فکرِ اقبال
لیاقت بلوچ
علامہ اقبالؒ کا یہ کارنامہ ہے کہ انہوں نے مغربی فلسفہ ،مادرپدر آزاد تہذیب کے خلاف اعلان جنگ کیا،سب سے پہلے قدم اٹھانے کی جرأت کی اور ملت اسلامیہ کو اس محاذ پر معرکہ آرائی کی رہنمائی دی،اس دور میںاسلام کو کھل کر اپنا دین کہنے کی عظیم مثال قائم کی،اقبال کی فکر ،ان کے توحید و رسالت پر مبنی فلسفۂ خودی،فکر اور عشق حقیقی کے جذبات نے ایک ایسی فضا مہیا کی کہ جس میںاسلام کے آفاقی پیغام کو فروغ پانے کا موقع حاصل ہوا۔علامہ اقبالؒ کی فکر توحید اور عشق رسول اللہؐ سے جڑی ہوئی ہے انہوںنے اُمت محمدیہ کو یہ پیغام دینے کی مسلسل کوشش کی کہ اپنے آپ کو جانو اور پہچانو، اپنے آپ کو مایوسی اوریاسیت سے نکالو ،اپنے آپ کو قائم کرو اور بحال کرو،اپنے آپ کو اللہ سے بغاوت کی فکر اورفلسفہ سے بچاؤ،اپنے آپ کو دوسروں سے منواؤ اور اس سلسلہ میں جو بھی معرکہ لڑنا پڑے لڑنے کے لیے تیار رہو۔انہوں نے فکر دی کہ ہم نے اپنا وجود کھو دیا ہے اقدار ہمارا امتیاز ہیں جس سے امتیازی وجود حیثیت پاتا ہے اس سے انحراف کرکے ذلت سے دوچار ہوئے۔
اقبال کی فکر اسلامی نظریاتی و تہذیبی پیغام کی علمبردار ہے۔ اقبال نے ترجیحاً نوجوانوں کو مخاطب کیا اور باور کرایا کہ قوم کو باکردار،اسلامی نظریہ پر پختگی سے قائم اور جمے ہوئے نوجوان ہی ملت اسلامیہ کی ضرورت ہیں۔ اقبال نے پوری علمی فکری طاقت سے، تمیز رنگ ونسل اور مغرب کی وطنی قومیت کے طلسم سے نکال کر صاحبانِ ایمان کو دنیا میں امت واحدہ بنانے کا مشن جاری رکھا۔اقبال نے ایسے مرد مومن کی فکر کی کہ تشکیل کی ملحدوں،اغیار پرستوں،غبار نفرت و عداوت کے مقابلہ میں بندۂ مومن خودی،غیرت وحمیت،فکر وعمل کا پیکر بن جائے۔اقبال نے عقیدہ ختم نبوت کے مسئلہ پر عمرانی نقطۂ نظر سے حکیمانہ بحث کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ یہ اصولی عقیدہ ہے اور ملت اسلامیہ کے نظام دین پر نقب لگانے والے شیطانی عناصر کو للکارا،دلیل کی برہان سے انہیں بے نقاب کیا۔عشق رسول اللہ اور ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اقبال کی جدوجہد ان کے لیے توشہ آخرت ہے۔
علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں میں بالخصوص یہ فکر اجاگر کی اور اس کی آبیاری کی کہ’’قوموں کی حیات ان کے تخیل پر ہے موقوف‘‘،یعنی قومیں فکر ونظریہ سے محروم ہوں تو انہیں تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔اقبال نے یہ باور کرایا کہ قرآن کریم اپنے نظریہ حق کا کرشمہ بتاتا ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے جس سے خیروشر کا شعور زندگی کو جگمگا دیتا ہے۔اور جو حق کا دامن چھوڑ دے اسے طاغوتی طاقتیں روشنی سے نکال کر تاریکیوں میں ڈال دیتی ہیں۔بلاشبہ اللہ کی رحمت اور تائید ایسی طاقت ہے جو حزب اللہ کو غلبہ دیتی ہے۔اقبال نے یہ بھی حوصلہ دیا کہ تمہارے مقابلہ میں جو قوت ہے وہ نظریہ حق تک لے جانے والے شعورو تفکر سے بے بہرہ ہے اس کے مقابلہ میں حق سے جڑے گروہ تعداد میں قلیل بھی ہوں تو کثیر تعداد دشمنوں پر غلبہ پا لیتے ہیں۔
علامہ اقبال کی فکر صرف فلسفہ نہیں یقین محکم ہے،اس کی نگاہ میں محض فلسفیانہ قیاس،شاعرانہ خواب مطمئن نہیں کر سکتی زندگی میں معرکہ آرائی کے لیے زندہ عامل ناگزیر ہے۔اسلامی،نظریاتی،فکری کام کرنے والے کے لیے فکروتخیل کی بنیاد پختہ عقیدہ،محکم ایمان ہی ہے جو ثباتِ زندگی اور کشمکشِ حیات کو قوت دیتا ہے۔اقبال نے کہا
یقین محکم،عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
اقبال کے ہاں عقل و عشق کا سارا مضمون ہمیشہ اس مدعا تک لے جاتا ہے کہ نرے فلسفیانہ تصورات زندگی کا سرمایہ نہیں بن سکتے ،محکم نظریات اسی کے ہو سکتے ہیں جو تحصیل ملکوتی اور جذبہ ہائے بلند کے دونوں عناصر اس کے امانت دار ہوں۔
