سبق پھر پڑھ صداقت کا ،عدالت کا،شجاعت کا
سیالکوٹ کے شہر میں عظیم ماں، جسکی زبان نبی پاکؐ کے عطا کیے نور کا سر چشمہ ،جن کی فہم و فرا ست کے حسین نرم پروں پر مقدس فضاء میں تیرتا ہو ا روشن،منور دماغ،جن کی صبر و قناعت کے سمندر میں سادہ مگر پر وقار رہائش،انسانیت کی تعمیر تسکین کا منتظر ،خواہش حسرت گھر محلے سے بڑ ھتے ہوئے صوبے ملک کو خوبصورت جنت میں تبدیل کرنے کا سچا پکا علمی ارادہ اور وسیع زمین ،کھلے سمندر،پھیلے ہوئے صحرا سے جھوٹ ،بے ایمانی ،برائی کو ایمانداری ،سچائی ،انصاف کے تسلط میںدفن کرنے کا عزم،ادب و احترام کو سہارا بنا کر غلامی ،محکومی کے تکلیف دہ عذاب کو خدا وند کریم کی رحمت سے فضل میں تحلیل کرنا ،جن کی ہر لمحہ سوچ و فکر سے رزق حلال کھلا کر راحت و روحانی سکون کو تیزی سے سمیٹنا ،جن کی محنت لگن سے بچہ ہی ہاتھ پاوں چلانا سیکھ جائے کہ بیماریاں کبھی نہ چھو سکیں اور حیات راحت میں بدل جائے۔بچہ کو انتہائی تندرست صحت مند بنائے کہ کائنات میں سب کو سہارے سے مضبوط ،طاقتور کرے۔جن کی سادگی ،عقل و دانش سے پروان چڑھنے والا بچہ کروڑوں انسانوں میں غفلت، لا پرواہی، گمراہی،غربت، جہالت کی کالی بیماری کو چستی،ہوشیاری سے نیند میں بیداری کو میٹھا شربت پلائے۔اس پاکیزہ سوچ،مقدس ارادے والی ماں کی گود کو قدرت نے بیٹے کے نور سے بھر ا،جسکا نام اقبال رکھا گیا۔خاوند شیخ نو ر محمد پر ہیز گار اور متقی انسان تھے۔اقبال صاحب کی ابتدائی تعلیم مسجد حصام الدین میں پائی،اس کے بعد سکاچ مشن سکول میں داخل ہوئے۔ اقبال صاحب کی ماں جی ،اقبال صاحب کے بدن ،اعضاء میں اصلاح و افلاح کیلے شفقت و پیار بھرتی،شروع میں ہی نصیت فرماتی، دوسروں کے حقوق پورے کرنے سے ہی اپنے حقوق مضبوط و محفوظ ہو تے ہیں۔اچھائی ، بھلائی ہمیشہ اپنے پروں پر اڑا کر بلندیوں تک لے جاتی ہے۔دوسروں کا خیال ،احساس کرنے سے غیبی مدد امدادجاری رہتی ہے۔بچوں کے بدن کے زرے زرے میں جب سچائی ، ایمانداری بھر جاتی ہے توجنت بچوں کو اپنے اندر کھینچ لیتی ہے۔ کیونکہ جنت کا خمار سچائی ،ایمانداری سے ہے۔بچے کی تعلیم و تربیت ،اچھائی سے ہو تو ہر طرف سر سبز شاداب خوبصورت کا ینات ہو جاتی ہے۔امن وسلامتی کی ہو ایئں صدا میں چلنا شروع ہو جا تی ہیں۔اقبال کے والد ِ ماجد شیخ نور محمد صاحب انگریز کے ہاں ملازم تھے۔اقبال صاحب کی والدہ ماجدہ کو شبہ ہوا کہ غیر مسلم کی دی ہوئی تنخواہ غیر شرعی ہے۔اس آمدنی سے کھانا کھایا جاتا ہے،اقبال صاحب کو پلائے جانے والا ماں کا دودھ غیر شرعی ہے،اقبال صاحب کی پیاری عظیم ماںنے چہرے ،بدن کو سجانے چمکانے والا سنہری زیور فروخت کرتے ہوئے بکری خریدی۔اور پھر بکری کا دودھ متواتر پلانے لگی۔ماں جی فرماتی تھیں رزق حلال میں سکون راحت پیدا ہوا کرتی ہے۔سکون راحت سے دِل علم و تخلیق کی طرف بھاگتا ہے۔علم و تخلیق والے ہی اصولوںپر مر مٹتے ہیں۔اقبال صاحب کی والدہ محترمہ رات کے پچھلے پہر اقبال صاحب کیلے دعا مانگا کرتی تھیں۔اقبال صاحب کا لباس ،چال چلن،عادات، طور طریقے غیر مسلموں سے ملتے جلتے نہ ہوں۔