علامہ اقبال عاشق رسول تھے ان کا عشق اندھی تقلید پر مبنی نہیں تھا بلکہ انہوں نے قرآن اور سیرت کا پوری توجہ سے مطالعہ کیا۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل کی اور دونوں کو اپنے وجود میں سمو لیا ۔ اقبال کی شاعری اور نثر عشق رسول میں ڈوبی ہوئی ہیں، اقبال کے والد محترم بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے۔ انکی عملی زندگی اطاعت رسول کا قابل رشک نمونہ تھی۔ علامہ اقبال نے" رموز بے خودی " میں اپنے لڑکپن کا ایک واقعہ درج کیا ہے جس سے انکے والد کے عشق اور اطاعت رسولؐ کا اندازہ ہوتا ہے لکھتے ہیں:
"ایک دن ایک بھکاری دروازے پر آیا اور بھیک کیلئے ضد کرنے لگا اس پر مجھے بہت غصہ آیا اور میں نے اسے مارا جس سے اسکے سر پر چوٹ آئی اور اس کا کشکول دور جا گرا۔ میرے والد کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو وہ سخت برہم ہوئے ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا ، دل تڑپنے لگا سینے سے آہ نکلی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، میں والد کا یہ حال دیکھ کر بہت گھبرایا۔ انہوں نے گلوگیر آواز میں کہا کل قیامت کے دن ساری اُمت اللہ کے رسول صلعم کے حضور میں پیش ہو گی، ان میں غازی ملت بھی ہونگے حفاظ قرآن وحدیث بھی ہونگے، زاہد بھی ہوں گے اور عاشقان رسولؐ بھی عالم بھی ہوں گے اور گنہگار بھی جو شرم میں ڈوبے نظر آئینگے۔ اس اجتماع میں یہ درد مند بھکاری فریاد کریگا تو اس وقت میں کیا جواب دے سکوں گا، جب اللہ کے رسول صلعم مجھ سے سوال کرینگے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک نوجوان مسلمان کو تیرے سپرد کیا تھا لیکن اس نے میرے اخلاق و آداب سے کوئی سبق نہ سیکھا ، اس سے اتنا سا کام بھی نہ ہوا کہ ایک نوجوان کو آدمی بنا دیتا۔ والد مرحوم بڑی نرمی سے گفتگو کر رہے تھے مگر میں شرم سے پانی پانی ہوا جا رہا تھا والد صاحب نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا‘ بیٹا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے اس اجتماع عظیم کا تصور کرو میری اس سفید داڑھی کو دیکھو میرے اس وقت کے خوف و اُمید سے لرز اُٹھنے کا خیال کرو باپ پر ایسا ظلم مت کرو کہ آقائے دو عالم کے حضور اس غلام کو ذلیل و خوار کرنے کا سبب مت بنو۔ تم باغ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک کلی ہو بہار مصطفوی کی ہواؤں سے کھل کر گل شگفتہ بن جائو۔ اقبال کے لڑکپن کا یہ واقعہ سبق آموز ہے اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ اطاعت رسول ﷺکا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔
اقبال" اسرار خودی" میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لکھتے ہیں۔ " ہماری آبرو آپ کے نام نامی کی بدولت ہے۔ مسلمانوں کے دل میں حضور اکرم صلعم کی محبت جاں گزیں ہوتی ہے، وہ ذات گرامی جس نے خود بورئیے پر لیٹ کر اپنی اُمت کو وہ فروغ بخشا کہ تاج کسریٰ انکے قدموں تلے روندا گیا۔ انہوں نے غار حرا میں راتیں تنہائی میں بسر کیں، اس طرح ایک قوم ایک آئین ایک حکومت دنیا کے سامنے پیش کی۔ آپ نے دنیا میں ایک نئے نظام اور نئے آئین کو رواج دیا اور تمام پرانی قوموں کی بساط الٹ دی۔ آپ نے بتایا کہ دین کی کنجی سے دنیا کا دروازہ کھولو تو راہ راست پاؤ گے۔
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اُڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
سچ یہ ہے کہ آپکی ذات گرامی جیسا دوسرا کوئی فرزند مادر گیتی سے پیدا نہیں ہوا آپکی نظر میں پست و بلند سب برابر تھے۔ آپ اپنے غلام کے ساتھ ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا تناول فرماتے تھے، اقبال کے نزدیک عشق اور اطاعت لازم و ملزوم ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم تقلید نبوی میں ڈوب جانے کا نام دیدار رسول ہے۔ دنیا میں زندگی ایسے بسر کرو جیسے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ تم کو تلقین کرتا ہے۔ اگر تم ایسا کرو گے تو تم کو انسانوں اور جنوں سب میں مقبولیت حاصل ہوجائیگی۔ آپ کی سنت میں ڈوب کر خود شناسی حاصل کرو یہی آپکا دیدار ہے، یاد رکھو کہ آپکا اسوۂ حسنہ اور آپکی سنت آپکے اسرار میں سے ہے۔
اقبال نے قناعت پسندی اور کفایت شعاری اختیار کرکے اسوۂ حسنہ پر عمل کیا، وہ وکالت کے دوران صرف پانچ سو روپے ماہانہ تک مقدمات لیتے جو انکے اخراجات کیلئے کافی ہوتے۔ انہوں نے ضرورت سے زیادہ مال جمع نہ کیا۔ اقبال کی اپنی بیگم کریم بی بی سے علیحدگی ہوگئی مگر اسلامی تعلیمات کیمطابق عمر بھر انکی کفالت کرتے رہے اور باقاعدگی کے ساتھ ماہانہ اخراجات روانہ کرتے۔ حکومت برطانیہ نے علامہ اقبال کو جنوبی افریقہ میں ہندوستان کا نمائندہ یعنی وائسرائے مقرر کرنے کی پیشکش کی۔ اس وقت یہ اعلیٰ منصب تھا مگر اس منصب کے پروٹوکول کے مطابق یہ لازم تھا کہ علامہ اقبال کی بیگم پردہ نہیں کریں گی۔ علامہ اقبال نے عشق رسول صلعم کی وجہ سے یہ بڑا منصب مسترد کردیا اور کہا قیامت کے روز جب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوں گا تو میں ان سے نظریں کیسے ملا سکوں گا، وہ مجھ سے سوال کرینگے تم میرے عاشق تھے مگر دنیاوی منصب کیلئے تم نے میرے عشق اور اطاعت دونوں کو چھوڑدیا۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں بھی عشق رسول اور اطاعت رسول کو مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے۔
تیری الفت کی اگر ہو نہ حرارت دل میں
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
گر با او نہ رسیدی تمام بو لہبی است
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے
علامہ اقبال اطاعت رسول کو ہی حقیقی عشق تصور کرتے تھے۔ انکے خیال میں جس عشق میں اطاعت نہ ہو وہ عشق نامکمل ہوتا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں اللہ کے رسول صلعم کی عملی زندگی کی خصوصیات رحمت برداشت انسانیت مساوات اور اخوت کو اجاگر کیا۔ علامہ اقبال کے متروک اشعار "باقیات اقبال" کے نام سے شائع ہو چکے ہیں ان کا یہ شعر توجہ طلب ہے۔
اقبال تیرے عشق نے سب بل دیے نکال
مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی
٭…٭…٭
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024