تاریخ اسلامیانِ ہند کے اوراق اس حقیقت سے جگمگا رہے ہیں کہ جب بابائے قوم حضرت قائد اعظمؒ کی زیر قیادت حکیم الامت علامہ اقبالؒ کے تصور پاکستان کے خاکے میں رنگ بھرنے کے لئے مارچ 1940ء کا آغاز میں اقبال پارک کے وسیع و عریض سبزہ زار میں آل انڈیا مسلم لیگ تاریخ ساز جلسہ عام کے انعقاد کی تیاریاں کر رہی تھی ایسے میں مسلمانوں کی بعض فعال سیاسی جماعتیں جن میں سرخ پوش، جمعیت علمائے دیو بند، مجلسِ احرار اسلام بالخصوص علمائے دیو بند کے آل انڈیا ہند کانگریس کی ہمنوائی میں دوقومی نظریہ کی مخالفت کر رہے تھے۔ ایسے پُرآشوب سیاسی حالات میں .23 مارچ 1940ء کے جلسہ عام میں تصورِ پاکستان کے خالق علامہ اقبالؒ کے آزاد وطن کے خاکے میں رنگ بھرنے کیلئے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قرارداد لاہور منظور ہوئی۔ یہ کوئی حسن اتفاق کی بات نہیں بلکہ مشیتِ ایزدی تھی کہ اس روز منصہ شہود پر آنے والا نوائے وقت اسی حکیم الامت علامہ اقبالؒ کے آفاقی کلام کی کرشماتی حیثیت کا اعجاز تھا۔ اس حوالے سے یہ بصیرت افروز داستان ، ملی صحافتی تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن کر چمکتی رہے گی کہ جب اس اخبار کا نام رکھنے کے بارے میں حمید نظامی اور انکے جگری یار دست راست چودھری رحمت اللہ اسلم ایڈووکیٹ نے اس مقصد کیلئے کلام اقبال سے مدد لینے کا فیصلہ کیا اور اس فیصلے کی روشنی میں دونوں دوست سارا دن ایک لائبریری میں حضرت علامہ اقبالؒ کے ار دو اور فارسی کلام کی ورق گردانی کرتے رہے تو بالآخر انہوں نے حضرت علامہ اقبالؒ نے فارسی مجموعہ کلام ’’پیام مشرق‘‘ کی نظم ’’نوائے وقت‘‘ کو اپنا گوہر مقصود قرار دے دیا۔ حضرت علامہ اقبالؒ کی یہ مخمس نظم پانچ بندوں سے عبارت ہے اس کا دوسرا بند اس طرح ہے…
چنگیزی و تیموری، مشتے زغبارِمن
ہنگامۂ افرنگی، یک جستہ شرارِ من
انسان و جہانِ او ، ازنقش و نگار من
خون جگر مرداں، سامانِ بہار من
من آتشِ سوز انم ، من روضۂ رضوانم
چنانچہ نوائے وقت ہی اخبار کا نام قرار پایا۔
اگلے روز دونوں دوست بادشاہی مسجد کے پہلو میں واقعہ مرقد اقبالؒ پر حاضر ہوئے جہاں انہوں نے فاتحہ خوانی کرتے ہوئے اخبار کی ترقی کیلئے مانگی اس حقیقی صورتحال کی روشنی میں اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں رہی کہ تصور پاکستان کے خالق، حکیم الامت علامہ اقبالؒ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان کے قیام کے بانی حضرت قائد اعظمؒ اور ان کے افکار و نظریات کے فروغ اور انہیں مسلم عوام سے صحافت کے محاذ پر متعارف کرانے والے نوائے وقت کا نہ صرف ایک دو سرے سے چولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ مسلم امہ کی نشاۃ ثانیہ کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنے کے سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اس سلسلہ عقیدت و احترام کے ڈانڈے اس وقت سے ملتے ہیں جب حمید نظامی نے اپنے ہم خیال ساتھیوں سے مل کر حضرت علامہ اقبالؒ اور حضرت قائد اعظمؒ کے پیغام کو عام کرنے کیلئے پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی تھی۔ اس سلسلے میں انہیں کیسے کیسے صبر آزما اور کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑا یہ ایک الگ اور طویل داستان ہے۔ مگر یہی وہ حالات تھے جب 1936ء میں حضرت قائد اعظمؒ کیلاہور آمد پر حمید نظامی اور انکے دو ست سید امجد حسین نے انکی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہیں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور کے حبیبیہ ہال میں طلباء سے خطاب کرنے کی د عوت دی حضرت قائد اعظم نے انکی دعوت قبول کرتے ہوئے ایک اصول کیبات کی کہ وہ اس امر کی کالج کے پرنسپل سے باقاعدہ اجازت حاصل کریں۔ دونوں دوست کالج کے پرنسپل سے ملے اور انہیں بتایا کہ محمد علی جناح صاحب حبیبیہ ہال میں خطاب کرنے کی ان کی دعوت قبول تو کر لی ہے مگر اب آپکی طرف سے اجازت کی ضرورت ہے۔ ہم انکے فرمان کی روشنی میں اسی لئے آپکے پاس حاضر ہوئے ہیں۔ پرنسپل غلام حسین نے اس بارے میں ضابطے کی کارروائی مکمل کرنے کی خاطر انجمن حمایت اسلام (جس کے تحت اسلامیہ کالج چل رہا تھا) کے ذمہ دار عہدیداروں سے پوچھنے کیلئے ایک یوم کی مہلت مانگی۔ اس زمانے میں پنجاب میں یونینسٹ پارٹی برسرِ اقتدار تھی اور انجمن والے یونینسٹ پارٹی کے حکمرانوں سے قدرے خوف کھاتے تھے وہ جانتے تھے کہ یونینسٹ حکمران کسی صورت یہ بات ہضم نہیں کر سکتے کہ محمد علی جناح اسلامیہ کالج آ کر طلبہ سے خطاب کریں اس لئے انجمن نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ انجمن حمایت اسلام کی طرف سے حبیبیہ ہال استعمال کرنے کی اجازت نہ ملنے پرطالب علموں میں شدید ردِعمل دیکھنے میں آیا۔ احتجاج کرنیوالے طلباء کے سرخیل حمید نظامی تھے۔ اسی بنیاد پر حمید نظامی کو کالج انتظامیہ کی طرف سے اظہار وجوہ کا نوٹس موصول ہوا کہ انہوں نے انجمن کے فیصلے کے خلاف تحریک شروع کی ہے۔ کیوں نہ انہیںکالج سے نکال دیا جائے۔ یہ بات کالج کی چاردیواری سے نکل کر مسلم لیگی حلقوں میں عام ہو گئی۔ اس وقت حکیم الامت علامہ اقبالؒ پنجاب مسلم لیگ کے صد ر تھے۔ انہوں نے صورتحال سے آگاہ ہوتے ہی ذاتی طور پر اس معاملے میں مداخلت کی جسکے نتیجے میں انجمن اور کالج انتظامیہ کی طرف سے حمید نظامی کیخلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے کا معاملہ ختم ہو گیا ۔(جاری)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024