وزیراعظم کا استعفیٰ یا 3ماہ میں الیکشن، حکومت کل تک فیصلہ کرے: فضل الرحمن
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت نیوز) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کے ذریعے وزیراعظم عمران خان اور مذاکراتی کمیٹی کو پیغام دیا ہے اور دو آپشنز میں سے کسی ایک پر فیصلہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے پیغام دیا ہے کہ وزیراعظم کے استعفیٰ نہ دینے کی صورت میں 3 ماہ میں نئے الیکشن کا اعلان کیا جائے، حکومت ان دونوں آپشنز میں سے کسی ایک پر فیصلہ کرے۔ ذرائع نے بتایا کہ اگلے آپشن کے طور پر جے یو آئی ایف نے تیاریاں بھی مکمل کرلی ہیں اور 12 ربیع الاول (اتوار) تک حکومت کے جواب کا انتظار کیا جائے گا جس کے بعد اگلی حکمت عملی پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ ساتھ ہی ذرائع نے بتایا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی اگلی حکمت عملی میں ملک کی بڑی شاہراہوں کی بندش شامل ہے۔ذرائع نے بتایا کہ تمام صوبائی اور وفاقی نشستوں سے استعفوں کا آپشن بھی مرحلہ وار آگے بڑھایا جائے گا۔باخبر ذرائع نے مزید بتایا کہ حکومت نے اپوزیشن کی اگلی حکمت عملی پر اپنی تیاریاں شروع کرلی ہیں اور سیکیورٹی اطلاعات کی بنیاد پر اپنا پلان مرتب کررہی ہے۔علاوہ ازیں اپوزیشن مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی نے نیب کے سامنے پیش ہوکر بیان ریکارڈ کرادیا جس کے بعد نیب نے انہیں 12نومبر کو دوبارہ طلب کرلیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اپوزیشن مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی نیب راولپنڈی کے دفتر میں پیش ہوئے۔ نیب ذرائع کا کہنا تھا کہ اکرم درانی سے تین کرپشن کیسز اثاثہ جات، غیر قانونی بھرتیوں اور پلاٹس کی الاٹمنٹ پر تفتیش ہوئی۔ تفتیش کے دوران اکرم خان درانی سے نیب نے سوالات کئے کہ آپ نے حلقے کے 70 لوگوں کو جعلی ڈومیسائل پر وزارت میں بھرتی کیا ؟ وزارت ہاؤسنگ کے افسران نے جعلی ڈومیسائل پر بھرتیاں کیں؟ بھرتی ہونے والے لوگ آپ کے حلقے سے تھے؟ اکرم درانی نے جواب دیا کہ مولانا مارچ کے دھرنے کی وجہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ وزارت میں بھرتیوں سے براہ راست تعلق نہیں۔ وزارت ہاؤسنگ میں خالی آسامیوں پرمیرٹ میں بھرتیاں کی گئیں۔ اکرم درانی سے تفتیش مکمل کرکے نیب راولپنڈی نے انہیں جانے کی اجازت دے دی اور 12 نومبر کو دوبارہ طلب کرلیا ہے۔یاد رہے کہ دو روز قبل اسلام آباد ہائیکورٹ نے اکرم درانی کی ضمانت میں 21 نومبر تک توسیع کرتے ہوئے نیب کو جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔ اکرم درانی نے نیب پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا میرے وہی اثاثے ہیں جو الیکشن کمشن میں ظاہر کئے۔ میرے نام پر جو کچھ بھی وہ وراثت کی جائیدادیں ہیں۔ اکرم درانی کا کہنا تھا کہ نیب نے کہا ہے دوبارہ بلانے کی ضرورت نہیں۔ مجھے قوم کے سامنے رسوائی کیلئے بلاتے ہیں۔ نیب کی وجہ سے ملک بند ہو گیا۔ کوئی کام کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان کہیں گرے سے بلیک لسٹ نہ ہو جائے۔ کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ قوم عذاب میں مبتلا ہے۔ نیب کو چیلنج کرتا ہوں ظاہر اثاثوں سے زیادہ نہیںنکلیں گے۔ عمران خان کو جانا پڑے گا۔ استعفے کے علاوہ کچھ اور نہیں چلے گا۔