آکڑ تکبر ان کے بدن کو چھو کر بھی نہ جائے۔صرف عاجزی انکساری سے لبریزہوں۔نبی آخرالزمانؐ کے بتائے ہوئے اصولوں کو یاد کرنے اور عمل کرنے سے زندگی کو آرام و سکون، عزت و غیرت نصیب ہوتی ہے۔اقبال صاحب پڑھتے گے۔بی ۔اے اور ایم ۔ایے کی ڈگری گورنمنٹ کالج لاہور سے امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔پنجاب میں اول آئے۔ماں جی کی شفقت اور استاد جی کے خلوص کی امیزش سے تجسس تحقیق کی صفات اجاگر ہویئں۔نظروں کے سامنے غربت ،جہالت،محرومی۔ محکومی صاف شفاف نظر آنے لگی۔بدن میں مٹانے کا جوش ولولہ پیدا ہو نے لگا۔آپ ماں جی کی دعاوں سے اورینٹل کالج اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور کے پروفیسر بنے۔اس کے بعد 1905 میں آپ قانون کی تعلیم کیلے یورپ چلے گے۔تین سال انگلستان میں رہے۔کیمبرج یونیورسٹی سے فلسفہ کی تحصیلات شروع کی۔ڈگری لینے کے بعد جرمنی کی میونخ یو نیورسٹی میں داخلہ لیا اور بعد الطبیعات ایران کے نام سے ڈاکٹریٹ کیلے مقالہ تحریر کیا۔1908میں ان کا مقالہ طبع ہو کر شائع ہوا۔یورپ میں چھ مشہور خطبے دیے۔جب ماں شفقت ،پیار سے زندگی کے دس رہنما اصولوں پر چلنا سیکھا دیتی ہے تو بچہ سات آسمانوں کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے۔اگست 1908 میں وطن واپس آئے۔1934 تک وکالت سے منسلک رہے۔مسلم امہ کیلے کا م کیا۔1923میں انگریز حکومت نے ان کو سرکا خطاب دیا۔اقبال صاحب نے اپنے بھایئوں سے گزارش کرتے ہوئے فرمایا،
سبق پھر پڑھ صداقت کا ،عدالت کا،شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
ماںجی کی دی ہوئی شفقت بھری تعلیم و تربیت نے حضرت علامہ اقبال کو اتنا بلند کر دیاکہ برائی ،بدحالی کے وسیع بلند پہاڑیوں کے پیچھے سے مدینے کی بلندپاکیزہ صدایئں سننے لگیں۔علامہ صاحب فرماتے ہیں جب مدینہ کے لوگ سچے ہو کر انصاف کرنے لگے تھے تو قدرت نے نبی پاکؐ کے صدقے ان میں بے حساب شجاعت بھر دی تھی۔آج اس جہالت محکومی سے باہر آنے کیلے پھر سے سچائی،ایمانداری پر مر مٹنا ہو گا۔ہر ایک سے انصاف کرنے کے بعد ہی انسان حیرت وغیرت والاہوتا ہے۔پھر حیرت و غیرت والا ہی حاکم ہوتے ہیں،علامہ صاحب فرماتے ہیں
ہوس نے کر دیا ٹکڑے ٹکڑے نو ع انسان کو
اخوت کا پیا ہو جا محبت کی زبان ہو جا
مادی ہوس لالچ نے انسان کو خود غرض ،مطلب پرست،بے حس کر دیا ہے۔آج پھر جلدی دھیان سے یاد کر اے انسان،نبی پاکؐ نے فرمایا،ہمسائے کی خبر رکھا کرو، پیار محبت میں اضافہ ہو تا ہے۔ملاوٹ سے ہاتھ کھینچ لو،ملاوٹ انسانوں میں نفرت برائی پیدا کرتی ہے۔پیار محب سے پیش آتے ہوئے دوسروں کیا کام کیا کرو۔رشوت نہ لیا کرو۔دوسروں کیلے وقت نکال کر دوسروں کے مسائل حل کرنے میں مدد کرنی چائے۔ بھائی چارے سے انسانیت بڑھتی ہے۔نبی آخرالزمان کے فرمان کو غور و فکر سے یاد کرتے ہوئے عمل کرنے سے ہی تمام مسائل حل ہوں گے۔جب ٹھوکر کھاوٗ تو یاد کرو ،نبی اخرالزمان نے صاف شفاف راستوں پر چلنے کا علم دیا ہے۔