علامہ اقبال کا ابتدائی دور وہ ہے جب برطانوی سامراج برصغیر پر قابض تھا۔برصغیر کے عوام انگریز کی غلامی سے نجات کے لیے مضطرب تھے۔اقبال کے پیش نظر وہ جاری دور تھا کہ ہندو،ایمپریلزم انگریز کی سرپرستی میں پل بڑھ کر مسلمانوں کے لیے واضح خطرہ بن گیا تھا،اقبال نے بہت سے لوگوں سے بہت پہلے اس خطرہ عظیم کو اچھی طرح محسوس کر لیا جو مغربی مادہ پرست تہذیب کی شکل میں یلغار کرتا ہوا پیش رفت کر رہا تھا اس خوفناک بحران کے سامنے اقبال نے اپنی فکر کے ہتھیار نہیں ڈالے،محض ذاتی احساسات کی شاعری میں پناہ نہیں لی بلکہ عین فن کے دائرے میں اس چیلنج کو قبول کیا اور اس کے ہر رنگ پر خوب خوب ضرب لگائی۔سامراج کے مقابلہ کے لیے قوم میں آزادی کا جذبہ موجزن کیا ،آزادی کے گیت گائے،ہندوا مپریلزم کا توڑ کرنے کے لیے وطنی قومیت کے بُت توڑے اور مسلمانوں میں اسلامی تہذیبی قومیت کا تصور پیدا کیا۔اقبال نے ایک انتہائی مشکل دور میں مسلمانوں کو سہارا دیاحریت فکر دی،شکست خوردگی،خود ملامتی کے خول سے نکالنے کی کامیاب جدوجہد کی۔ اقبال اپنے عہد کے لوگوں سے مخاطب ہوئے اور مادہ پرست فکر نے اپنی کوکھ سے جس نمونہ انسانیت کو جنم دیا ہے اقبال اس پر ضرب کلیم ہیں۔ چند الفاظ میں اقبال نے اتنا جامعہ تبصرہ کر دیا ہے کہ اس کی حقیقت کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں آتی۔انسان کے حال پر یہ مصرع
؎ عقل کو تابع فرمان نظر کر نہ سکا
اس سے آگے بڑھ کر پوری بات جان لینے کے لیے یہ پیغام بھی کیا خوب ہے۔
ڈھونڈے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
علامہ اقبالؒ ،مادہ پرست اورمفاد پرست،حق سے ناآشنا تہذیب کے پیدا کردہ انسانوں کے مقابلے میں اسلامی فکر کے لیے ایسے مطلوب انسانوں کا نقشہ پیش کرتے ہیں جس کے سانچے میں وہ اپنے نور نظر’’جاوید اقبال‘‘ کو ڈھالنا چاہتے ہیں۔کلام اقبال سے یہ امر واضح اور عیاں ہے کہ اقبال کا انسان مطلوب پیدا کرنے کے لیے سب سے پہلے ایسی ماں کی گود مطلوب ہے جو اپنی لوریوں میں بچے کو جو پہلا سبق گھول کر پلا دے وہ لا الٰہ الا اللّٰہ کا سبق ہو۔ایک پاک باز ماں کی پاکیزہ گود ہی غلبہ اسلام اور انسانوں کو راہ راست پر لانے کے لیے جری افرادپیدا کرتی ہے،یہ ماحول ایک تلوار کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ جو حق اور باطل کو خدا پرستی اور خدا ناشناسی کو اسلام اور جاہلیت کو، توحید اور شرک والحاد کو باہم منقطع کر دیتی ہے۔ اقبال اسی قندیل کی روشنی میں بندۂ مومن کو اپنے کارواں تک پہنچنے اور پھر بلند ترین منزل خودی کو پا لینے کی سعی کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔اقبال عصر رواں میں اپنی فکر کے سبب ہر بڑے معرکے کے لیے ہر صاحبِ دل کو اور قریبی رابطے کی وجہ سے ملت کے ہر جوان کو پکارتا ہے کہ مادہ پرستی اور مادیت کے مقابلہ میں روحانیت اور خدا پرستی کے علمبردار بن جاو،اقبال کی فکر کی خوبیاں ہر فرد اور پوری قوم کے لیے مفید ہیں۔
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحرائی یا مرد کوہستانی
.شاعر مشرق،عظیم فلسفی،صاحب ایمان و حکمت شاعر علامہ اقبال کا اہم موضوع افغانستان اور کشمیر بھی ہے۔افغانستان کی مرکزی حیثیت اقبال پر آشکار تھی وہ جانتے تھے کہ افغان بڑی قوم ہے۔ملک چھوٹا ہے لیکن ملک کا محل وقوع ایسا ہے کہ اس کے احوال کا مدوجزر پورے ایشیائ کو متاثر کرتا ہے جس کے اطراف میں ایران،پاکستان ،روس،بھارت اور چین ہے اس میں کوئی تزلزل آئے تو اس کا اثر ہر طرف پھیلے گا۔
از فسادِ او فسادِ آسیا
در کشادِ او کشاد آسیا
اقبالؒ کی گہری فکر جو آج حرف بہ حرف پیشین گوئی کی حیثیت سے پوری ہو رہی ہے،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اردگرد کے چوطرفہ علاقوں کے لیے افغانستان عالم اسلامی کا ایک اہم حصّہ اور اتحاد امت کی آواز کا سرچشمہ ہے۔افغانوں کی خودی،جرات،غیرت وحمیت نے مسلمانوں کی لاج پالی ہے اور استعماری قوتوں کے غرور، گھمنڈ اور ظلم کو ایمانی طاقت سے کند کیا ہے ان سازشوں کو مل کر شکست دینے کے لیے عالم اسلام کو متحد ہونا ہوگا۔