دریں اثناء رہنما جے یو آئی (ف) مولانا عبدالغفور حیدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات بامقصد ہونے چاہئیں۔ حکومتی ٹیم غیرسنجیدہ ہے۔ ہمارا سادہ مطالبہ ہے کہ وزیراعظم استعفیٰ دیدیں۔ چودھری برادران کی کوشش ہے کہ ہم استعفے سے پیچھے ہٹ جائیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ڈائریکٹ استعفیٰ اچھا نہیں لگکتا تو الیکشن کروا لیں کہ معاملہ لٹک رہا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ استعفے کے بغیر معاملہ حل ہو۔ دھاندلی پر پارلیمانی کمیٹی ایک سال سے بھی آگے نہیں بڑھ سکی۔ اب بھی اگر نئے الیکشن اور استعفے پر بات کرتے ہیں تو ہم حاضر ہیں۔ مذاکرات کا دروازہ ہم نے بند نہیں کیا۔ حکومت مذاکرات نہیں کرنا چاہتی توکچھ نہیں کیا جا سکتا۔ معاملہ تصادم کی طرف حکومت لیکر جا رہی ہے۔ فیض آباد دھرنے کا معاملہ کچھ اور تھا، ہم 8 دن سے پرامن بیٹھے ہیں۔ پس پردہ رابطے بھی اب تک بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں۔ پس پردہ رابطے کبھی چھپے نہیں رہے۔
فضل الرحمان
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے آزادی مارچ کے شرکاء سے خطاب میں کہا ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر ہیں، سیاسی جماعتوں کے رہنما کنٹینر پر اپنا مؤقف دیتے ہیں، حکومتی کمیٹی سے کہا ہے کہ ہمارے پاس آنا تو استعفیٰ لیکر آنا، قومی اسمبلی میں پرویز خٹک کا لب و لہجہ ہمارے مؤقف کی تائید ہے۔ پرویز خٹک کی گفتگو مفاہمت کی نہیں تصادم کی لگ رہی ہے، مفاہمت کی خواہش ہے تو آپ کا لب و لہجہ اس کے مطابق ہونا چاہئے۔ جب سے یہ پارلیمنٹ بنی ہے، قانون سازی نہیں ہوئی۔ حکومت آرڈیننسز پر چلائی جا رہی ہے۔ دھاندلی سے آنے والوں کو حکومت نہیں کرنے دیں گے، ان کی پوری سیاست مخالفین کو چورکہنے پر ہے۔ جعلی اسمبلی کی قانون سازی بھی جعلی ہوتی ہے۔ ایڈہاک ازم سے ملک نہیں چلا کرتے۔ ایسے لوگوں کو ملک سے نکالنا ہوگا، ہم ملک کو امن کا گہوارہ بنائیں گے۔ انہوں نے کشمیر کو بھی بیچ دیا ہے، عوام ایسی کسی جعلی قانون سازی کو تسلیم نہیں کریں گے۔ ملک کو ایسے لوگوں سے فارغ کرو، تم نے پارلیمنٹ، ایگزیکٹو کو متنازعہ بنایا، یکجہتی کی بات کریں ، ہم اس میں دس قدم آگے نظر آئیںگے۔ افواج پاکستان نے ملک کیلئے قربانیاں دیں، 90 ارب ڈالر سی پیک کی مد میں سرمایہ کاری ہوئی اسے کیوں برباد کیا گیا۔ انہوں نے امریکہ کے جلسہ میں بھی ہمیں اور ملک کو گالیاں دیں، ہماری افواج نے ملک میں امن کے قیام کیلئے قربانیاں دیں، ہمارے تعاون اور قربانیوں کے بغیر امن نہیں آسکتا تھا۔ ہمارے شہداء ہیں، ہمارے لوگوں پر حملے ہوئے۔ کیا ہمارے لوگوں نے اس لئے قربانیاں دیں کہ یہ بدبودار لوگ آجائیں، ہم آئین کی پاسداری کی بات کرتے ہیں، ہماری آئین اور قانون کی بالادستی کی بات کیوں قبول نہیں کی جاتی۔ آئیں ہماری طرف بڑھیں ہم دو تین قدم آگے بڑھیں گے۔ ان کی پوری سیاست ایک لفظ پر قائم ہے کہ مخالفین کو چور کہو، دس سال میں لئے گئے قرضوں کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بنائی۔ کمیٹی نے رپورٹ دی ہے کہ جو قرضے لئے گئے وہ غلط استعمال نہیں ہوئے۔ صدر ٹرمپ کے سامنے یہ پیچھے جاتے تھے اور خوشامد کرتے تھے۔ یہ جب امریکہ کے دورے پر گئے تو کوئی استقبال کیلئے نہیں آیا۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی میں ہمارے مؤقف کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں۔ حکومتی کمیٹی ہماری بات وزیراعظم تک نہیں پہنچاتی۔
دھرنا /خطاب