنے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے جان و مال حقوق اور املاک کا تحفظ یقینی بنائے جب کہ اقوام متحدہ بھارت میں انتہاپسند نظریئے کے خاتمے اوراقلیتوں کے مساوی حقوق یقینی بنائے۔
بابری مسجد تنازع اور تاریخ؟
بابری مسجد کیس کیا ہے اور اس پر مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان برسوں سے کیا تنازع چلا آرہا ہے اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق جس مقام پر بابری مسجد تعمیرہے وہ قطعہ زمین ریاست اتر پردیش کے ضلع ایودھیا میں واقع ہے۔ ہندوؤں کے مطابق جس مقام پر بابری مسجد قائم ہے وہ دراصل ان کے دیوتا رام کی جنم بھومی ہے اور مغل بادشاہ بابر کے زمانے میں اس جگہ پر بابری مسجد کی تعمیر سے رام کی جنم بھومی تک رسائی ختم کردی گئی تھی۔ہندو شدت پسند گروہوں نے بابری مسجد کو 6 دسمبر 1992 کو تباہ کر دیا تھا اور اس بعد ہی ایودھیا میں واقع زمین کا یہ حصہ متنازع چلا آرہاہے۔ اس قطعہ زمین کی ملکیت کے حوالے سے ایک مقدمہ الٰہ آباد کی ہائیکورٹ میں درج کرایا گیا تھا۔الٰہ آباد ہائیکورٹ نے اپنا فیصلہ 30 ستمبر 2010 کو سنایا تھا۔ اس میں تین ججوں نے حکم دیا تھا کہ ایودھیا کی زمین کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ اس میں سے ایک تہائی زمین رام مندر کے پاس جائے گی، ایک تہائی سُنّی وقف بورڈ کے حوالے کی جائے گی جبکہ باقی کی ایک تہائی زمین نرموہی اکھاڑے کو ملے گی۔2010 میں ہندو اور مسلمان تنظیموں نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کر دیں تھی جس کے بعد سنہ 2011 میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو معطل کردیا تھا۔ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین ان کے بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے۔ اور یہاں پر بابری مسجد کی تعمیر ایک مسلمان نے سولہویں صدی میں ایک مندر کو گرا کر کی تھی۔
مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ دسمبر 1949 تک اس مسجد میں نماز پڑھتے رہے ہیں، جس کے بعد کچھ لوگوں نے رات کی تاریکی میں مسجد کے مرکزی گنبد کے عین نیچے رام کے بت مسجد میں رکھ دیے تھے۔ مسلمانوں کے مطابق اس مقام پر بتوں کی پوجا اس واقعے کے بعد ہی شروع ہوئی ہے۔6 دسمبر 1992 کو ہندو انتہا پسند تنظیم وشوا ہندو پریشد کے کارکنوں، بھارتیا جنتا پارٹی کے کچھ رہنماؤں اور ان کی حامی تنظیموں کے کارکنوں نے مبینہ طور پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ رضاکاروں کے ہمراہ اس مقام پر چڑھائی کر دی۔ یہ جلوس وقت کے ساتھ ساتھ پُرتشدد ہوتا گیا اور وہ کئی گھنٹے تک ہتھوڑوں اور کدالوں کی مدد سےمسجد کی عمارت کو تباہ کرتے رہے۔اس واقعے کے بعد اس وقت کے انڈیا کے صدر شنکر دیال شرما نے ریاست اتر پردیش کی اسمبلی کو درخواست کرتے ہوئے ریاست کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا